• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آٹے اور چینی کے جس مصنوعی بحران کا سامنا پچھلے دنوں قوم کو کرنا پڑا، وزیراعظم کی جانب سے اس کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی کمیٹی کی رپورٹوں کی اہم تفصیلات کا خود ان کی ہدایت پر گزشتہ روز اس کے باوجود منظر عام پر لے آیا جانا کہ ان میں بحران کی بنیادی ذمہ داری حکومتی شخصیات پر عائد کی گئی ہے اور اس سے سب سے زیادہ مالی فائدہ حاصل کرنے والے خود حکمراں جماعت اور اس کی اتحادی پارٹیوں کے رہنما یا ان کے قریبی عزیر قرار دیے گئے ہیں، اس معاملے کا نہایت مستحسن اور امید افزا پہلو ہے۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے کے سربراہ واجد ضیاء کی سربراہی میں قائم کی گئی چھ رکنی کمیٹی کی چینی بحران رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف میں کلیدی اہمیت کے حامل رہنما اور وزیراعظم عمران خان کے نہایت دیرینہ اور قریبی ساتھی جہانگیر ترین اس بحران سے فائدہ اٹھانے والوں میں سرِفہرست ہیں جبکہ دیگر افراد میں وفاقی وزیر فوڈ سیکورٹی خسرو بختیار، حکومت کی اتحادی جماعت مسلم لیگ(ق) کے رہنما مونس الٰہی اور ان شخصیات کے رشتے دار شامل ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کے بعض وابستگان اور پیپلز پارٹی کی قیادت سے تعلق رکھنے والے اومنی گروپ کی ملوں کو بھی رپورٹ کے مطابق حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں ابھرنے والے اس بحران سے خطیر مالی فائدہ پہنچا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سابقہ برسوں میں چینی کی پیداوار مقامی ضرورت سے بہت زیادہ تھی لہٰذا برآمد کیے جانے کا فیصلہ درست تھا لیکن پچھلے سال گنے کی پیداوار مقامی ضرورت سے کم ہونے کے باعث چینی کی قلت پیدا ہو جانے کے خدشے کے باوجود متعلقہ حکومتی ذمہ داروں کی جانب سے برآمد کی اجازت، برآمد پر سبسڈی دینے اور مصنوعی قلت کی بنیاد پر چینی کی فی کلو قیمت بیس روپے تک بڑھ جانے سے شوگر مل مالکان نے اربوں روپے کا ناجائز منافع کمایا۔ رپورٹ کے مطابق چینی کی برآمد کے لیے یہ گمراہ کن پیشین گوئی بھی کی گئی کہ گنے کی پیداوار مقامی ضرورت سے بہت زیادہ ہوگی۔ ذرائع کے مطابق چینی بحران کی تحقیقات رکوانے کے لیے بااثر شخصیات کی جانب سے یہ دھمکی بھی دی گئی کہ چینی کی قیمت ایک سو دس روپے تک بڑھا دی جائے گی۔ متعلقہ ذمہ داروں کے جرم کو ان کا یہ طرزِ عمل مزید سنگین بناتا اور انہیں سخت تادیب کا مستحق ٹھہراتا ہے۔ گندم بحران سے متعلق رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی غیرذمہ داری آٹے کی قلت اور مہنگائی کی اصل وجہ بنی۔ ایم ڈی پاسکو کی گندم خریداری کی رپورٹ درست نہیں تھی۔ وزارتِ فوڈ سیکورٹی نے ای سی سی کو غلط اعدادوشمارپرگندم برآمد کرنے کا مشورہ دیا۔ 2019ءمیں گندم کی پیداوار کا غلط اندازہ لگایا گیا۔ جبکہ مالی سال 2019-20میں ایک لاکھ 63ہزار ٹن گندم برآمد کی گئی۔ گندم کی برآمد اور پھر درآمد میں تاخیر کی وجہ سے بےچینی پھیلی اور لوگوں نے ذخیرہ اندوزی شروع کردی۔گندم کی برآمد پرپابندی نومبر کے بجائے جون 2019ءمیں لگنا چاہئے تھی۔ پنجاب حکومت نے تین ہفتے کی تاخیر سے گندم کی خریداری کی۔ سندھ حکومت کے گندم اسٹاک میں بڑے پیمانے پر چوری ہوئی، گندم کی خریداری نہ کرنا بھی سندھ حکومت کی سنگین کوتاہی ہے۔ وزیر اعظم کے خصوصی معاون برائے احتساب شہزاد اکبر کے بقول سربراہِ حکومت نے انہیں حکم دیا تھا کہ جو لوگ بھی ان بحرانوں کے ذمہ دار قرار پائیں، مرتبے اورجماعتی وابستگی کی پروا کیے بغیر ان کے خلاف سخت اقدام کیا جائے۔ امید ہے کہ رپورٹ کے منظر عام پر لائے جانے کے بعد وزیراعظم اپنے ساتھیوں سمیت مصنوعی بحران کے تمام ذمہ داروں کے خلاف سخت اقدام کے اس عزم کو کسی لیت و لعل کے بغیر عملی جامہ پہناکر ملک میں بلا امتیاز احتساب کی روایت قائم کریں گے جس کے بغیر کرپشن سے نجات کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

تازہ ترین