وزیراعظم عمران خان نے خدا کا واسطہ دے کر جس دردمندی کے ساتھ پاکستانیوں سے اپیل کی ہے کہ آنے والے دنوں میں کورونا میں پھیلائو کے امکانات کو نظر انداز کرنے کی غلطی سے بچتے ہوئے پوری سنجیدگی سے تمام احتیاطی تدابیر بروئے کار لائیں، ان کا ہر سطح پر لحاظ رکھا جانا چاہئے۔ وزیراعظم نے بدھ کے روز اپنے معاونین کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران عوام سے جو درخواست کی اس کی متعدد وجوہ میں سے بعض کا وہ پہلے بھی ذکر کرتے رہے ہیں اور مذکورہ پریس کانفرنس میں بھی بعض کا اشارہ دیا ہے۔ ماہرین کے تجزیے آنے والے دنوں میں کورونا کیسز کی تعداد بڑھنے کے جس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں، ہماری بے احتیاطی، غفلت، لاک ڈائون کے تقاضے پورے نہ کیے جانے یا کسی اور وجہ سے خدا نخواستہ کیسز کی وہ تعداد سامنے آگئی تو وطن عزیز کی مشکلات بہت بڑھ سکتی ہیں جہاں ایک طرف وینٹی لیٹر سمیت ضروری طبی سامان کی دستیابی پر اظہارِ اطمینان کرنا ممکن نہیں۔ دوسری جانب غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ بروقت خوراک کی فراہمی یقینی نہ بنائی گئی تو بہت سی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔ تیسری جانب معاشی سرگرمیوں کا جمود ہر روز نت نئے خطرات کی طرف اشارہ کر رہا ہے اور چوتھی جانب بیرونِ ملک پاکستانیوں کی بڑی تعداد کی ملازمتیں ختم ہونے سے ان کے ترسیلاتِ زر میں تعطل کی صورتحال کئی مسائل کا پیش خیمہ بن رہی ہے۔ یہ ایسی صورتحال ہے جس میں پاکستانیوں کو من حیث القوم ’’کورونا‘‘ کی پیش قدمی روکنے کی تدابیر بھی کرنی ہیں اور ایسے اقدامات پر بھی توجہ دینی ہے جن کے ذریعے دیہات سے خوراک اور دوسری ضروری اشیا کی رسد جاری رہے اور شہروں سمیت مختلف مقامات پر محنت کشوں کو احتیاط کے دائرے میں رہتے ہوئے حصولِ زر کے مواقع کسی نہ کسی درجے میں حاصل رہیں۔ معاشی انجماد لاک آئوٹ کا نتیجہ تھا مگر ہمیں اپنی معیشت کے پہیے کو زنگ آلود ہونے سے بچانا بھی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بدھ کے روز جس پریس کانفرنس میں اپریل کے آخر تک کورونا متاثرین کی تعداد بڑھنے، حالات تشویشناک ہونے اور اسپتالوں میں جگہ کم پڑنے کے خدشات کا اظہار کیا اسی پریس کانفرنس میں انہوں نے واضح کیا کہ دیہات میں لاک ڈائون نہیں کیا گیا جہاں احتیاط کے تقاضے ملحوظ رکھتے ہوئے فصلوں کی بوائی کٹائی سمیت بہت سے کام کیے جانے ہیں۔ وزیراعظم کا یہ موقف عملی حقائق کے قریب تر ہے کہ پاکستان مکمل لاک ڈائون کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے ملکی تاریخؒ کے سب سے بڑے سماجی بہبود کے پروگرام کے آغاز کا اعلان بھی کیا جس کے تحت غریبوں میں 12ہزار روپے فی خاندان کے حساب سے اڑھائی ہفتے میں 144ارب روپے تقسیم کیے جائیں گے۔ 17ہزار مقامات سے شفافیت کے تمام تقاضے ملحوظ رکھتے ہوئے امدادی رقوم دی جائیں گی۔ پہلے مرحلے میں 23ہزار خاندانوں تک رقم پہنچائی جائے گی بعد ازاں ضرورت پڑنے پر فنڈ میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ کورونا ریلیف ٹائیگر فورس ضلع، تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر کام کرتے ہوئے ضرورت مندوں کی نشاندہی بھی کرے گی اور ان کی مشکلات کے حل میں مدد بھی دے گی۔ ایسے عالم میں، کہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنل سینٹر روزانہ کی بنیاد پر کورونا وائرس سے پیدا شدہ صورتحال کا جائزہ لیتا اور فیصلے کرتا ہے، توقع کی جانی چاہئے کہ ناکافی مالی و مادی وسائل کے باوجود وفاقی و صوبائی حکومتوں کی کاوشوں میں زیادہ ہم آہنگی نظر آئے گی، مختلف ذرائع سے حاصل شدہ مالی، تکنیکی اور انسانی وسائل کی مدد پورے نظم و ضبط کے ساتھ بروقت ضرورت مندوں تک پہنچتی رہے گی اور پاکستانی قوم اس بحران سے سرخرو ہوکر جلد نکل آئے گی۔