• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عرفان جاوید ممتاز و معروف ادیب، افسانہ نگار، محقّق ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے برصغیر کی نام ور شخصیات پر اُن کےسوانحی خاکے ’’جنگ، سنڈے میگزین ‘‘ میں تواتر سے شائع ہوتے رہے۔ بعدازاں، ان خاکوں کے علاوہ کچھ دیگر خاکوں پر مشتمل اُن کی دو کُتب ’’دروازے‘‘ اور ’’سُرخاب‘‘ کے عنوان سے منظرِ عام پر آئیں اور ایسی مقبول ہوئیں کہ پھر اُن کے کئی ایڈیشن شائع کیے گئے۔

گزشتہ چند برسوں سے علمی وفکری موضوعات میں عرفان جاوید کی جُست جو اور فکروتحقیق کا حاصل، آئینہ تمثال مضامین کا مجموعہ ’’عجائب خانہ‘‘ ہے۔ یہ دنیا حیرت انگیز مظاہر و مناظر، موجودات و خیالات کا عجائب خانہ ہی تو ہے۔ سو، اس سلسلے کے کچھ منتخب مضامین اِس یقین سے قارئینِ جنگ کی نذر کیے جارہے ہیں کہ کئی اعتبار سے اپنی نوعیت کی یہ منفرد تحریریں یقیناً معلومات میں اضافے اور ذہنی تربیت کا سبب بنیں گی۔ ’’عجائب خانہ‘‘ سلسلے کی یہ تیسری کڑی پودوں، درختوں، جنگلوں کی رومانی اور روح پرور کائنات کا احاطہ کرتی ہے۔ اس میں دل چسپ واقعات، خرد افروز روایات ہیں، تو غور و فکر کا سامان بھی۔ (ایڈیٹر، سنڈے میگزین)

میرے بچپن کی ابتدائی یادیں اور رُومان درختوں سے وابستہ ہے۔ لاہور چھاؤنی کی گرمیوں کی دوپہروں کے سفید سنّاٹے میں صدی بَھر سے زیادہ قدیم درختوں کی گتھی ہوئی گنجان اور سبزے سے لَدی پھندی شاخوں سے کوئل کی سریلی کُوک برآمد ہوا کرتی تھی، جو سَستاتے لوگوں کی سماعتوں کو دُور سے سنائی دیتی لوری کی مانند تھپتھپاتی تھی۔ کچھ ایسی ہی کُوک دور دیہات و قصبات کے وسیع و عریض میدانوں، کھیتوں اور جنگل بیلے میں ندی کنارے گیہوں پیستی پَن چکّی سے برآمد ہوتی تھی۔ لوگ اور درخت بُوٹے یوں مِل جُل کر رہتے، جیسے ایک ہی خاندان کے افراد ہوں۔ لوگ مقامی تھے، تو درخت بھی اِسی مِٹی کے، سو بیچ میں اجنبیت نہ تھی۔ ابھی غیر مِٹیوں سے لاکر اجنبی درخت، پودے لگانے کا رواج نہ ہوا تھا۔ ایک راہ گیر بھی درختوں، پھولوں کے مقامی نام جانتا تھا۔ 

یہاں تک کہ کئی گلی محلّے بھی درختوں کے حوالے سے جانے جاتے۔ کوئی پیپل والی گلی تھی تو کوئی بوہڑ(برگد) والا چوک۔ ویسےہردرخت کی اپنی ایک شخصیت ہوتی ہے۔ پُرانے درختوں کی موٹی، گہری بھوری، سیاہی مائل چھال کے اوپر طرح طرح کے قدرتی چھلّے اور نقش ونگار نظر آتےہیں اور جب ہَوا چلے، تو اِس کے پتّے چَھن کر آتی دھوپ سے گھاس پر مختلف نمونے بناتے ہیں۔ سرسراتی ہَوا میں اس کی شاخوں اور پتّوں کا رُخ ہو، تیز ہَوا میں لچکیلے درختوں کا جھکاؤ ہو، بارش کے بعد گیلے سبز پتّوں سے پانی کی ٹپکتی بوندیں ہوں یا شاخوں اور تنے کی زندہ لکڑی کی ناقابلِ بیان مہک یا اُس کے گھنے پَن میں چُھپے پرندوں کی چہکار، یہ درخت بہرحال، انسان کے سچّے دوست ہوتے ہیں۔

میری زندگی کے بےشمار دن تنہائی میں درختوں کےساتھ گزرے ہیں۔ فیری میڈوز کی طرف جاتے ہوئے،جہاں سےنانگاپربت کی چوٹی اپنے پورے شکوہ کے ساتھ چاندنی اور صاف راتوں میں نظر آتی ہے، راستے میں الپائن کے صندلیں جنگل کے درختوں سے سال ہا سال سے گرتے پتّوں اور ٹہنیوں کا نرم وگداز رستہ ہو، ہمالیہ کے سلسلہ ہائے کوہ کے مغرب میں نتھیا گلی کے کیل بیاڑ کے نیلے صنوبروں کے اشجار، دیو دار کے تازہ مسحورکُن درخت، چیڑ کے بلندوبالا پَر وا ہوں یا دریائے چناب کنارے بیلے میں پھلائی، دیسی کیکر، سنبل کے اشجار ہوں، اِن میں پرندوں کی رنگین چہکار، ہوا کی سرسراہٹ اور پراسرار خاموشی نے ایک عرصہ مجھے اپنا اسیر کیے رکھا۔ یہ درخت بول نہیں سکتے، محسوس ضرور کرتے ہیں۔ بس اِک نرم ہم درد دل اور ذرا سا صبر چاہیے، یہ اپنی زبان میں کلام بھی کرتے سُنائی دیں گے۔ 

میرے بچپن میں بارشوں میں درختوں کے نیچے کھڑے ہونے سے منع کیا جاتا تھا، مبادا شاخیں، ٹہنیاں ٹوٹ گریں۔ ویسے تو ان کے نیچے پیشاب کرنے سے بھی منع کیا جاتا کہ ان کی گھناوٹ میں بسیرا کرتی ماورائی مخلوقات کا سایہ نہ ہو جائے یا جنات نہ چمٹ جائیں۔، داداجی کے چھاؤنی والے، میرے آبائی گھر کے باغ میں کئی رَوشیں تھیں، جن کے ساتھ چلتی کیاریوں میں سیاہ دیسی گلاب کی قلمیں لگیں تھیں اور طرح طرح کے دل کش، رنگا رنگ پھول اُگائے گئے تھے۔ سفیدے کے درخت کے ساتھ نیم کا درخت لگا تھا، جس پر پتے تو آتے تھے مگر نیم کا چھوٹا سا میٹھے گودے اور بڑی گٹھلی والا پھل نہ آتا تھا۔ نیم کے پھل کو خون کی صفائی اور کیل مہاسوں کے علاج کے لیے بہترین نسخہ سمجھا جاتا ہے۔ دونوں درخت مختلف مزاج کے تھے، مگر ایک طرح سے ہم مزاج بھی تھے کہ ایک بے پھل تھا، تو دوسرا ٹنڈمنڈ چھدرا چھدرا سا خشک۔

سُنتے تو یہ بھی تھے کہ ایک سو برس کی عُمر کے بعد آدمی کے سیاہ بال آنا شروع ہوجاتے ہیں اور نئے دانت اُگ آتے ہیں اور سُنتے تو یہ بھی تھے کہ اگر کسی درخت کو نقصان پہنچایا جائے تو وہ بد دُعادیتاہے، جو سیدھی عرش تک جاتی ہے۔ معصوم جان وَر بے زباں ہوتا ہے، تو اُسے گزند پہنچانا بہت گناہ ہے، مگر درخت نہ صرف بے زبان ہوتا ہے بلکہ اپنا دفاع بھی نہیں کرسکتا اور اپنی جگہ بھی نہیں چھوڑ سکتا، تو اُس کو تکلیف دینا نہ صرف گناہِ عظیم ہے بلکہ اس مظلوم کی بددعا کئی درجے زیادہ پرُاثرہوتی ہے۔ گھر کے سامنے صدر دروازے کےساتھ مولسری کا درخت تھا، جسے اُدھر ہندوستان میں مقدس مانا جاتا ہے۔ اس کا تذکرہ سنسکرت زبان کے ادب اور رامائن میں بھی ہے۔ مہاراج کرشن نے مولسری کے درخت کے نیچے بیٹھ کر بانسری بجاتے ہوئے، داسیوں کو متاثر کیا تھا۔ یہ درخت موسمِ بہار میں خُوب صُورت سفید پھولوں سے سج جاتا اور گرمیوں میں ناقابلِ خوردن پھل پیدا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی گھر میں بےشمار پھول بوٹے، جھاڑیاں اوردرخت تھے، جن کے پیچھے ہم چُھپن چُھپائی کھیلتے ہوئے دن کو چُھپ جایا کرتے، تو شام کے بعد ڈر جایا کرتے تھے۔ شام کے حوالےسےادبی جریدے ’’سویرا‘‘ میں معروف مصوّر، استاد اللہ بخش کے خاکے میں فاروق خالد نے کیا خُوب لکھا ہے کہ ’’ایک مرتبہ ایک شخص استاد کے پاس آیا اور شام کا منظر پینٹ کرنے کی فرمائش کی تو انھوں نے اُس شخص سے پوچھا ’’کس شام کا منظر؟ دُکھ بھری شام کا یا سُکھ بھری شام کا؟‘‘ استاد فرماتے تھے کہ ہر شام منفرد ہوتی ہے اور کوئی شام ایسی بھی ہوتی ہے، جو ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔‘‘ جدید مصروف دَور میں بہت سے لوگوں کے لیے صبح کے بعد دوپہر ہوتی ہے اور اُس کے بعد رات۔ 

شامیں اُن کی زندگیوں سے نکل ہی گئی ہیں۔ وہی شامیں، جب صحن میں بیٹھ کر خو ش گپیاں کی جاتیں اور ورانڈوں میں بیٹھ کر شام کی شفق کو دیکھتے ہوئے چائے پی جاتی۔ وہی شامیں، جب صحن کے فرش کی کچّی مٹی یا اینٹوں پر پانی کاچھڑکاؤ کرکے پیڈسٹل فین لگالیے جاتے، کرسیاں، دیوان سج جاتےاور ہم سائیوں کے گھروں میں پکتے، بُھنتے کھانوں کی اشتہا آمیز مہک فضا میں گُھل مِل جاتی، پرندوں کی گھروں کےصحنوں اورگلیوں بازاروں میں لگےجابجا درختوں میں چُھپے گھونسلوں میں واپسی کا وقت ہوجاتا، تو اُن کا شور بڑھ جاتا اورآہستہ آہستہ گلی محلوں بازاروں میں بتیاں روشن ہونا شروع ہو جاتیں۔ تب کا انسان ابھی کمروں میں قیدوبند کو بخوشی قبول نہ کرتا تھا۔

چھاؤنی ہی میں ہمارے داداجی کے آبائی گھرکے قریب ہی علاؤالدین روڈ پر برطانوی راج کےدَور کی متروک فوجی بیرکوں اور بارشوں سے خستہ ہوتی اشیا کےذخائرکےبےچھت گوداموں اور اُن سے ملحقہ خودرَو جھاڑیوں اور بلند جنگلی گھاس کے وسیع میدانوں والے احاطے کے ساتھ ایک بند سڑک پر نانا جی کا گھر بھی تھا۔ نانا جی خاصے دین دار انسان تھے، جو رات کو تہجّد ادا کرتے اور صبح فجر کی نماز کے بعد گھر کے سامنے کے باغ کے برابر ورانڈے میں قرآن پاک کی تلاوت کیا کرتے۔ اُن کے گھر میں سنگترے، بارہ ماہی لیموں، کچنار، نیم، شہتوت اور آم کے درخت تھے۔ داخلی گیٹ کے ساتھ کچنارکےدرخت تھے،جن سےحاصل ہونے والی کچنار، گوشت اور قیمے میں پکائی جاتی۔ نانا جی کی عادت تھی کہ جب ابھی دھوپ اونچے درختوں کی نوکوں کو چُھو کر نیچے باغ اور پھول بُوٹوں پر اُترنا شروع نہ ہوئی ہوتی، تو وہ رات کی بچی باسی اور سویر کی پکی تازہ روٹیوں کے بےشمار چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے نیم کے درخت کے نیچے موڑھے پر بیٹھ کر’’آ…آ…آ‘‘کی آوازیں لگانا شروع کردیا کرتے تھے ۔ 

اس آواز کے ساتھ وہ اپنے سامنے روٹی کے ٹکڑے بکھیرنا شروع کردیتے۔ چند ہی لمحوں میں بےشمار منتظر چڑیاں، پرندے وہاں اُتر آتے اور سَرجُھکائے معصومیت سے اپنا دانہ دنکا چُگنا شروع کردیتے۔ انھیں دیکھتے ہوئے نانا جی کے چہرے پر ہمیشہ ایک شفیق، دل فریب مسکراہٹ اُبھر آیا کرتی۔ انھوں نے یہ معمول اپنی موت کے دن تک جاری رکھا۔ اور اُن کی وفات کے بعد بھی بہت دِنوں تک چڑیاں وہاں اُتر کر نانا جی کا انتظار کرتی رہیں۔ موجودہ گھر بنایا گیا تو کئی نئے پودے، درخت لگائےگئے۔ والدہ سُناتی ہیں کہ والد صاحب نے یہاں گُل مہر کے چند پودے ایسے لگائے، جو اُنھیں پسند نہ تھے کہ یہ رَستے میں آتے تھے۔ انھوں نے والد صاحب سے تو خاص شکایت نہ کی مگر جب بھی گزرتیں تو ان پودوں کو ناپسندیدگی سے دیکھتیں۔ والدہ نے چند روز بعد دیکھا کہ وہ پودے جو اُنھیں پسند تھے، اپنی جگہ پَھلتے پُھولتے رہے، جب کہ ناپسندیدہ پودے آہستہ آہستہ مُرجھانے لگے۔ یہاں تک کہ بالآخرخشک ہو کر پہلے چِرمِرا سے گئے اورپھرمُرجھا کرقریباً ختم ہوگئے۔ یہ واقعہ برسوں پرمحیط نہ تھا بلکہ چند ماہ کا قصہ تھا۔ یوں انھیں احساس ہوا کہ درخت اور پودے انسانی جذبات محسوس کرسکتے ہیں۔ اس واقعے کے بعد والدہ نے نہ صرف ہرطرح کے پودوں، درختوں کی محبّت اور ہم دردی سے دیکھ بھال شروع کی بلکہ بعد ازاں ایک مرتبہ والد صاحب نے ایک صحت مند درخت کی بڑی شاخ سردیوں میں اِس لیے کٹوا دی تاکہ دھوپ کو رستہ مل سکے، تو والدہ اُن سے سخت ناراض رہیں۔ 

ایک زمانے بعد میں نے یہ واقعہ معروف فلم ڈائریکٹر، ٹی وی پروڈیوسر اور ماہرِفنونِ لطیفہ شعیب منصور صاحب کو سُنایا۔ شعیب صاحب گوشہ نشین شخص اور قدیم درختوں سے محبّت میں مبتلا ہیں۔ وہ کسی قدیم درخت کو دیکھ کر خیال کرتے ہیں کہ اِس بزرگ درخت نے نہ جانے کتنے قصّے کہانیاں اپنے سامنے بنتے بگڑتے دیکھے ہوں گے اور کئی نسلوں کو وجود میں آتے اور بحرِعدم میں غرق ہوتے دیکھا ہوگا۔ اِس تصوّر سے اُن کا دل نرم پڑجاتا ہے اور اُس درخت سے اپنائیت ومحبت کا ایک غیرمرئی ہالہ اُنھیں اپنے بازوؤں میں بَھرلیتا ہے۔ شعیب صاحب بتاتے ہیں کہ ڈیفینس، لاہور میں واقع اُن کے گھر کے کمرے میں، ہمسائے کی چمکیلی سفید عمارت سے، سورج کی آنکھیں چندھیا دینے والی روشنی منعکس ہو کر آتی تھی۔ 

وہ روشنی اُن کے لیے زحمت کا باعث بنتی تھی۔ اُنھیں خیال آیا کہ اگر اپنی کھڑکی میں وہ کوئی دل کش پودا لگادیں تو نہ صرف نظرکو گھائل کرتی روشنی سے بچاؤ ہو جائے گابلکہ کمرے سے باہر خُوب صُورت پوداخوش گوار احساس پیدا کرے گا۔ وہ نرسری سے گل مہر کے جڑواں پودے لے آئے۔ ایک پودا اپنی کھڑکی برابر لگا دیا اور دوسرا گھر کے بیرونی دروازے کے قریب۔ اس کے بعد وہ روزانہ اس پودے کو پُرشوق نگاہوں سے دیکھتے اور اس کے بڑھنے اور پَھلنے پُھولنے کے منتظر رہتے۔ جوں جوں پودابڑھتا گیا، اُس نے کھڑکی کے رستے آنے والی روشنی کی چکاچوند کو اپنی ٹہنیوں اور پتوں سے روک لیا۔ گل مہر کے اس پودے پر خُوب صُورت پھول آئے اور ماحول کو دلآویز کر گئے۔ مگر…اصل بات کچھ اورہے۔ شعیب صاحب گل مہر کے جڑواں پودے لائے تھے۔ وہ پودا جسے انھوں نے اپنی کھڑکی کے برابر لگایا اورپرُشوق اور منتظر نظروں سے دیکھتے رہے، خُوب پَھل پُھول کراونچا لمبا ہوگیا۔ اس کے برعکس وہ پودا، جسے نظروں سے دُور بیرونی گیٹ کے ساتھ لگایا گیا اور اُسے کچھ خاص توجّہ حاصل نہ تھی، کم زور بدن اور چھوٹے قد کارہ گیا۔ اب معاملہ ایسا ہوا کہ کھڑکی والاپودا، اپنے جڑواں بھائی سے قد میں سہ گنا ہوگیا۔ عین ممکن ہے کہ اس کی دیگر نباتاتی وجوہ ہوں، مگر شعیب صاحب سمجھتے ہیں کہ محبّت بَھری نظروں نے توانا پودے کی حوصلہ افزائی کی۔ توجّہ سے محروم پودا ویسی توجّہ نہ پاکر قدرتی قد و قامت سے زیادہ نہ بڑھ پایا۔

ایک اور واقعہ ہے یا شاید واہمہ یا اُن کے بین بین ہے۔ ہمارے گھر کے سامنے گھر میں ایک متموّل خاندان آکر آباد ہوا۔ میاں بیوی دونوں لاہور کے ایک معروف ادارے سے وابستہ تھے۔ اُن کی بیٹی کے ہاں پہلا بیٹا پیدا ہوا تو نانا نانی اور ماں باپ کا بہت لاڈلا ٹھیرا۔ اُس کی دیکھ بھال پر ایک ملازم علیحدہ سے مقرر کردیا گیا۔ جب وہ چلنے کے قابل ہوا تو ملازم اُس کے ساتھ کھیلتا اور اس کے ہم راہ ہی رہتا۔ پہلوٹھی کا بچّہ تھا، اُس کے خوب نخرے اٹھائے جاتے۔ تب ہمارے گھر والی سڑک یعنی اسد جان روڈ پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی، سو بچّہ اپنے ملازم کے ساتھ سڑک پارکرکے ہمارے گھر کی بغل میں لگے ارجن کے بزرگ درخت کے نیچے کھیلتا رہتا اور آتی جاتی اِکّادُکّا گاڑیاں تکتا رہتا۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ وہ سُست اور بیمار رہنے لگا۔ جب تحقیق کی گئی تو یہ روح فرسا خبر سامنے آئی کہ اُسے کوئی جان لیوا بیماری ہے۔ وہ بیماری اُسے مہینوں میں نگل گئی۔ وہ بچّہ فوت ہوا تو ہرسُو سوگ کا سماں تھا۔ 

دوپہر میں جنازے کے وقت اُس چارپائی کو جس پر معصوم کا بے جان بدن تھا، اُسی درخت کے نیچے لاکر رکھا گیا جس کے نیچے وہ کھیلا کرتا تھا۔ ہُوکا عالم تھا، ہَوا یوں تھمی ہوئی تھی کہ ایک پتّا بھی نہ ہلتا تھا۔ یوں لگتا تھا، جیسے ماحول پر سکتہ طاری ہو۔ یک دَم اُس تھمے موسم میں جانے کس طرح وہ درخت اِس واضح اندازمیں میّت پر جُھک سا گیا کہ وہاں موجود سبھی سوگواران نے اُسےدیکھا۔ اُس درخت کاایک بڑاساشاخہ ٹوٹا اوراپنی ٹہنیوں، پتّوں سمیت بچےکی چارپائی کےساتھ آن گرا۔ لوگ چونک اُٹھے۔ غالباً یہ اُس درخت کی جانب سے سوگ کا اظہار تھا یا فقط ایک اتفاق، مگر جو بھی تھا، اُس کی وجہ، اس وقت اور مقام پر بیان کرنا ممکن نہیں۔ ہزار توجیہات تراشی جاسکتی ہیں، مگر دل گواہی دیتا ہےکہ ننّھے بچّےکےغم میں اُس کے دوست درخت نے بھی اپنا حصّہ ڈالا تھا۔ گئےوقتوں میں درختوں سےمافوق الفطرت حکایات اور خواص وابستہ ہوتے تھے۔ آج بھی پاک و ہند میں بہت سے درختوں کی شاخوں پرمنّت کی، رنگا رنگ کپڑوں کی ٹکڑیاں بندھی نظر آجاتی ہیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین