• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کرام! ’’آئین نو‘‘ کا سلسلہ بعنوان ’’میر شکیل الرحمٰن کے ’’قومی جرائم‘‘ کی گواہی تو جاری ہے تاہم ڈیزائنڈ عالمی بحرانی کیفیت میں بحران سے نپٹنے کی پاکستانی کیپسٹی کے یکسر نظر انداز ہونے پر حساس ترین حالاتِ حاضرہ میں بھی موجود اور بڑھتےکھلواڑ نے مجبور کردیا کہ اپنے پیشہ ورانہ فرض کے طور پر اپنا نقطہ نظر اور مطلوب حکمت عملی کو ہی ’’آئین ِ نو‘‘ کے جاری سلسلے میں موضوع بنایا جائے، یہ یقین اپنی جگہ ہے کہ خود وزیر اعظم اور ان کی چھتری میں وزرا ئے اعلیٰ، وفاقی وزرا اور متعلقہ اتھارٹیز تک ایسی تجاویز و آرا کو پہنچانے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ 32،34 ترجمانوں والی اس حکومت نے یہ ماڈل بنا کر خود ہی واضح کر دیا ہے کہ بس وہ سنانے پر ہی یقین رکھتی ہے نا کہ قوم و عوام کو سننے پر، وگرنہ تو روایتی حکومتوں کی طرح ہی اس حکومت میں بھی اس کا کوئی نہ کوئی میکنزم تو موجود ہوتا۔ حکومت کی اپنی وزارت اور پارٹی کا میڈیا سیل اپنی جگہ اتنا نااہل اور افسر شاہی ماڈل کی طرح مکار ہے کہ اس نے حکومت و پارٹی کے ’’گھنٹہ گھر‘‘ تک کوئی کام کی بات یا قابلِ غور تجویز کی پہنچ کا خصوصی انتظام کیا ہوا، اس کا واحد انتظام ہی یہ ہے لہٰذا وزیر اعظم کا عوام و خواص سے مہلک فاصلہ اوراسٹیٹس کو کے پجاریوں کی طرف سے ان کا مضبوط گھیرائو، شیئرڈ پالیسی و فیصلہ سازی سے مکمل روکے ہوئے ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بحران جس نوعیت کا اور جتنا تشویشناک ہے اس سے زیادہ سے زیادہ بہتر طور پر نپٹنے کا پہلا اور بنیادی تقاضا ملک میں مستقل شکل اختیار کی گئی چپقلش، تقسیم در تقسیم اور حکومت و اپوزیشن کے اختلاف نہیں بغض کو، رویوں میں اچانک اور غیر معمولی تبدیلی لا کر قومی اتحاد و یکجہتی کی صورت فوراً نکالنا تھی۔ اس کے لئے لازم تھا کہ سیاسی نوعیت کے، کرپشن اور احتسابی دائرے میں آنے والے حکومت و اپوزیشن کے بنائے مقدمات کو ختم نہیں تو بحران کے مکمل خاتمے تک فریز کردیا جاتا۔ حکومت، اپوزیشن اور مختلف مکتب ہائے مسلک کے علما کو جمع کرکے یا آن لائن جملہ قومی امور میں سے چار پانچ چھ فوکس ایریازکی متفقہ نشاندہی کی جاتی اور ان میں کام کرنے کا ایکشن پلان، روڈ میپ اور اسٹرٹیجی تیار ہوتی، جو بحران سے نپٹنے کا قومی ایجنڈا بن جاتا اور اس کاتعین ہو جاتا کہ سب کیسے کیسے، کہاں کہاں اور کتنا کتنا کام کریں گے۔

٭ناچیز کے نزدیک ترجیح نمبر 1 قوم کی جنگی بنیاد پر ذرائع ابلاغ عامہ، سائنس دانوں، ابلاغی ماہرین اور اعلیٰ منتظمین کے تعاون اشتراک سے عوام کی ’’جنرل ایجوکیشن‘‘ کا پلان تیار ہوتا، جس کے پیکیج مین اسٹریم اور سوشل میڈیا سے ڈیلیور ہوتے۔ مقصد قوم کا حوصلہ بلند رکھنا، ان کی خود احتیاط اختیار کرنے کے آسان طریقے آسان زبان میں قومی اور علاقائی زبانوں میں نشر و شائع کرنے کا اہتمام کرنے کیلئے خوشگوار گورنمنٹ، میڈیا مینجمنٹ ٭بجلی، پانی، گیس اور فون و نیٹ کی ہر حالت میں سپلائی، نیز بین الاضلاعی و صوبائی ٹرانسپورٹ کو محفوظ اور محدود (ناگزیر ضرورتوں کیلئے) جاری و ساری رکھنے کی منصوبہ بندی، جس میں ہیومن ریسورس کی سیکنڈ لائن، کسی ڈسٹربنس کو فوری کنٹرول کرنے کیلئے، پہلے سے تیار ہو٭خوراک کا ملکی پیداواری عمل نہ صرف بدستور جاری رکھنے، بلکہ اسے بڑھانے اور اس کی ترسیل اور صارفین میں، قیمتیں بڑھائے اور فقدان پیدا کئے بغیر، کو آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں سوفیصد یقینی بنانے کے لئے علاقائی بنیاد پر (جہاں جیسا ہیومن ریسورس مطلوب ہے) آپریشنل فورس کے دستے تعینات کردینے چاہئیں۔٭فوڈ اسٹوریج کیلئے فقط سرکاری گوداموں پر ہی انحصار نہ کیا جائے، اس کا دائرہ اور حفاظت کا انتظام تحصیل کی سطح تک بڑھا دینا چاہیے، جس کیلئے، اسکولوں، بڑے سرکاری دفاتر کی عمارتوں، فارم ہائوسز اور بڑے بڑے رہائشی یونٹس کے پورشن حاصل کرلئے جائیں تاکہ چھوٹے چھوٹے رہائشی یونٹس کی سطح پر خوراک کی فوری تقسیم ممکن ہو سکے اور صارفین میں بے چینی نہ پیدا ہو۔ ٭بڑے شہروں میں بے آباد اور نیم آباد ہائوسنگ اسکیموںمیں خالی پلاٹس کی بھرمار ہے، یہاں مالی، ٹریکٹر، پانی کی سپلائی بھی موجود ہے، بجلی اور گیس فراہمی کی سہولتیں آچکی ہیں۔ یہ رہائشی اسکیمیں زرعی رقبوں پر بنی ہیں جو صدیوں سے خوراک اگلتی رہیں، انہیں اب خالی نہ رہنے دیا جائے، مزید مطلوب ورک فورس اور ان پوٹس بیج کھاد،اور اسپرے وغیرہ کا انتظام کرکے ان میں سبزیاں لگانے کا کام شروع کردینا چاہیے یہ شہروں کی سبزی کی ضرورت پوری کرسکتی ہیں۔ ماڈل کے طور پر ڈی ایچ اے یہ کام اپنی کیپسٹی اور ڈسپلن کے باعث جلد سے جلد کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ اس نے کام شروع کردیاتو چراغ سے چراغ جلتا جائے گا۔ اس پروجیکٹ سے چھوٹے شہروں اور قصبات میں سبزیوں کی فراوانی ہوگی اورسبزیوں کی قیمتیں کم تر ہو جائیں گی۔ ٭خوراک کی پیداوار سپلائی اور تقسیم میں کمیٹیاں مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں پر مشتمل ہوں اور ان کی نگرانی امام مسجد، صحت مند ریٹائرڈ سرکاری ملازمین، اساتذہ کریں۔ ٭تمام محکموں کو بالکل بند کیا جائے، ہر محکمہ اسٹاف کے 25فیصد اسٹاف کے ساتھ مع احتیاطی تدابیر دو دو تین تین کی باری سے محکموں میں آ کر کام شروع کریں ساتھ فون اور آن لائن رابطہ گھروں میں موجود ملازمین سے رہے۔٭گھروں میں کام کرنے والے ورکرز الیکٹریشنز، پلمبر،پینٹرز، کار پینٹرز، مالی وغیرہ کو انگیج کرنے کے لئے کوئی مخصوص فون نمبر دیے جائیں۔ یہ ہنر مند اپنے نمبر اس مرکز پر رجسٹرڈ کرائیں تاکہ جس گھر کو ضرورت ہے، وہ یہاں سے ضرورت کی لیبر کی خدمات لے سکے۔

تازہ ترین