• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے جب اِدھر اُدھر سے درد مند مہربان کسی خاص قومی مسئلے پر لکھنے کی تجویز دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ میرے لکھنے سے مسائل حل ہو جائیں گے یا حکومت نوٹس لے گی تو مجھے اُن پر ترس اور اپنے پر رحم آتا ہے کیونکہ مجھے علم ہے کہ نہ حکمران اسے پڑھیں گے اور نہ میری آواز اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے گی۔ وہ زمانہ گزر گیا جب اخباری الفاظ حکمرانوں کی توجہ کا باعث بنتے تھے۔ موجودہ دور الیکٹرونک میڈیا کا ہے اور ٹی وی چینلوں سے بھی حکمران صرف اس لئے بدکتے ہیں کہ ایک چینل کی آواز لاکھوں کانوں میں پڑتی ہے، اُن سے رائے عامہ متاثر ہوتی اور بنتی ہے۔ اسی لئے اکثر لفافوں اور خرید و فروخت کا ذکر ہوتا ہے اور اسی لئے مشتری ہوشیار باش گریبان چاک کرکے احتساب کا مطالبہ کرتے ہیں، ورنہ کسے معلوم نہیں کہ موجودہ سائنسی دور میں خرید و فروخت کی صنعت اس قدر ترقی کر چکی اور اس قدر سائنسی سانچے میں ڈھل چکی ہے کہ نہ دینے والے کا سراغ مل سکتا اور نہ ہی لینے والے کا نشان۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ہیرا پھیری، رشوت ستانی، کمیشن خوری اور انسانوں کی خرید و فروخت اس قدر فول پروف ہو گئی کہ ہم دنیا کو اس میدان میں بہت پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ سارا کام باہر ہی باہر یا اس انداز سے ہوتا ہے کہ بڑے سے بڑا کھوجی ’’کھرا‘‘ نہیں ڈھونڈ سکتا۔ نیب کے پاس بےپناہ اختیارات اور دنیا بھر کے وسائل ہیں۔ بڑے بڑے سیاستدانوں، بزنس مینوں اور مالی اداروں کے مالکان نے بیرونِ ملک قیمتی ترین جائیدادیں بنا رکھی ہیں لیکن آج تک نہ کسی کے خلاف ثبوت ملا ہے، نہ کوئی عدالتوں سے سزا یافتہ قرار پایا ہے۔ کون سا بڑا سیاستدان، بیوروکریٹ، مافیا، صحافی اور بزنس مین لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل ہے۔ عام لوگوں کو بھی ان کی لوٹ مار کا پتا ہے اور اکثر لوگ اپنے تجربات کی بنا پر کرپشن کی کہانیاں بیان کرتے ہیں لیکن کھوجی کو کھرا نہیں ملتا۔ نیب کی کہانی شروع ہوتی ہے تو جنر ل شاہد عزیز کے ذکر سے۔ آخر آپ پہلے چیئرمین جنرل امجد کا ذکر کیوں نہیں کرتے جو بہت ایماندار اور نڈر شخص تھا۔ میں نے انہیں دیکھا تک نہیں مگر مجھے ان کے مستعفی ہونے کے بعد دی نیوز میں دیے گئے انٹرویوز یاد ہیں جن میں وہ راز فاش کرتے ہیں کہ انہوں نے جنرل مشرف کے حامی بلکہ دستِ راست سیاستدانوں کے خلاف فول پروف ثبوت حاصل کر لئے تھے لیکن انہیں منع کردیا گیا اور وہ مستعفی ہو گئے۔ ظاہر ہے کہ جنرل مشرف کا نیب بنانے کا مقصد نہ لوٹی ہوئی دولت باہر سے لانا، نہ لٹیروں کو سامانِ عبرت بنانا اور نہ ہی ملک سے کرپشن ختم کرنا تھا۔ مقصد سیاسی علیک سلیک تھا، اس میں وہ خاصا کامیاب رہا۔ بھرم قائم رکھنے کے لئے کبھی کبھار سرکاری افسروں پر ہاتھ ڈالا جاتا رہا حالانکہ کرپٹ بیوروکریٹ کی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی۔ ہماری نگاہوں کے سامنے ارب پتی بننے والے سیاستدانوں، بزنس مینوں، صحافیوں، بیوروکریٹوں وغیرہ کی جانب آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا گیا۔ وہ روایت آج بھی جاری و ساری ہے کہ بعض سیاسی خاندانوں پر ہر روز الزامات کی بارش کرکے ان کی کردار کشی کی جاتی ہے لیکن نیب کو آج تک نہ ہی کوئی ایسا ثبوت ملا ہے جسے عدالتیں تسلیم کرکے سزا دیں اور نہ ہی بیرونِ ملک سے لوٹا ہوا ایک ڈالر بھی واپس آیا ہے۔

میرے گھر کے قریب ایک سموسوں کی دکان ہے جس نے باہر حلوہ پوری کا بورڈ بھی لگا رکھا ہے۔ جنوری، فروری میں ایک روز گزرتے ہوئے میں نے اس سے پوچھا کہ حلوہ پوری کب ملتی ہے۔ وہ معصوم سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا ’’سر یہ عمرانی وعدہ ہے‘‘ میں ہنسے بغیر نہ رہ سکا حالانکہ بات رونے کی تھی۔ ان حسین خوابوں اور رنگین وعدوں کی فہرست طویل ہے جو ہمارے عالمی کپ ہیرو نے انتخابی مہم کے دوران اس اعتماد اور یقین کے ساتھ کیے کہ جیسے ’’گل ہی کوئی نئیں‘‘۔ مجھے اقتدار دو میں دو ماہ میں ملک سے لوٹے گئے دو سو ارب ڈالر واپس لائوں گا اور سارے ٹیکس معاف کر دوںگا۔ میں لوگوں کی جیبوں پر ڈاکے ڈالنے والے مافیاز، سیاسی چوروں اور لٹیروں کو الٹا لٹکا دوںگا۔ ڈھائی کروڑ اسکولوں سے باہر بچوں کو اسکولوں میں لائوں گا اور تعلیم و صحت کے شعبوں کا معیار اس قدر بلند کروں گا کہ دنیا رشک کرے گی۔ یہاں اتنی نوکریاں پیدا ہوں گی کہ باہر سے پاکستانی وطن لوٹنے کی خواہش کریں گے۔ اللہ نے خان صاحب کی سن لی۔ اب یو اے ای ، سعودی عرب، قطر، برطانیہ، امریکہ، اسپین وغیرہ وغیرہ سے لاکھوں پاکستانی واپس آ رہے ہیں۔ دیں ان کو نوکریاں؟ ڈھائی کروڑ میں سے ایک بھی بچہ اسکول میں نہیں آیا البتہ حکومتی اسکولوں کی مایوس کن کارکردگی کے سبب لاکھوں بچے اسکول چھوڑ گئے ہیں۔ کسی بھی قوم اور ملک میں ذہنی، سائنسی، تکنیکی انقلاب اعلیٰ تعلیم کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔ ہماری پبلک اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں (استثنیٰ کے علاوہ) کا معیار قابلِ رحم حد تک پست ہو چکا ہے، تحقیق کا نام و نشان نہیں اور ڈگریاں پکوڑوں کی مانند بانٹی جا رہی ہیں۔ چند ہزار لائق بچے بیرونِ ملک چلے جاتے ہیں اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس نہیں آتے۔ پرائیویٹ یونیورسٹیاں دولت بنانے کی کانیں ہیں اور کانوں کے مالکان نے ٹی وی چینل بھی کھول لیے ہیں اور مسلسل گھاٹے کا بزنس ’’اخبارات‘‘ بھی چھاپنا شروع کر دیے ہیں۔ برادرِ عزیز عمران مسعود سابق صوبائی وزیر تعلیم ان کے لئے حکومت سے سبسڈی مانگتے ہیں اور ہمیں شوگر مافیا کی اربوں میں دی گئی سبسڈی یاد آتی ہے۔ نہ خدا کا خوف، نہ احتساب کا ڈر۔ ملک میں لوٹ مار کا کلچر تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ ہر طرف ہر کوئی لوٹ مار میں مصروف ہے، چاہے وہ دکاندار ہو، بڑا بزنس مین اور ہائوسنگ سوسائٹیوں کا موجد ہو، صنعت کار اور بینکوں کا ناخدا ہو، طاقتور بیوروکریٹ ہو، جاگیردار اور ملوں کا مالک ہو، بااثر اینکر پرسن اور صحافی ہو، ڈاکٹر ہو یا وکیل ہو، یا یونیورسٹیوں کے مالکان ہوں۔ اس ظالمانہ نظام میں پس رہے ہیں بےزبان عوام، خون پسینہ ایک کرنے والا محنت کش، دن رات محنت کرنے والا کاشتکار وغیرہ۔ کتابیں کہتی ہیں کہ جمہوریت کا مطلب ہوتا ہے جمہور کی حکومت۔ جس جمہوریت میں جمہور اس قدر مظلوم، بےبس اور غربت کی چکی میں پس رہے ہوں کیا وہ جمہوریت کہلانے کی حقدار ہے۔

تازہ ترین