• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذوالفقار بھٹو کا دورہ واشنگٹن اور ایٹمی سمٹ 2016ء

امریکی صدر اوباما کی میزبانی میں منعقد ہونے والی نیوکلیئرسیکورٹی سمٹ، میں دو ایسے ایٹمی ممالک نے بھی شرکت کی جو ایٹمی طاقت تو عملاً بن چکے ہیں مگر انہیں ایٹمی ممالک کیلئے معاہدہ این پی ٹی کی رکنیت نہیں دی گئی بلکہ پاکستان کو بھی نیویارک سپلائرز گروپ تک رسائی اور سپلائی کی سہولت نہیں دی گئی جبکہ بھارت کو اس گروپ کی رکنیت دی جا چکی ہے۔ واشنگٹن میں ہونے والی اس دو روزہ سمٹ میں50سے زائد ایسے ممالک شامل تھے جو یا تو ایٹمی مواد کی سپلائی اور ہینڈلنگ کرتے ہیں یا پھر ایٹمی طاقت اور ایٹمی مواد استعمال کرتے ہیں۔ اس سمٹ کی بنیادی تھیم ہی یہ تھی کہ ایٹمی مواد یا ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھوں سے محفوظ رکھے جائیں ۔اس سمٹ میں وزیر اعظم نواز شریف تو شریک نہ ہو سکےتاہم وزیر اعظم کے اسپیشل اسسٹنٹ طارق فاطمی، سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری اور سفیر جلیل عباس جیلانی نے اپنے معاونین سمیت شرکت کی ۔ گو کہ پاکستان کی نمائندگی کرنے والے ہمارے محترم سفارت کار اور ترجمان تو اپنے بیانات میں واضح انداز میں یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور ایٹمی اثاثوں کے بارے میں نہ تو کوئی دبائو آیا نہ بحث ہوئی اور کانفرنس میں عالمی سطح پر ایٹمی سیکورٹی کا موضوع ہی زیر بحث رہا، کسی ایک ملک پر بات نہیں ہوئی کیونکہ نیشنل سیکورٹی ہر ملک کی اپنی ذمہ داری ہے۔ میرے ان محترم سفارت کاروں اور نمائندوں کا موقف اصولی طور پر درست ہے لیکن نیوکلیئر سمٹ کے دو روز، میں نے اور بعض صحافیوں نے واشنگٹن کے اس وسیع و عریض ہال، میڈیا سینٹر ،بریفنگ رومز ،کلوز سرکٹ ٹی وی، کانفرنس میں شریک مختلف ممالک کے نمائندوں اور ترجمانوں کے درمیان گزارے ہیں اور یہ مشاہدہ ،معلومات اور ترجمانوں کے سرکاری و غیر سرکاری بیانات و تبصرے نہ صرف اپنے پاکستانی نمائندوں اور ترجمانوں سے اختلافی رائے قائم کرنے پر مائل کر رہے ہیں بلکہ متعدد سوالات بھی پاکستان کے قومی مفاد اور آنے والی صورتحال کے تناظر میں اٹھانے کی ذمہ داری بھی عائد کر رہے ہیں۔ (1) سمٹ کا تمام تر زور اور مقصد دہشت گردوں سے ایٹمی مواد اور ایٹمی اثاثوں کو محفوظ کرنا ہے۔ ایٹمی پاکستان میں دہشت گردی کی جنگ لڑی جارہی ہے۔ بھارت میں ایٹمی پروگرام میں عدم سیکورٹی کے پانچ واقعات ریکارڈ پر ہیں۔ دنیا میں دسمبر2014ء تک 2700سے بھی زیادہ چوری اور عدم سیکورٹی کے واقعات میں ایک بھی واقعہ پاکستان میں نہیں ہوا۔ لیکن سیکورٹی کے اتنے مثالی اور صاف ریکارڈ کے باوجود امریکی و عالمی میڈیا اور ترجمان پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو تنقید اور اندیشوں کا نشانہ بناتے چلے آ رہے ہیں۔تو پھر امریکہ کے جنوبی ایشیا میں نئے اور بڑے اتحادی بھارت کی پاکستان دشمنی کی موجودگی اور مخالفانہ مہم کی شدت کے ہوتے ہوئے پاکستان کے ایٹمی پروگرام ،دہشت گردی اور پاکستان کے بارے میں ڈائرکٹ یا ان ڈائریکٹ بات ہی نہ ہو ؟ کیا یہ ممکن ہے ؟ (2) خود صدر اوباما نے پاک بھارت ایٹمی صلاحیتوں کا ذکر کیا ۔چھوٹے ایٹمی ہتھیار (ٹیکٹیکل) اور پاکستان بھارت آگے چل کر اپنی ایٹمی طاقت کو کس سمت لے جاتے ہیں اس خطرناکی کا ذکر بھی صدر اوباما نے اپنی پریس کانفرنس میں کیا ہے۔ امریکہ پاکستان اور بھارت کے ایٹمی اثاثوں اور صلاحیت کیلئے کسی یکساں مخالفت یا مطابقت کا سلوک کرنے کی بجائے بھارت کو ذمہ دار ،مراعات کا مستحق قرار دے کر نوازشات کے امریکی دروازے کھول چکا ہے جبکہ ایٹمی پاکستان کے حصے میں دبائو ، تشویش تعزیرات اور پابندیاں آئی ہیں۔ (3) اس نیوکلیئر سمٹ کے دوران بھارتی ترجمان پاکستان کے خلاف الزامات، شبہات ،ایٹمی عدم سیکورٹی کی آڑ میں خوب پروپیگنڈہ کرتے رہے، جس کا ہم نے قطعاً کوئی جواب نہیں دیا ۔پھر اقوام متحدہ میں چین نے جیش محمداور مولانا اظہر مسعود کے بارے میں ایک فیصلے کو ٹیکنیکل بنیادوں پر رکوا دیا تو بھارتی ترجمان چین کی بجائے اس کے دوست پاکستان کے خلاف شور مچانے لگ گئے۔ یہ دونوں امور ہمارے نمائندوں کیلئے تو سمٹ کے ایجنڈا سے باہر ٹھہرے اور ان کی جانب سے خاموشی رہی جبکہ بھارتی ترجمان سمٹ کے عالمی پلیٹ فارم کو پاکستان کے خلاف آزادانہ استعمال کرتے رہے۔ جنوبی ایشیائی خطے میں ایٹمی سیکورٹی کے پانچ واقعات کا ریکارڈ رکھ کر بھی بھارت ایٹمی خدشات اور خوف، پاکستان کے خلاف پھیلاتا رہا ہے۔ مختصر الفاظ میں ہمارے مخالفین پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے گرد اپنے دہشت گردی اور ایٹمی سیکورٹی کے عنوان سے گھیرا تنگ کرنے کی سفارتی پروپیگنڈہ ،معاشی اور خفیہ سرگرمیوں کی پلاننگ کا آغاز کر چکے ہیں۔ بھارت ،فرنٹ لائن اسٹیٹ کےطور پر کام کر رہا ہے۔ دوسری طرف ہمارے قائدین بھارتی ’’را‘‘ ایجنٹ کی گرفتاری اور بے نقاب ہونے کے باوجود عالمی یا علاقائی سطح پر مصلحت، خوف اور خاموشی کا شکار ہیں۔ پاکستان ایک بحران نہیں بلکہ بحرانوں کا شکار ہے اور بحران میںمبتلا قوم کو متحرک اور منظم عملی قیادت کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے فیصلے کرنے والے حکمران تو خود ہی کنفیوژن کا شکار اور بے عملی کے مرتکب ہیں۔ کیا بغداد یا برصغیر میں مغلوں کے زوال کا دور پھر آ گیا ہے ؟
واشنگٹن کی نیوکلیئر سمٹ کے دوران مجھے مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کا دورہ واشنگٹن (فروری1975ء) اور اسی امریکی دارالحکومت میں ذوالفقار علی بھٹو کی سفارت کاری، ہنری کسنجر، صدر فورڈ اور دیگر لیڈروں سے مذاکرات اور انکے عوامی رویوں کے مشاہدات یاد آئے۔ میں بھی واشنگٹن میں موجود تھا میرے ساتھ محترم صحافی عارف نظامی، اور محمود شام بھی وہائٹ ہائوس میں جاز میوزک، امریکی صدر فورڈ کی فیملی، بیگم نصرت بھٹو ،عزیز احمد اور آغا شاہی کے ساتھ مناظر واٹر گیٹ ہوٹل اور واٹر گیٹ اسکینڈل کے بارے میں تنقید و تبصروں کے ساتھ ساتھ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی انتہائی ذہین سفارت کاری ان کے وزیروںکے نیلے چائنا کوٹ والے نمایاں لباس بھی دیکھ چکے ہیں۔ اب تو بھٹو مرحوم کے دورہ امریکہ میں مذاکرات کرنے والوں کی دو طرفہ فہرست، اور زیر بحث آنے والے معاملات و جوابات سامنے آ چکے ہیں۔ ان کے دور کی امریکی خفیہ دستاویزات کو ڈی کلاسیفائیڈ کر دیا گیا ہے۔ آپ ان دستاویزات کو پڑھیں اور خود فیصلہ کریں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی فوج کی شکست ،پاکستانی قوم کے مورا ل اور معیشت و معاشرت کی بحرانی کیفیت کے دور میں بھی ذوالفقار علی بھٹو نے واٹر گیٹ اسکینڈل کا شکار جیرالڈ فورڈ کی صدارت اور ہنری کسنجر جیسے شاطر ڈپلو میٹ سے کس قدر باوقار انداز میں پاکستان کا موقف بیان کیا، جی ہاں وہی ہنری کسنجر جس نے بعد میں جب لاہور میں ایک ملاقات میں ذوالفقار علی بھٹو کو ایٹم بم بنانے سے باز رہنے کی دھمکی دی تو ذوالفقار علی بھٹو نے پہلے انتہائی ڈپلومیٹک انداز میں جواب دیکر ہنری کسنجر سے اپنی ذہانت اور سفارتی مہارت تسلیم کروا لی اور پھر کسنجر کی دھمکی کہ اگر ایٹم بم بنایا تو تمہارا حشر کر دینگے۔ ‘‘ ہنس کر بھٹو چلے گئے بدھ کے روز 5فروری 1975ءکو وہائٹ ہائوس میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور صدر جیرالڈ فورڈ اور دونوں طرف کے تین معاونین کے درمیان ہونے والی گفتگو ابھی تک خفیہ ریکارڈ کا حصہ تھی اب وہ سامنے ہے او ر ڈپلو میسی اور بھٹو کی جرات کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہے۔ ان( 17) صفحات میں بہت سے نوٹ ہاتھ سے بھی لکھے ہوئے ہیں۔مشکلات اور بحران کا شکار پاکستان کے قائد ذوالفقار بھٹو نے واٹر گیٹ اسکینڈل میں مبتلا امریکی حکومت سے جرات سے بات کی جس کی تفصیل پھر سہی ایسی ہی جرات مند قیادت کی ضرورت واشنگٹن میں ہونے والی نیوکلیئر سمٹ میں بھی تھی۔ انہی امریکی دستاویزات کےمطابق ذوالفقار علی بھٹو نے امریکیوں کو بتا دیا تھا کہ ’’بھارت کی ٹوٹل سیکورٹی کا مطلب پاکستان کی مکمل عدم سیکورٹی ہے۔ ‘‘ آج بھٹو کی موت کے37سال بعد بھی بھارت کے بارے میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی یہ بات کتنی اٹل ہے ۔نیوکلیئر سمٹ کے موقع پر بھارتی ترجمانوں نے پھر یہ ثابت کر دیا مگر ہم پاکستانی سمٹ کے ایجنڈے کی حدود میں خاموش رہے۔
تازہ ترین