• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتے جنگ گروپ کے چیئرمین اور ہفت روزہ اخبارِ جہاں کے ایڈیٹر انچیف علالت کے باعث انتقال کر گئے۔ کوئی چار ماہ قبل ہم نے ان کی علالت کے حوالے سے کچھ رپورٹیں انمول کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ابوبکر شاہد اور معروف آرتھو پیڈک سرجن پروفیسر ڈاکٹر ابوبکر صدیق کو دکھائی تھیں۔ دونوں کی رائے تھی کہ صورتحال خاصی گمبھیر ہے اور کینسر پورےجسم میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ مجھ میں بالکل حوصلہ نہیں تھا کہ میں میر شکیل الرحمٰن صاحب کو یہ صورتحال بتاتا۔ بہرحال حوصلہ کر کے ان کو ساری صورتحال بتائی۔ وہ اگرچہ پہلے سے اس صورتحال سے آگاہ تھے، اس دوران انہوں نے اپنے بڑے بھائی کے لئے بےشمار ملکی اور غیر ملکی ڈاکٹروں سے گھنٹوں ان کی بیماری کے حوالے سے ڈسکس کیا اور جہاں جہاں سے بہترین علاج ہو سکتا تھا وہاں رابطہ کیا، وہ بہت فکرمند تھے۔ بہرحال میر شکیل الرحمٰن نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی مگر جو ﷲ تعالیٰ کی ذات پاک کو منظور ہوتا ہے، وہی ہوتا ہے۔ ﷲ تعالیٰ میر جاوید رحمٰن کو اپنے جوارِ رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے عزیز و اقارب خصوصاً والدہ محترمہ کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین!

میر جاوید رحمٰن بڑی خوبصورت شخصیت اور رکھ رکھائو والے انسان تھے۔ کوئی بیس پچیس برس قبل ان سے پہلی مرتبہ کسی کام کے حوالے سے بات ہوئی۔ ان دنوں موبائل فون نہیں تھے، زندگی بڑی پُرسکون تھی۔ آفس کے فون کی گھنٹی بجی، میں نے فون اٹھایا، دوسری جانب سے ایک بارعب آواز آئی ’’کیا میں واصف ناگی صاحب سے بات کر سکتا ہوں‘‘، میں نے عرض کیا ’’جی میں بول رہا ہوں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ میں میر جاوید رحمٰن ہوں، اگر آپ مصروف نہیں اور اس وقت آپ کے پاس وقت ہے تو بات ہو سکتی ہے؟ میں نے کہا کہ سر! آپ حکم کریں۔ تو انہوں نے نہایت مشفقانہ انداز میں کہا کہ فلاں مسئلہ ہے اس کے بارے میں آپ سے بات کرنا ہے۔ خیر ہم نے اس حوالے سے اپنی ناقص عقل کے مطابق رائے دے دی، انہوں نے شکریہ ادا کیا اور فون بند ہو گیا۔ وہ مسئلہ حل ہو گیا۔ اس کے بعد ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں مگر دلچسپ صورتحال یہ رہی کہ وہ ملاقاتیں اکثر لاہور اور کراچی ایئرپورٹ پر ہوتی رہیں۔ کبھی وہ لاہور جا رہے ہوتے تو کبھی کراچی، لیکن ہر مرتبہ مجھے وہ Latteکافی پلاتے تھے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ میں کیپو چینو کافی پسند کرتا ہوں۔ ایک مرتبہ کراچی ایئر پورٹ پر ملے تو پوچھا کہ ناگی کون سی کافی پیو گے۔ میں نے عرض کی کیپو چیو، تو کہنے لگے کہ اس دفعہ میرے کہنے پر latteپیو، اچھی لگے گی، اس کے کئی فوائد بھی بتائے۔ اس کے بعد انہوں نے کئی مرتبہ مجھے یہ کافی پلائی اور جب تک جہاز کی روانگی کا وقت کا نہ ہو جاتا وہ سیاست، صحافت اور سماجی مسائل پر بڑی سیر حاصل گفتگو کرتے اور ہر مرتبہ میری رائے پوچھتے۔ انہوں نے کئی مرتبہ کہا کہ آپ اخبار جہاں کیلئے ہفتہ وار ڈائری بھی لکھا کریں اور اس حوالے سے ان کے برادر اِن لا ڈاکٹر اظہر مسعود بھٹی نے بھی مجھے کئی دفعہ کہا کہ آپ اخبارِ جہاں کیلئے لکھا کریں، اکثر جاوید صاحب پوچھتے ہیں کہ ناگی صاحب کا مضمون نہیں آیا۔ بہرحال میر جاوید رحمٰن بڑے پُرعزم انسان تھے۔ اخبار جہاں کے ہر شمارے کو بہتر سے بہتر بنانے کیلئے ہردم کوشاں رہتے اور اس کو اپنی اولاد کی طرح چاہتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی سربراہی میں اخبارِ جہاں پاکستان کا کثیر الاشاعت ہفتہ وار ہے۔ آہ! میر صاحب بےشمار خوبیوں کے مالک تھے۔

اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ پاکستان کورونا وائرس سے دنیا میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک بن جائے گا۔ یہ بات انتہائی تشویشناک ہے۔ سرکاری اطلاعات کے مطابق مریضوں کی تعداد دو ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے جبکہ غیر سرکاری اطلاعات کے مطابق کورونا کے مریضوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے اور 40سے زائد افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ پاکستان میں کورونا کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر وزیراعظم نے قوم سے گزشتہ ہفتے خطاب کیا۔ اگرچہ خطاب میں کوئی اہم بات نہ تھی سوائے اس کے کہ نوجوانوں کی ٹائیگر فورس بنائی جائے گی حالانکہ اس ملک میں پہلے ہی سول ڈیفنس کے رضاکار موجود ہیں۔ پھر نئی فورس بنانے کی کیا ضرورت؟ سول ڈیفنس کے رضا کاروں سے کام لیا جا سکتا ہے۔ کورونا فنڈ قائم کیا جائے گا۔ ہماری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ایک طرف کورونا وائرس سے بچنے کیلئے ہجوم اور رش میں جانے سے حکومت، صحت کے تمام ادارے اور ڈبلیو ایچ او منع کر رہا ہے دوسری طرف حکومت ٹائیگر فورس بنا رہی ہے اور تیسری طرف تمام میڈیکل کالجوں، یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں کے اسٹوڈنٹس کو بلا رہی ہے۔ کیا اس سے کورونا وائرس نہیں بڑھے گا؟ اب حکومت کورونا کے نام پر فنڈز اکٹھا کر رہی ہے۔ کہا جا رہا ہےکہ 60ہزار کٹس منگوائی گئی ہیں۔ پنجاب کے تمام سرکاری اسپتالوں میں 60ہزار ڈاکٹرز نہیں، وہ خصوصی لباس اور کٹس آخر کہاں گئیں؟ پمز اسلام آباد اور کئی سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹرز پلاسٹک کے تھیلے اور پلاسٹک کے بیگ پہن کر مریضوں کا علاج کر رہے ہیں۔

انڈین فلم اسٹار انوپم کھیر نے ایک وڈیو پیغام میں کیا خوبصورت بات کہی ہے کہ اس کورونا وائرس نے اچانک ساری زندگی بدل دی، کسی بھی چیز کی اب کوئی اہمیت نہیں، اب کوئی یہ کہے کہ میرے پاس اتنی گاڑیاں ہیں، اتنے بڑے گھر ہیں، اتنے کپڑے ہیں، سب کی اہمیت ختم ہو گئی۔ کاش انسان سمجھ سکے؎

اس سے پہلے بن جائیں یہ شہر کھنڈر

اے بندے ابھی وقت ہے جھانک اپنے اندر

تازہ ترین