سب سے پہلے میں روزنامہ جنگ کے قارئین کا مشکور ہوں جنہوں نے مجھے گزشتہ کالم بعنوان ’’فتح مکہ‘‘پر مثبت فیڈ بیک سے نوازا، میں نے پوری کوشش کی کہ میں واٹس ایپ، ای میل او ر سوشل میڈیا پر اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کرنے والوں کا فرداََ فرداََ شکریہ ادا کروں، بہت سے قارئین نے رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں فتح مکہ کے تاریخ ساز واقعہ کو یاد کرنے پر خوشگوار حیرت کا اظہار کیا۔میں سمجھتا ہوں کہ خدا نے پیغمبر اسلام ﷺ کودنیا بھر کیلئے رحمت العالمین بناکربھیجا ، دنیا کے ہر مذہب سے تعلق رکھنے والا امن پسند اور سمجھدار انسان اللہ کے آخری نبی کیلئے عقیدت و احترام کے جذبات رکھتا ہے، برصغیر کا معاشرہ صدیوں سے روایتی طور پرمذہبی ہم آہنگی، احترامِ انسانیت اور دوسرے مذاہب کو برداشت کرنے کے حوالے سے جانا جاتا ہے، دنیا کے قدیم ترین ہندو دھرم کی نمایاں خصوصیت سماجی بہتری کی خاطر اچھی باتوں کو اپنانا ہے چاہے وہ کسی بھی مذہب یا شخصیت نے بیان کی ہوں، یہی وجہ ہے کہ جب عرب سے تعلق رکھنے والے صوفیاء کرام نے سرزمین ِ ہند کا رخ کیا تو یہاں کی مقامی آبادی نے ان کا بھرپور خیرمقدم کیا، دنیا کی عظیم ہستیوںکے حسنِ سلوک نے یہاں بسنے والی مقامی آبادی کے دل جیت لئے۔ سیرت النبی ﷺ کے موضوع پر ہندو مصنف سوامی لکشمن پرشادکی کتاب ’’عرب کا چاند‘‘اردو ادب میں ایک شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔دنیا کا ہر مذہب دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے رواداری اور برداشت کا درس دیتا ہے، تاہم مجھے بہت افسوس ہوتا ہے جب میں معاشرے کے چند شدت پسند وں کو دوسرے مذاہب کے خلاف سرگرم دیکھتا ہوں، یہ ناپسندیدہ عناصر دنیا کے ہر ملک اور معاشرے میں موجود ہیںجو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے نفرتوںکا راستہ اختیار کرتے ہیں، یہ لوگ کبھی سوشل میڈیا پر نفرتوں کا پرچار کرتے ہیں تو کبھی کمزور اقلیتوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اس حوالے سے میری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ میں خدا کی جانب سے عطا کردہ اپنے سماجی و سیاسی مقام کو انسانیت کی فلاح و بہبود کیلئے استعمال کروں، ہمیشہ مظلوم کی آواز ثابت ہوں اور حق کا ساتھ دوں چاہے اس کا تعلق کسی بھی طبقے سے کیوں نہ ہو۔ حالیہ دنوں میں امریکہ کی جانب سے مذہبی آزادی پر عالمی رپورٹ منظرعام پر آئی ہے، اس رپورٹ میں پاکستان کی موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے جہاں ایک طرف کرتار پور راہداری کے قیام کو سراہا گیا ہے وہیں ایسی کچھ خبروں کو بھی بنیاد بنایا گیا ہے جن کے مطابق پاکستان میں کورونا بحران کے بعد متاثرہ شہریوں کی امداد کیلئے مذہبی بنیادوں پر تفریق کی جارہی ہے۔ جب سب سے پہلے مقامی میڈیا میں ایسی خبریں سامنے آئیں کہ سیلانی ٹرسٹ نامی فلاحی ادارے کی طرف سے غریب ہندو شہریوں کو راشن دینے سے انکار کیا جارہا ہے تو میں نے فوری ردعمل دینے کی بجائے متعلقہ ادارے سے حقیقت جاننے کیلئے رابطہ کیا، سیلانی ٹرسٹ کی جانب سے تردید کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی گئی کہ وہ مستحق لوگوں کی خدمت کیلئے کسی قسم کی تفریق پر یقین نہیں رکھتے، بعد ازاں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ انہوں نے پاکستان ہندوکونسل کے تعاون سے اپنی فلاحی سرگرمیوںمیںتمام لاچار غریب شہریوں کی امداد کو یقینی بنایا۔اسی طرح موجودہ خیبرپختونخوا کے علاقے ٹیری ضلع کرک سے تعلق رکھنے والے شری پرم ہنس جی مہاراج ایک خداترس نیک شخص تھے ،ان کو ماننے والوں کا تعلق مختلف مذاہب سے ہے، وہ حافظ قرآن بھی تھے جن کی زندگی کا مقصد لوگوں کے دکھ د دور کرنا تھا، قیام ِ پاکستان کے بعد مقامی ہندو آبادی ہجرت کر گئی تو ان کی سمادھی بھی شدت پسندوں کا نشانہ بننے سے نہ بچ سکی، میں نے پاکستان ہندو کونسل کے پلیٹ فارم سے ایک طویل قانونی جنگ کے بعد سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق سمادھی کو بحال کرادیا ہے، آج وہاں کی مقامی آبادی ہندو یاتریوں کی آمد سے نہایت خوش نظر آتی ہے، حالیہ دنوں میں میرا جب وہاں جانا ہوا تو مقامی لوگوں کی جانب سے خیرمقدم کیا گیا،وہ سمجھتے ہیں کہ ہندو یاتری علاقے کی ترقی و خوشحالی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں، رواں برس شری پرم ہنس جی مہاراج کے ماننے والوں نے رمضان کے مبارک مہینے میں مسلمان روزے داروں کیلئے امدادی سامان کی فراہمی کا بھی اہتمام کیا ،صرف ایک دن میں لگ بھگ دس لاکھ روپے کی مالیت کا راشن اور عید کیلئے نئے کپڑے تقسیم کئےگئے ،اسی طرح پاکستان ہندو کونسل کی جانب سے ہر سال کراچی میں سوامی نارائن مندر کے سامنے روزہ داروں کیلئے اجتماعی افطاری کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ بعض اوقات مذہبی ہم آہنگی پر مبنی ایسے فلاحی اقدامات کو عملی شکل دینے کیلئے بے شمار مشکلات کا بھی سامناکرنا پڑتا ہے، ایک طرف کچھ لوگ دوسرے مذہب کے ماننے والوں سے امدادلینے کو اچھا نہیں سمجھتے توچند لوگ امداد کا حقدار صرف اپنی کمیونٹی کو قرار دیتے ہیں، تاہم میری نظر میں خدمت انسانیت کے جذبے سے سرشار سرگرمیوں کادائرہ کار مزید وسیع کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ نہ صرف مذہبی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کو فروغ ملے بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کا نام روشن کیا جاسکے، بطور سرپرست ِ اعلیٰ پاکستان ہندو کونسل میرا تمام تحقیقی اداروں سے یہ مطالبہ ہے کہ وہ پاکستان کی محب وطن اقلیتوں سے متعلق کسی خبر پر یقین کرنے سے قبل اچھی طرح تصدیق کرلیا کریں، اس حوالے سے انہیں میرے دروازے ہمیشہ کھلے ملیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)