• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاید خدا ہمیں کورونا وائرس کی سنگینی سے بچانا چاہتا ہے

اسلام آباد (انصار عباسی) ملک میں حکام پر امید ہیں کہ پاکستان کو کورونا وائرس کی وجہ سے اتنے سنگین بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جتنا چین، برطانیہ، امریکا، ایران اور کچھ دیگر یورپی ممالک کو کرنا پڑا ہے۔ 

وزارت صحت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک کے مختلف حصوں سے آنے والی اطلاعات انتہائی حوصلہ افزا ہیں کیونکہ وائرس بظاہر مقامی آبادی کیلئے اتنا خطرناک ثابت نہیں ہو رہا جتنا دنیا کے دیگر حصوں کے لوگوں کیلئے ثابت ہوا ہے۔ 

این آئی ایچ کے چیف میجر جنرل ڈاکٹر عامر اکرام نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ جینیاتی، سماجی، طبی اور دیگر وجوہات کی بناء پر پاکستان کورونا وائرس کے حملے کی سنگینی سے محفوظ رہا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد زیادہ ہو سکتی ہے لیکن ہلاکتوں کو چھپایا نہیں جا سکتا اور پاکستان کے معاملے میں وائرس سے ہونے والی اموات اور تعداد پریشان کن نہیں ہے۔ 

میجر جنرل عامر اکرام نے اس یقین کا اظہار کیا کہ کورونا وائرس سے جڑی شرح اموات پاکستان میں بہت کم ہے۔ ایک اور سرکاری ذریعے نے اعتراف کیا کہ پاکستان میں وائرس کے ٹیسٹ کی سہولت نامناسب ہیں اور اسی لیے ملک میں متاثرہ افراد کی اصل تعداد اعلانیہ 2200؍ سے کہیں زیادہ ہو۔

 تاہم، اس کے باوجود مرنے والوں کی تعداد اور وائرس کی وجہ سے بیمار مریضوں کی تعداد بہت کم ہے؛ یہ بات حوصلہ افزا ہے اور ساتھ میں چین، اٹلی، ایران، اسپین، برطانیہ، امریکا اور کچھ دیگر انتہائی زیادہ متاثرہ ممالک کے مقابلے میں مختلف ہے۔ 

صرف یہی نہیں بلکہ کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے 90؍ فیصد مریضوں میں بیماری کی علامات بھی نہیں لیکن باقی دس فیصد مریضوں میں سے جن کی حالت سنگین ہے ان کی تعداد بھی کم ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ سنگین علیل ایسے مریض جنہیں وینٹی لیٹرز کی ضرورت ہے ان کی تعداد بھی 24؍ سے کم ہے۔ 

سرکاری ذریعے نے کہا کہ جو حالات نظر آ رہے ہیں، لگتا ہے کہ خدا ہمیں اس وائرس کی سنگینی نے بچانا چاہتا ہے، اپریل کا پہلا ہفتہ حالات اور صورتحال واضح کر دے گا۔

 پاکستان میں کورونا وائرس کے اثرات کے کم ہونے کے حوالے سے کوئی ٹھوس وجوہات بیان نہیں کی گئیں لیکن بہتر قوتِ مدافعت اور موسم کی صورتحال کا ذکر ضرور کیا جا رہا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سابق چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر عطاء الرحمان نے حال ہی میں کہا تھا کہ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں پھیلنے والے کورونا وائرس کی قسم چین سے پھیلنے والے وائرس کے مقابلے میں مختلف ہے۔

 انہوں نے کہا کہ چین میں پھیلنے والے وائرس کے کروموسوم پاکستان میں پھیلنے والے وائرس سے مختلف ہیں۔ چند امریکی سائنسدانوں کے مطابق، خطے میں ٹی بی سے بچائو کیلئے پاکستان اور بھارت وغیرہ میں پیدائش کے وقت بچوں کو دی جانے والی Bacillus Calmette Guerin (BCG) ویکسین جان لیوا کورونا وائرس کیخلاف جنگ میں ’’گیم چینجر‘‘ ثابت ہوسکتی ہے۔ 

اٹلی اور امریکا کی مثال پیش کرتے ہوئے نیویارک انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین کی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کورونا وائرس کے اثرات کی سنگینی کا بچوں کو بی سی جی ویکسین کے پروگرام کے ساتھ تعلق ہو سکتا ہے۔

 یہ تحقیق ابھی شائع ہونا باقی ہے۔ نیویارک انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں بایو میڈیکل سائنسز کے اسسٹنٹ پروفیسر گونزالو اوتازو کی قیادت میں محققین نے لکھا ہے کہ ’’ہم نے دیکھا ہے کہ ایسے ممالک جہاں بی سی جی ویکسین کی پالیسی نہیں ہے، مثلاً اٹلی نیدرلینڈز اور امریکا، ایسے ممالک کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہوئے ہیں جہاں طویل عرصہ سے بی سی جی ویکسین کا پروگرام جاری ہے۔ 

تحقیق کے مطابق، بیماری اور اموات کی شراح کم ہونے کی وجہ سے بی سی جی ویکسین کورونا کیخلاف گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔

تازہ ترین