• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس نے ایسے حالات پیدا کر دیئے ہیں، جیسے جنگ کے دوران ہوتے ہیں۔ ایسے ہنگامی حالات میں پاکستان جیسے ملک میں اگر جمہوری حکومت ہوتی ہے تو اس کی گرفت کمزور ہوتی ہے اور ایسے معاملات نظر انداز ہو جاتے ہیں جن پر عام دنوں میں سیاسی حکمرانوں، میڈیا، عدالتوں اور عوام کی نظر ہوتی ہے۔ پاکستان کے عوام کو میڈیا کے ذریعہ روزانہ یہ نوید سنائی جاتی ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک سے طبی اور امدادی سامان کے جہاز اُتر رہے ہیں۔ کورونا ریلیف فنڈ میں لوگ دھڑا دھڑ پیسے جمع کرا رہے ہیں۔ قرضوں کی ادائیگی موخر ہو گئی ہے۔ ’’جی8‘‘ ممالک کی جانب سے ریلیف پیکیج کی بھی باتیں کی جا رہی ہیں۔ یہ سامان اور مالی امداد کہاں جا رہی ہے۔ ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈکس اپنے لئے حفاظتی ’’پی پی ایز‘‘ اور دیگر حفاظتی سامان کیلئےچیخ رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 216ڈاکٹرز، 67نرسز اور 161میڈیکل اسٹاف میں کورونا کی تصدیق ہو چکی ہے۔ چار ڈاکٹرز اور 2نرسز اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں۔ اب تک ٹیسٹ کٹس کی مطلوبہ ضرورت کو پورا نہیں کیا جا سکا ہے۔ پاکستان میں کورونا کے جتنے ٹیسٹ ہونے چاہئیں، وہ نہیں ہو رہے جس کی وجہ سے مریضوں کی اصل تعداد کا پتا نہیں چل رہا اور کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے درست حکمتِ عملی وضع نہیں کی جا سکی ہے۔ سخت لاک ڈاؤن، نرم لاک ڈاؤن اور اسمارٹ لاک ڈاؤن کی تکرار کے دوران معاشی سرگرمیاں ختم یا محدود ہونے سے جو غریب طبقات خصوصاً دیہاڑی دار مزدور متاثر ہوئے ہیں، اُن کو کم از کم ریلیف پہنچانے کی اب تک کی حکمتِ عملی مکمل طور پر ناکام ہے۔ صرف بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام، جسے اب احساس پروگرام کا نام دیا گیا ہے، کے تحت رجسٹرڈ لوگوں کو 12ہزار روپے فی کس رقم تقسیم کی گئی۔ سرکردہ حلقوں نے خوبصورتی سے مرکز اور صوبے کو صرف ایک دوسرے پر تنقید کرنے پر لگا دیا ہے۔ رقم کی تقسیم کو موت کی تقسیم سے تعبیر کیا گیا۔ یہ رقم کوئی خصوصی ریلیف نہیں ہے کیونکہ بجٹ کے مطابق تین ماہ کی رقم ایک ساتھ دی گئی۔ اس طرح 4000/= ماہانہ دیے گئے۔ اس پروگرام کا چونکہ ڈیٹا موجود تھا اور پہلے سے یہ پروگرام چل رہا تھا۔ اسکا کمپیوٹرائزڈ میکنزم ہے۔ اسلئے اس میں کرپشن اور اقرباء پروری نسبتاً کم ہوئی ہو گی۔ متاثرین کو ریلیف دینے کے دیگر پروگراموں کا کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ یہ سارے پروگرام بیورو کریسی کے ذریعہ چلائے گئے۔ بیرون ملک سے آنیوالا طبی سامان کہاں گیا اور کسے تقسیم ہوا۔ جہازوں سے اتارے جانیوالے سامان کے ٹرک کہاں گئے۔ یہ سوالات عام لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہو رہے ہیں کیونکہ اسپتالوں میں نہ تو مطلوبہ ٹیسٹ ہو رہے ہیں اور نہ ہی ماسکس، حفاظتی لباس اور دیگر سامان نظر آ رہا ہے۔ وینٹی لیٹرز کی تعداد بھی کہیں نہیں بڑھی ہے۔ کوئی حقیقی آڈٹ یا احتساب ممکن ہی نہیں ہے۔ اگر فلاحی اور خیراتی ادارے نہ ہوتے تو شاید بھوکے افراد کے غصے کو کنٹرول کرنا ممکن ہی نہیں رہتا۔ یہ ساری ناکامیاں سیاسی جماعتوں کے کھاتے میں جا رہی ہیں۔

کراچی جیسے شہر میں تو ایک اور سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ زمینوں سے متعلق سرکاری اداروں یعنی اسٹیٹس اور ریونیو کے اداروں میں ان ہنگامی حالات میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے نتائج تھوڑے عرصے کے بعد جب لوگوں کے سامنے آئیں گے تو ان کے ہوش اُڑ جائیں گے۔ اب تک تو صرف یہ خبریں آئی ہیں کہ لاک ڈاؤن کے دوران کراچی میں بڑے پیمانے پر غیرقانونی تعمیرات ہو رہی ہیں، اسٹیٹس اور ریونیو کے اداروں اور محکموں میں ہونے والی مبینہ غیرقانونی کارروائیوں پر کسی کی نظر ہی نہیں جا رہی۔ ان اداروں اور دوسرے محکموں کے افسران لوگوں کو ان کے جائز حقِ ملکیت سے محروم کر رہے ہیں۔ اگر کوئی انصاف کیلئے رجوع کرے تو کہا جاتا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے دفاتر بند ہیں۔ لوگوں کی کہیں شنوائی نہیں ہے۔ سیاستدان صرف پریس کانفرنسوں اور بیانات میں اپنی حکمرانی اور کارکردگی کو ثابت کرنے میں مصروف ہیں۔ صرف پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی سیاسی عمل داری (پولٹیکل رِٹ) پر سوالیہ نشانات نہیں ہیں بلکہ سندھ حکومت اور ریوینو کے محکمہ کی کارگردگی کو بھی اپنی سیاسی عمل داری کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ ان ہنگامی حالات میں جو کچھ بےخوف و خطر اور بےلگام ہو رہا ہے، اسے صرف ہنگامی حالات میں نظر انداز کرنا بہت خطرناک ہوگا۔ عدالتیں اگرچہ بہت فعال ہیں، اعلیٰ عدلیہ سے بھی لوگوں کو بہت توقعات ہیں مگر پھر بھی یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ آگے چل کر یہ سیاسی جماعتوں کے گلے پڑیگا۔ سیاسی حکومتوں کی ناکامی پر ہونے والی باتیں ایک بڑا پولٹیکل فیکٹر بن سکتی ہیں۔ ریلیف فنڈز، راشن اور مالی امداد کی تقسیم میں ہونیوالی بےقاعدگیوں کیساتھ ساتھ زمینوں کی بندر بانٹ کے بڑھتے ہوئے اختیارات کے باعث ہونے والی بڑی کارروائیوں پر نظر نہ رکھی گئی تو پھر کچھ پنڈٹوں کی یہ باتیں درست ثابت ہو سکتی ہیں کہ سیاسی حکومتوں کی ضرورت نہیں ہے۔ کوئی کٹھ پتلی قومی سیٹ اپ آ سکتا ہے۔ میں اس طرح کے ایشوز پر کبھی لکھتا نہیں ہوں۔ میں نے اپنے کالموں میں معروضی حالات کی فلسفیانہ اور سیاسی توضیح کرنے کی کوشش کی ہے لیکن جو کچھ ہورہا ہے، وہ بہت تکلیف دہ ہے۔ سیاسی عمل کیلئے بھی اور لوگوں کیلئے بھی۔ بقول غالب

رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی سے معاف

آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

تازہ ترین