• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث پاکستان میں حالات انتہائی سنگین ہو گئے ہیں۔ ان حالات سے نمٹنے کیلئے وفاقی حکومت کے اقدامات سے متعلق وزیراعظم عمران خان نے اگلے روز ایک تفصیلی میڈیا ٹاک کی۔

ٹی وی چینل پر وزیراعظم کی باتیں سن کر میری تشویش میں اضافہ ہو گیا کیونکہ اس طرح کے سنگین حالات سے نمٹنے کیلئے چیف ایگزیکٹو آف پاکستان کی سوچ اور اپروچ سے ایسے سوالات نے جنم لیا ہے جو پریشان کن ہیں۔

دنیا بھر کی حکومتیں ان حالات سے نبرد آزما ہونے کیلئے اتفاق رائے سے فیصلے اور حکمتِ عملی وضع کر رہی ہیں تاکہ ان فیصلوں یا حکمت عملی کے غیر معمولی نتائج کی ذمہ داری سب قبول کریں اور سب مل کر حالات کا مقابلہ کریں۔

قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد وزیراعظم نے جو پریس کانفرنس کی، اس میں بھی انہوں نے جمہوریت اور آزاد میڈیا کی بات کی اور قبل ازیں صحافیوں اور اینکر پرسنز سے ملاقات میں بھی انہوں نے یہ باور کرایا کہ وہ جمہوری اقدار اور آزاد میڈیا پر یقین رکھتے ہیں۔

وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ 25سال تک لندن میں گرمیاں گزارتے رہے اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جمہوریت اور آزاد میڈیا کیا ہیں لیکن وزیراعظم جو کچھ کر رہے ہیں یا ان کی حکومت میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ان کے اقوال سے متضاد ہے۔

ان کا یہ کہنا کہ جمہوریت کیلئے آزاد میڈیا لازم ہے تو پھر پاکستان کے ایک بڑے میڈیا گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کے پابند سلاسل ہونے کا کیا مطلب ہے؟

ساری دنیا یہ بات جانتی ہے کہ جیو اور جنگ گروپ سے حکومت اور خود وزیراعظم عمران خان خوش نہ تھے۔ وزیراعظم اپنی ناراضی اور غصے کا کئی بار اظہار بھی کر چکے تھے۔ اس کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) کے ہاتھوں میرشکیل الرحمٰن کی گرفتاری سے عوام کو کوئی حیرت نہیں ہوئی۔

میر شکیل الرحمٰن کے خلاف کیس کا نیب کی عدالت میں ٹرائل شروع ہوا تو لوگوں کو بات مزید سمجھ آگئی۔ پریس کانفرنس کے دوران جب وزیراعظم سے یہ سوال کیا گیا کہ وہ ان حالات میں اپوزیشن کے رہنماؤں خصوصاً بلاول بھٹو زرداری اور میاں شہباز شریف سے رابطہ کیوں نہیں کرتے تاکہ موجودہ سنگین حالات میں مشترکہ حکمت عملی بنائی جاسکے، اس پر بھی وزیراعظم کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے اور اپنے اسی ’’اسٹیریو ٹائپ‘‘ بیانیہ سے کام لیا کہ لوٹ مار اور منی لانڈرنگ کرنے والوں سے کیسے رابطہ ہو سکتا ہے۔

جمہوریت کیا ہوتی ہے اور آزاد میڈیا کا اس میں کردار کیا ہوتا ہے، اس بات کو سمجھنے کیلئے لندن جانے یا لندن میں رہنے کی ضرورت نہیں۔ لندن پلٹ بہت کم لوگ ہیں جو جمہوریت اور آزاد میڈیا کا ادراک کر سکے۔ برطانیہ سمیت زیادہ تر یورپی ممالک میں پارلیمانی جمہوریت ہے۔

پارلیمانی جمہوریت میں وزیراعظم کی کابینہ سمیت اہم حکومتی عہدوں پر منتخب نمائندے ہوتے ہیں۔ صرف امریکہ جیسے ممالک کے صدارتی نظام میں کابینہ اور اہم سرکاری عہدوں پر غیر منتخب لوگوں کو مقرر کرنے کا اختیار صدر کے پاس ہوتا ہے لیکن وہاں بھی صدر زیاہ تر منتخب لوگوں کو ترجیح دیتا ہے۔ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کی پارلیمانی جمہوریتوں میں ایسا نہیں ہوتا، جو وزیراعظم نے کیا ہے۔

ان کی کابینہ کے ساتھ ساتھ دیگر اہم سرکاری عہدوں پر زیادہ تر غیر منتخب لوگ ہیں جو زیادہ تر باہر سے آئے ہیں، جنہیں پاکستان کے زمینی حقائق کا نہ تو علم ہے اور نہ ہی وہ پاکستان کے عوام کے مسائل اور نفسیات سے واقف ہیں۔

جمہوریت پر یقین کا عالم یہ ہے کہ وزیراعظم ایسے سنگین حالات میں بھی اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ رابطے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے کورونا سے پیدا ہونے والے بحران سے نمٹنے کیلئے آل پارٹیز کانفرنس تو بلائی لیکن وہ اس وڈیو کانفرنس میں اپنی تقریر کرنے کے بعد اٹھ کر چلے گئے۔ انہوں نے باقی سیاسی رہنماؤں کی باتیں اور تجاویز نہیں سنیں۔

یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اور میاں شہباز شریف اس کانفرنس سے احتجاجاً واک آئوٹ کر گئے اور اس طرح قومی اتفاق رائے سے پالیسی بنانے کا موقع ضائع ہو گیا۔ وزیراعظم جب لندن میں اپنا زیادہ وقت گزارنے کا حوالہ دے کر مغربی جمہوری اقدار اور آزاد میڈیا کے ادراک کی بات کر رہے تھے تو اس وقت میر شکیل الرحمٰن عدالت میں پیشی بھگت رہے تھے۔

جمہوریت کیلئے آزاد میڈیا لازم مگر میر شکیل الرحمٰن پابند سلاسل۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جمہوریت کی روح اور آزاد میڈیا کی جمہوری معاشروں کیلئے ناگزیریت کو سمجھنے کیلئے لندن جانا ضروری نہیں۔ پاکستان کے عوام سیاسی طور پر باشعور ہیں۔

ان میں سے 99فیصد لوگ ملک سے باہر بھی نہیں گئے ہوں گے۔ اب وقت آگیا ہے کہ وزیراعظم اس بڑے بحران میں اجتماعی دانش کا ادراک کریں۔ ان کی نیت پر کسی کو شک نہیں۔ وہ ملک کیلئے اچھا کرنا چاہتے ہیں۔

انہیں چاہئے کہ وہ اس بڑے بحران میں تمام سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی، میڈیا اور اہلِ رائے حلقوں کو اپنے ساتھ ملائیں اور اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے مشترکہ قومی حکمت عملی وضع کریں۔

کورونا کے اثرات ختم ہونے کے بعد اس کے خوفناک معاشی اثرات کا بھی مقابلہ کرنا ہے۔ اس لاک ڈاؤن کی صورتحال میں بھی بہت سارے چیلنجز ہیں۔ کروڑ ہا لوگ بیروزگاری اور فاقوں کی لپیٹ میں آ گئے ہیں۔ ان کو بھی سنبھالنا ہے اور بیمار لوگوں کو بھی ضروری طبی سہولتیں فراہم کرنا ہیں۔ یہ سارے کام حکومت اکیلے نہیں کر سکتی۔

تازہ ترین