• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حفیظ اللہ خان ! آپ عمران خان سے ناراض ہیں کہ انہوں نے ڈاکٹر شیر افگن کے بیٹے امجد خان کو میانوالی سے تحریکِ انصاف کا ٹکٹ کیوں دیا ہے۔ اس نشست پر انعام اللہ خان کا حق تھا بے شک آپ کا ناراض ہونا بجا ہے۔ انعام اللہ خان اس نشست سے نون لیگ کے ایم این اے رہے ہیں وہ نون لیگ کو چھوڑ کر تحریک ِانصاف میں آئے اور تمام ٹی وی چینلوں پر بھرپور انداز میں تحریک انصاف کی وکالت کرتے رہے بلکہ انہوں نے تحریک انصاف کیلئے دن رات ایک کر دیا، نون لیگ سے دشمنی مول لی جس کی وجہ سے انہیں بہت سے نقصانات ہوئے، خاص طور پر ان کا کاروبار تباہ بھی ہوا یا کر دیا گیا۔ انعام اللہ خان کی قربانیوں سے انکار ممکن نہیں یقینا انعام اللہ خان کو اُس نشست سے تحریک انصاف کا ٹکٹ ملنا چاہئے تھے لیکن آپ نے جو امجد خان کو ٹکٹ نہ دینے کی وجوہات بیان کی ہیں مجھے ان سے اختلاف ہے ۔ یہ کوئی بات نہیں کہ امجد خان کو اس لئے ٹکٹ نہیں ملنا چاہئے کہ ان کے باپ ڈاکٹر شیر افگن خان نے عمران خان کے خلاف اپنی زندگی میں بری زبان استعمال کی تھی۔ ذاتی طور پر میں اس بات کو بھی تسلیم نہیں کرتا مگر ممکن ہے ایسا ہوا ہو ڈاکٹر صاحب نے کبھی کچھ ایسا کہہ دیا ہو جو انہیں نہیں کہنا چاہتے تھا مگر باپ کے جرم کا سزاوار آپ بیٹے کو کیسے ٹھہرا سکتے ہیں۔ میری زندگی کا ایک طویل حصہ ڈاکٹر شیر افگن کے ساتھ گزارا ہے۔ ان کے بیٹے بیرم خان کی وفات کے بعد ان کے ساتھ میرے بہت سے اختلافات پیدا ہو گئے تھے جو ان کی وفات سے ایک ڈیڑھ سال پہلے ختم ہوئے مگر ایک بات میں ان کے متعلق پورے یقین سے کہتا ہوں کہ وہ جیسے تھے، جو کچھ بھی تھے کرپٹ ہر گز نہیں تھے۔ دوسری بات جو آپ نے کی ہے کہ جن لوگوں نے امجد خان کو تحریک انصاف کا ٹکٹ دلایا ہے انہوں نے میانوالی کی سطح پر تحریک انصاف سے کوئی بھیانک بدلہ لیا ہے۔ یہ بات بھی صریحاً غلط ہے۔ میرے خیال میں آپ کو یوں سوچنا چاہئے تھا کہ ان لوگوں نے میانوالی میں تحریکِ انصاف کو تازہ خون مہیا کیا ہے۔ امجد خان کسی حوالے سے بھی کوئی کمزور امیدوار نہیں اگر انعام اللہ خان اور امجد خان دونوں امیدوار ہوتے تو یہ بات یقینی تھی کہ اُس نشست پر نون لیگ کا امیدوار کامیاب ہو جاتا جب کہ اب میانوالی میں ایم این اے کی دونوں نشستوں پر تحریک انصاف کی فتح کنفرم ہو چکی ہے۔ جہاں تک بات ہے انعام اللہ خان کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی تو عمران خان انعام اللہ خان کا بھائی ہے میرے خیال میں آپ لوگوں سے زیادہ تو عمران خان کا قریبی کوئی اور رشتہ دار نہیں ہے۔ اگر عمران خان نے اپنے ایک بھائی کی نشست امجد خان کو دے کر میانوالی کے بڑے سیاسی گروپ کو اپنے ساتھ ملایا ہے تو کوئی نقصان کا سودا نہیں کیا۔ تحریک انصاف کی فتح میں انعام اللہ خان کی یہ قربانی سنہری حروف سے لکھی جائے گی یقینا اس بات کا احساس تحریک انصاف کی تمام لیڈر شپ کو پوری طرح ہو گا۔ مستقبل میں تحریک انصاف انعام اللہ خان کی اس قربانی کو دیکھتے ہوئے انہیں سینیٹر بھی بنا سکتی ہے۔
مجھے آپ کی یہ بات اچھی لگی ہے کہ آپ نے عمران خان کے اس فیصلے کے ساتھ جو اختلاف کیا اسے گھر تک محدود نہیں رکھا بلکہ پوری پاکستانی عوام کے سامنے رکھ دیا ہے۔ یہ بات تحریک انصاف کی قوت ہے، جو سچ آپ نے سمجھا اسے بھی لوگوں کے سامنے رکھ دیا ہے جو بات عمران خان نے بہتر سمجھی، اس نے بھی اس پرعمل کیا ہے۔آپ کا اختلاف بجا مگر اس اختلاف سے تحریک انصاف کو نقصان نہیں ہونا چاہئے۔ چاہے عمران خان کا فیصلہ سو فیصد ہی غلط کیوں نہ ہو اب آپ کا اور انعام اللہ خان کا یہ فرض ہے کہ آپ پوری ایمان داری کے ساتھ امجد خان کا ساتھ دیں، اسی میں آپ کی عظمت ہے۔
میں نے کل یہی باتیں انعام اللہ خان سے بھی کی ہیں اور آج کالم بھی لکھ رہا ہوں کہ مجھے اس بات پر بہت افسوس ہوا کہ آپ لوگ اس جلسے میں شریک نہیں ہوئے جس میں امجد خان کے امیدوار ہونے کا اعلان کیا گیا۔ آپ لوگوں کا یہ حق تھا کہ آپ اس جلسے میں شریک ہوتے اور عمران خان کے اعلان کے بعد سب سے پہلے انعام اللہ خان، امجد خان کو گلے لگا کر اسے مبارک دیتے۔مجھے پورا یقین ہے کہ امجد خان بہت جلد انعام اللہ خان کے پاس جائیں گے اور انہیں منانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے مگر میرا جی چاہتا ہے کہ کاش یہ کام امجد خان سے پہلے خود انعام اللہ خان کریں۔ اس عمل سے میں اور میرے جیسے تحریک انصاف سے محبت کرنے والے کروڑوں افراد کے سامنے انعام اللہ خان کی قامت آسماں گیر ہو جائے گی اور ان کا یہ عمل دوسری تمام نشستوں پر جنہیں ٹکٹ نہیں مل سکے ان کیلئے نمونہ بن جائے گا اگر آپ جیسے قریبی لوگ بھی اپنے دل کشادہ نہیں کریں گے تو تحریک انصاف سے وابستہ وہ تمام لوگ جنہیں ٹکٹ نہیں مل سکیں گے وہ اس امیدوار کی بھرپور مخالفت کریں گے جسے تحریک انصاف ٹکٹ دے گی۔ انعام اللہ خان کو ان کیلئے مثال بن جانا چاہئے۔ پاکستان کی سیاست میں یہ مثال تحریک انصاف ہی قائم کر سکتی ہے، آپ اور انعام اللہ خان ہی قائم کر سکتے ہیں۔ قدرت نے یہ موقع آپ کو اور آپ کے خاندان کو دیا ہے۔ خدارا جائیے اور کھلی بانہوں سے امجد خان کا استقبال کیجئے، اسے گلے لگائیے، اسی میں ہم سب کی بھلائی بھی ہے اور آپ لوگوں کی عظمت بھی۔
کسی زمانے میں ڈاکٹر شیر افگن اور انعام اللہ خان کے درمیان بڑے اچھے مراسم ہوا کرتے تھے۔ مجھے وہ زمانہ یاد ہے جب انعام اللہ خان ایم پی اے کے امیدوار تھے اور ڈاکٹر شیر افگن ایم این اے کے امیدوار تھے اور ہم لوگ جو ڈاکٹر شیر افگن کی انتخابی مہم چلا رہے ہوتے ہیں، ہم میں سے پچاس فیصد ساتھ ساتھ انعام اللہ خان کی کمپین بھی کرتے رہتے تھے اور ڈاکٹر صاحب ہمیشہ ہمیں یہی کہتے تھے کہ میری اپنی سیاسی مصلحتیں ہیں مگر میں دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ انعام اللہ خان کو کامیاب کرے۔ وہ نوجوان آدمی ہیں انہیں آگے آنا چاہئے۔ میری ان باتوں کے بہت سے گواہ آپ کو وتہ خیل قبیلے میں مل سکتے ہیں۔ یہ باتیں خود انعام اللہ خان کو بھی معلوم ہیں۔ جہاں تک بات ہے عائلہ ملک کی تو اس کی وساطت سے پورا کالاباغ گروپ میانوالی کی سیاست میں تحریک انصاف کا ساتھ دے سکتا ہے اور دے رہا ہے اور میانوالی جہان پٹھان اور نان پٹھان کی ایک خاموش تحریک بھی گلیوں میں رواں دواں ہے، وہ تحریک انصاف میں صرف عائلہ ملک کے ہونے کی وجہ سے پتھرا چکی ہے۔ وہ خاتون آپ کی کمزوری نہیں آپ کی طاقت ہے اپنی طاقت کو ضائع مت کیجئے، ایسے موقع بار بار نہیں آتے۔
تازہ ترین