• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس کی عالمی وبا کے پیش نظر ملک میں ہونے والے لاک ڈائون کی وجہ سے کاروبارِ زندگی ٹھپ ہو چکا ہے۔ لاک ڈائون کی اِس صورتحال میں ہونے والے معاشی نقصان کو مدِنظر رکھتے ہوئے حکومتِ پاکستان کی جانب سے شرح سود میں ڈیڑھ فیصد کمی کے باعث غیرملکی سرمایہ کاروں نے گھبراہٹ میں پاکستان سے اپنا پیسہ نکالنا شروع کر دیا ہے جس سے ڈالر کی ڈیمانڈ میں زبردست اضافہ ہوا اور ڈالر ریکارڈ 7.40روپے مہنگا ہوکر 166.15روپے کا ہو گیا۔ ڈالر مہنگا ہونے سے ملک کے قرضوں میں 700ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف گولڈ مارکیٹ میں ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سونا ایک لاکھ روپے فی تولہ کی حد عبور کر گیا اور اُس کی قیمت 4ہزار 273روپے فی تولہ کے اضافے سے ایک لاکھ ایک ہزار 175روپے ہو گئی ہے۔ انٹر بینک میں ڈالر کی قدر 8.05روپے کے اضافے سے 167.25اور 167.75؍روپے ہو گئی دوسری جانب اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت خرید 5.40؍روپے کے اضافے سے 162.90؍روپے اور قیمت فروخت 7.40؍روپے کے اضافے سے 166.15؍روپے ہو گئی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق غیرملکی سرمایہ کاروں نے حکومتی قرضوں کی سیکورٹیز سے 1.56؍بلین ڈالر کی قلیل مدتی سرمایہ کاری واپس لے لی ہے جس کے نتیجے میں روپے پر دبائو بڑھ گیا۔ کورونا وائرس کے پھیلائو کو روکنے کیلئے کیے جانے والے لاک ڈائون کی وجہ سے ملک کا معاشی پہیہ پہلے ہی جام ہے ایسے میں ڈالر کی اونچی اُڑان کوئی نیک شگون نہیں۔ گزشتہ سال بھی پاکستانی روپے کی قدر میں تیس فیصد ریکارڈ کمی دیکھی گئی تھی جس کی وجہ سے ملکی قرضوں میں اربوں روپے اضافہ ہونے کیساتھ ساتھ صنعتی اور درآمدات و برآمدات کے شعبے کو بھی کافی نقصان پہنچا تھا۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ کورونا وائرس سے لڑنے کیساتھ ساتھ حکومت ایک ایسا معاشی روڈ میپ تشکیل دے جس سے ممکنہ معاشی بحران سے نمٹنے میں مدد مل سکے اور ڈالر کے بھی پر کاٹے جا سکیں۔

تازہ ترین