• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی رکھنا غیرآئینی ہے اور ایسے غیرانسانی سلوک پر قیدی حکومت اور جیل حکام کیخلاف ہرجانے کا دعویٰ کر سکتے ہیں‘‘، اڈیالہ جیل کے قیدیوں کی جانب سے دی گئی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے نے ملک کی جیلوں میں سزا یافتہ ہی نہیں بلکہ زیر تفتیش اور زیر سماعت قیدیوں کے ساتھ بھی روزِ اوّل سے روا رکھے جانے والی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سدِباب کی راہ ہموار کردی ہے۔ عدالتِ عالیہ کے سربراہ جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں انکوائری کمیشن کی رپورٹ کو بھی شامل کیا ہے جس کے مطابق ملک کی جیلوں میں 55ہزار 634قیدیوں کی گنجائش ہے مگر 77ہزار قیدی موجود ہیں جبکہ ان میں سے 60فیصد قیدی مجرم نہیں بلکہ وہ ملزم ہیں جن کے مقدمات کی سماعت عدالتوں میں جاری ہے۔ فیصلے میں وفاقی حکومت کو غریب قیدیوں کی مفت قانونی معاونت کیلئے اقدامات کی ہدایت کرکے نظامِ انصاف میں ایک اور ناگزیر اصلاح کی ضرورت واضح کی گئی ہے۔ حصولِ انصاف ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن عدالتی اخراجات کا بندوبست اور لائق وکیلوں کی خدمات کا حصول دولتمند ملزمان ہی کیلئے ممکن ہوتا ہے جبکہ غریب قیدی اکثر کسی جرم کے بغیر بھی عشروں جیلوں میں پڑے رہتے ہیں اور پھر عدالتوں سے باعزت بری قرار پا بھی جائیں تو اس مدت میں انکا سب کچھ برباد ہو چکا ہوتا ہے۔ نظامِ انصاف کی ایسی سنگین خامیوں کی اصلاح کیلئے عدالتی فیصلے میں وزیر انسانی حقوق کی سربراہی میں قائم انکوائری کمیشن کو عملدرآمد کمیشن کا درجہ دیتے ہوئے ہدایت کی گئی ہے کہ کمیشن قیدیوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے حکومت کو تجاویز پیش کرے اور ان پر عملدرآمد سے متعلق رپورٹ ہر ماہ کی 30تاریخ کو رجسٹرار ہائی کورٹ کے پاس جمع کرائی جائے۔ فیصلے کے مطابق ملک کی جیلوں کی اصلاح آئین اور انسانیت کا تقاضا ہے لہٰذا اس پر عملدرآمد میں کسی لیت و لعل کا مظاہرہ نہیں کیا جانا چاہئے۔

تازہ ترین