انصار عباسی
اسلام آباد :… سرکاری ذرائع نے خبردار کیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو یہ ماننے پر مجبور کیا جا رہا ہے کہ انہیں صرف ایک شخص، جہانگیر ترین، نے ہی دھوکا دیا اور تنہا چھوڑ دیا ہے لیکن وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ اپنے ارد گرد بھی دیکھیں کیونکہ ایسا کرنے والے دیگر لوگ بھی ہیں۔
اگرچہ ذرائع سمجھتے ہیں کہ وزیرواعظم عمران خان کو ان کے کچھ با اعتماد لوگوں نے دھوکا دیا ہے، لیکن انہی ذرائع کا اصرار ہے کہ حکومت کی چینی مافیا کے ساتھ پینگیں بدستور برقرار ہیں۔
رواں سال فروری میں وزارت صنعت و پیداوار نے اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) سے رابطہ کرکے بغیر ٹیکس کی ادائیگی کے تین لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کی تجویز پیش کی تاکہ ملک میں چینی کی بڑھتی قیمتوں پر قابو پایا جا سکے۔
ای سی سی نے اس اقدام کی اجازت نہیں دی بلکہ برآمد پر فوری پابندی عائد کر دی۔ ای سی سی کی رائے تھی کہ ڈیوٹی فری درآمد کے نتیجے میں حکومت کو ٹیکس استثنیٰ اور ڈیوٹی کی مد میں 14؍ ارب روپے کا نقصان ہوگا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، ای سی سی کی رائے تھی کہ درآمدات سے قیمتیں کنٹرول میں رکھنے میں مدد نہیں ملے گی اور یہ اقدام غیر نتیجہ خیز بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق، بعد میں کابینہ کے اجلاس میں اسد عمر نے مبینہ طور پر یہ معاملہ اٹھایا اور نتیجتاً کابینہ نے چینی کی درآمدات پر ریگولیٹری ڈیوٹی ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ اس ضمن میں 24؍ فروری 2020ء کو ریونیو ڈویژن نے نوٹیفکیشن جاری کیا۔
تاہم، بعد میں درآمد کردہ چینی پر 750؍ ڈالر فی ٹن کے حساب سے سیلز ٹیکس عائد کیا گیا حالانکہ اس وقت بین الاقوامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت 375؍ ڈالرز فی ٹن تھی۔
ذریعے کے مطابق، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس وقت مقامی چینی پر سیلز ٹیکس کی شرح 11؍ روپے فی کلوگرام تھی، اس وقت درآمد کردہ چینی پر 21؍ روپے فی کلوگرام ٹیکس وصول کیا جا رہا تھا، جس سے چینی کا کاروبار کرنے والوں کو مزید 10؍ روپے کا فائدہ پہنچایا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بالآخر اس وقت ختم کیا گیا جب کابینہ کے کچھ ارکان نے یہ معاملہ حکومت کے روبرو اٹھایا۔ توقع ہے کہ 25؍ اپریل کو انکوائری کمیشن کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد سب کچھ واضح ہوجائے گا کہ طاقتور شوگر لابی سمیت کون ملوث ہے اور جب وفاقی حکومت نے ریگولیٹری ڈیوٹی معاف کی تو 750؍ ڈالر فی ٹن کے حساب سے سیلز ٹیکس کس نے لگایا۔
آج بھی کورونا وائرس کی وبا کے دوران، حکومت نے کھانے پینے کی تمام اشیاء پر ڈیوٹی اور ٹیکس ختم کرنے کی کوشش کی لیکن چینی کے درآمد کنندگان کو 5.5؍ فیصد پیشگی انکم ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے جبکہ مقامی چینی کیلئے گزشتہ بجٹ میں ایڈوانس انکم ٹیکس کی شرح 4.5؍ فیصد سے کم کرکے صرف 0.25؍ فیصد کر دی گئی تھی۔
ایک ذریعے نے کہا کہ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے حخومت کی جانب سے مقامی شوگر انڈسٹری کی بھرپور خدمت کا سلسلہ جاری ہے اور قیمت پاکستانی عوام سے وصول کی جا رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مسابقتی قیمتوں پر چینی کی درآمد کے نتیجے میں حکومت کو ملک میں چینی کی بڑھتی قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی۔
آج جب چینی کی قیمت 90؍ روپے فی کلوگرام تک جا رہی ہے اور ڈالر 167؍ روپے کا ہوچکا ہے، چینی کی کوئی درآمد نہیں اور یہ صورتحال مقامی مارکیٹ میں چینی پیدا کرنے والوں کیلئے بہت خوشگوار ہے۔
ایف آئی اے کی انکوائری رپورٹ میں پہلے ہی خبردار کیا جا چکا ہے کہ سٹے کی بنیاد پر رمضان کے سیزن میں چینی کی قیمت 100؍ روپے فی کلوگرام ہو جائے گی۔
اس کے علاوہ، چینی مافیا کے کچھ لوگوں نے پہلے ہی وزیراعظم کو دھمکی دی ہے کہ اگر شوگر کمیشن کی جاری تحقیقات بند نہ کی گئیں تو چینی کی قیمتیں 110؍ روپے فی کلوگرام ہو جائے گی۔ کہا جاتا ہے کہ ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیاء کو بھی اسی مافیا نے دھمکی دی تھی۔
واجد ضیاء سے کہا گیا تھا کہ تحقیقات بند کی جائے۔ 2018ء میں جب ای سی سی نے برآمدات کی اجازت دی تھی اس وقت ملک میں چینی کی قیمتیں 55؍ روپے فی کلوگرام پر مستحکم تھی۔ اس کے بعد سے قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں۔ اس کے بعد سے قیمت بڑھتے بڑھتے اب یہ اوسطاً 68.21؍ روپے فی کلوگرام ہو چکی ہیں۔
سرکاری مداخلت کی وجہ سے پاکستان میں چینی کی قیمتوں میں 13.74؍ روپے فی کلوگرام تک اضافہ ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 4؍ لاکھ 25؍ ہزار ٹن ماہانہ کے استعمال پر پاکستانی عوام ہر ماہ شوگر انڈسٹری کو 5.7؍ ارب روپے اضافی ادا کر رہے ہیں۔
نومبر 2018ء سے فروری 2020ء تک گزشتہ 16؍ ماہ کے دوران عوام نے اضافی 87؍ ارب روپے ادا کیے جبکہ مارچ 2020ء میں، جب قیمت 80؍ روپے فی کلوگرام تک پہنچی تو عوام نے مزید 10؍ ارب روپے اضافی ادا کیے۔ اور اب، مارکیٹ میں چینی کی قیمت 85؍ سے 90؍ روپے فی کلوگرام تک ہوگئی ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ چینی انڈسٹری کو مزید فائدہ ہوگا۔