• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی کا کاندھا استعمال نہ کریں، کھیل پر توجہ دیں، سابق کرکٹرز کا نوجوانوں کو مشورہ

کراچی (عبدالماجد بھٹی/ اسٹاف رپورٹر) پاکستان کی تاریخ کے تین عظیم کرکٹرز رمیز راجا، وقار یونس اور مشتاق احمد کا خیال ہے کہ کھلاڑی میڈیا سے اپنے تعلقات اس وجہ سے نہ بنائیں کہ وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کررہے ہوں جب کوئی کھلاڑی اس خوش فہمی میں میڈیا سے تعلق جوڑے گا تو وہ عظیم بننے کے بجائے اوسط درجے کا کھلاڑی بنے گا۔ اسی طرح میڈیا کو بھی اپنا کام بے خوفی کے ساتھ اور نڈر انداز میں کرنا چاہیے تاکہ اس کاکام ایجنڈے پر مبنی نہ ہو۔ انہوں نے مشورہ دیا ہے کہ کرکٹرز کسی کا کاندھا استعمال نہ کریں بلکہ کھیل پر توجہ دیں۔ اتوار کو لاک ڈائون کے دوران تینوں مشہور کھلاڑی سینئر صحافیوں کے ساتھ کھلاڑیوں اور صحافیوں کے تعلقات کے عنوان سے ایک دلچسپ مذاکرے میں اپنے تجربات شیئر کررہے تھے۔ انہوں نے اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کیا ۔ صحافیوں کا کہنا تھا کہ ہمیں ذمے داری سے اپنے کرکٹرز کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھانا ہے۔ کھلاڑیوں اور صحافیوں کے تعلقات ضروری ہیں لیکن اس میں حدود کا تعین بھی لازمی ہے۔ مذاکرے میں سینئر صحافیوں عبدالماجد بھٹی، سہیل عمران، عمر فاروق کولسن اور شاہد ہاشمی نے ویڈیو لنک پر شرکت کی۔ ماضی کے عظیم فاسٹ بولر اور موجودہ بولنگ کوچ وقار یونس نے کہا کہ ٹی ٹوئنٹی آنے کے بعد صحافت میں تیزی نظر آرہی ہے دور جدید کی صحافت فاسٹ اور فیوریس ہے۔ ہر روز چونکا دینے والی اور سنسنی خیز خبر کے حصول میں لگ رہا ہے کہ اصل صحافت کھو گئی ہے۔ کھلاڑیوں اور صحافیوں میں اعتماد کا رشتہ ہوتا ہے لیکن سنسنی خیز خبر کے حصول میں صحافیوں نے کھلاڑیوں کے اشتراک سے ڈریسنگ روم کی باتیں بھی میڈیا کی زینت بنا دیں۔ میڈیا اور کرکٹرز میں ہمیشہ لو اینڈ ہیٹ ریلیشن ہوتا ہے۔ حدود کا تعین کرکے یہ سوچا جائے کہ کہاں سے آپ کی عزت پر حرف آئے گا۔ سابق کرکٹرز میڈیا پر بیٹھ کر جو الفاظ استعمال کرتے ہیں وہ ان کی شایان شان نہیں ہوتے۔ رمیز راجا نے کہاکہ صحافی کو بے باک،نڈر اور غیر جانب دار ہونا چاہیے۔ صحافت کو ایجنڈے کی بنیاد پر نہیں کرنا چاہیے۔ عمران خان جس دور میں ہمارے کپتان تھے وہ میڈیا کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ حالیہ دور میں میڈیا طاقتور ہے۔ کچھ کھلاڑی میڈیا کو استعمال کرتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں صحافیوں میں معلومات کی کمی ہے ۔جب ڈان بریڈ مین کرکٹ کھیلتے تھے صحافی بھی ڈریسنگ روم میں بیٹھ کر میچ کور کرتے تھے۔ عمران خان کہتے تھے کہ گھر ،گاڑی اور پیسے کے پیچھے نہ بھاگو جب آپ اچھا پرفارم کریں گے تو تینوں چیزیں آپ کے پیچھے بھاگیں گی۔ کرکٹرز کو کسی کا کاندھا استعمال کرنے کے بجائے رول ماڈل بننا ہوگا۔ وقار یونس نے موجودہ کھلاڑیوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہ میچور نہیں ہیں۔ سوشل میڈیا پر آنے والی باتوں کو رات بھر سوچتے ہیں اور اسی سوچ میں صبح گرائونڈ پہنچ جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا سے اجتناب برتنے کی ضرورت ہے۔ پی سی بی جونیئر کھلاڑیوں کو میڈیا کے سامنے لاکر اچھا کام کررہا ہے۔ رمیز راجا نے کہا کہ پاکستانی صحافت میں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ میچ کے دوران بھی چند لوگ کام کرتے ہیں اور اکثریت گپ شپ میں مصروف ہوتی ہے۔ میں بھی صحافت اور پرنٹ میڈیا میں آنا چاہتا ہوں لیکن کرکٹرز کے ساتھ فاصلے رکھ کر کام کرنے کا حامی ہوں۔ حقائق لکھیں اور اس کے ردعمل سے نہ ڈریں۔ نئے لوگ آئیں گے تو مقابلہ بڑھے گا۔ اسپن بولنگ کنسلٹنٹ مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ آج کی صحافت بریکنگ نیوز والی صحافت ہے۔ اسی لئے کئی بار میڈیا پر پیسے لینے اور مراعات لینے کے سنگین الزامات لگتے ہیں میں چھ سال انگلش ٹیم کے ساتھ رہا ۔ ہمیں میڈیا کے سامنے جانے سے پہلے بریف کیا جاتا تھا۔ کئی بار انگلش میڈیا بھی حدود پار کرجاتا تھا ایک بار مجھ سے اسامہ بن لادن کے بارے میں سوال پوچھ لیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا انصاف کے تقاضے پورے کرے اور اپنی ملازمت کی پرواہ کئے بغیر حق اور سچ کو رپورٹ کرے۔ مشتا ق احمد نے کہا کہ جب وقار یونس ہیڈ کوچ تھے تو اکثر کھلاڑیوں کو کہتے تھے کہ ڈریسنگ روم کی کہانیاں میڈیا میں نہ پہنچاو ، بدقسمتی سے یہ روش تبدیل نہ ہوسکی ہمارے دور میں اوسط درجے کا کرکٹر دس بارہ سال اس لئے کھیل جاتا تھا کیوں کہ وہ کھیل پر فوکس تھا۔ا ٓج حالات مختلف ہیں۔ مشتا ق احمد نے کہا کہ جاوید میاں داد کہتے تھے کہ اپنے سفید یونیفارم کا خیال کرتے ہوئے دوسرے کاموں سے بچو۔

تازہ ترین