• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نبیلہ تبسم

کسی سماج کے مسلسل بقا کے لیے تعلیم اور تعلّم ایسا ایک کام ہے جس کی اہمیت مسلمہ ہے ۔ سماج علم و تجربہ کے ذریعے ہی زندہ رہتا ہے اور مدرسہ اس امر کا سب سے اہم ذریعہ ہے جونا پختہ افراد کے رجحان طبع کی تشکیل میں موثر کردار ادا کرتا ہے۔ بات صرف یہ نہیں کہ سماجی زندگی کا دوسرا نام علم پہنچانا ہے ،بلکہ ہر قسم کا ایصال یعنی ہر سماجی زندگی ‘تعلیمی اہمیت رکھتی ہے۔ ہر سماج کے افراد میں علم و تجربہ کا مسلسل حصول جاری رہنا ہی اس امر کی دلیل ہے۔ 

تعلیم کی ضرورت تجربہ کو ایسی منظم شکل میں لانے کی شدید تحریک پیدا کرتی ہے جس سے یہ تجربہ با آسانی قابلِ انتقال بن جائے۔تمام ترقی یافتہ سماجی گروہوں میں باقاعدہ تعلیم و تربیت بہت کم ہوتی ہے جس کے باعث یہ ممکن نہیں ہوتا کہ ایک پیچیدہ سماج کے وسائل اور کامرانیاں بچوں کو منتقل کی جاسکیں حال آں کہ باقاعدہ تعلیم کسی سماج کے جملہ علمی، فکری ، مادی، روحانی نظری اور جذباتی ، شعوری اور لا شعوری غرضیکہ مجموعی اعتبار سے جو امتیازات حاصل کئے جاچکے ہوتے ہیں انھیں آنے والی نسلوں کو منتقل کرنے کا لازمی فریضہ انجام دیتی ہے۔

لفظ ’’ایجوکیشن ‘‘تربیت اور نشونما کے عمل پر دلالت کرتا ہے ۔ تعلیم کو ایک ایسے فعل سے تعبیر کرنا چاہیے جو تعمیر اور تشکیل سازی سے تعلق رکھتا ہے جس کے ذریعے کوئی سماجی گروہ نوعمر افراد کو اپنی مخصوص سماجی شکل میں ڈھالتا ہے۔ باالفاظ دیگر نوعمروں کے عقائد و خیالات ٹھیک وہی صورت اختیار کرلیتے ہیں جو گروہ کے دوسرے ارکان کے ہوتے ہیں ۔علم کے حصول میں زبان کی جو اہمیت ہے وہی بلا شبہ اس عام خیال کا سبب بنی ہے کہ علم ایک سے دوسرے کو منتقل کیا جا سکتا ہے ۔ گویا کسی کے دماغ میں کسی تصور کو پیدا کرنے کا آسان طریقہ یہی ہے ۔اس وجہ سے تعلیم سیکھنے کا کام محض طبعی عمل سے وابستہ ہو کر رہ گیا ہے ۔مدرسہ ایک خاص ماحول کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ وہ سماجی وسیلہ ہے جس کے ذریعے بچے حصول علم سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ اسکول کا پہلا کا م یہ ہے کہ وہ ایک سیدھا سادہ ماحول مہیا کرے جس کو بچے با آسانی قبول کر لیں۔

تعلیمی سعی کے دو پہلو ہیں ۔ایک تو یہ کہ بہت زیادہ مضامین کی تعلیم ہر گز نہ ہو اور دوسرا یہ کہ جو تعلیم دی جائے وہ جامع ومانع انداز میں دی جائے۔ مضامین کی ایک بڑی تعداد کے چھوٹے چھوٹے حصوں کو پڑھانے کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نا مر بوط تصورات کو انفعالی طور پر اخذ کر لیا جاتا ہے جبکہ یہ نا مر بوط تصورات حرکت اور زندگی سے متاثر نہیں ہوتے۔بچے کے ذہن میں جن تصورات کو داخل کیا جائے وہ چند ہوں، بہت اہمیت کے حامل ہوں اور انھیںنت نئے انداز پر مرتب کرنے کا طالب علم کو موقع ملنا چاہیے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ طالب علم اُن خیالات کو اپنائے اور اپنی عملی زندگی کی فوری حالات میں اُن کا اطلاق کرنا سیکھ جائے۔

دنیا کی دیگر ترقی یافتہ اقوام کے مقابلے میں ہمارے ہاں رائج طریقہ تعلیم ہمیشہ منفرد اور الگ نوعیت کا رہا ہے ہمارے ماہرین تعلیم نے یورپ یا دیگر ترقی یافتہ ممالک کے ماہرین سے بنیادی نوعیت کی مدد نہیں لی ،جو تعلیمی اقدار کو مفید بنانے اور ان کی علمی کامیابیوں کے اسباب میں اضافے کا سبب بنتیں ۔ تعلیمی میدان میں نقل کے رجحان میں اضافے اور علمی صلاحیتوں کے حصول کی کوششوں کے فقدان کا سبب بھی تعلیمی اداروں میںفائز با اختیار حلقے ہی قرار دیئے جاتے ہیں ،جو ہماری قومی تعلیم کے امور کی نگرانی اور تعلیمی ماحول میں موجود سقم کو دور کرنے کی کا وشیں انجام نہیں دے رہے جس کے سبب نقل کے رجحانات بھی زمانے کی جدت کے ساتھ جدید ہوتے جارہے ہیں۔

تعلیم کا مقصد ایسے ذہن پیدا کرنا ہے جس سے فردکی صلاحیتیں اُبھر یں اور فرد مختلف صلاحیتوں سے اس مقام کو حاصل کر سکے ۔ یعنی فردمیں ہر چیز کا اسلوب پیدا ہو اور اپنا مقصد حاصل کر سکے اوراپنے مسائل کو سمجھ سکے۔تعلیم معاشرے کے لئے اُسی وقت سودمندہو سکتی ہے جب وہ مربوط انداز میں پیش کی جائے ۔ لہٰذا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اپنے زیادہ سے زیادہ وسائل کو بروئے کارلاکر معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے چینی کے خاتمے کے لئے تعلیمی منصوبہ بندی اور بہتر لائحہ عمل مرتب کرے اس طرح نہ صرف ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل ہوسکے گی بلکہ بہتر ین تعلیم یافتہ افراد بھی پیدا ہوں گے جو نہ صرف معاشرہ کے لئے سودمند ثابت ہوں گے بل کہ خود ریاست کے لئے بھی مفید ہوں گے۔

شاعر مشرق علامہ اقبالؒ تعلیم کے متعلق اپنے نظریات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بچے کی تربیت اور سیرت سازی کے لئے استاد اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لہٰذا استاد کو بھی نمونہ ہونا چاہیے کیوںکہ طلبہ اپنے بزرگوں اور استادوں کے خیالات اور اوصاف کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں نہ صرف یہ بل کہ اسے زندگی کا حصہ ـبناکر اُن سے فائدہ اُٹھاتے ہیں ۔اس لئے استاد ہر معاملے میں احتیاط برتے اور اُن اصولوں کو اپنائے جس میں اسلامی اقدار موجود ہوں۔

اقبالؒ، فلسفہ تعلیم کے تحت انسان کے لئے علم کے ساتھ ساتھ عقل وخردکی پاکیزگی حاصل کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں اور یہ پاکیزگی علم کو انسان کے لئے خیر کا باعث بناتی ہے اور شرکاباعث بننے سے روکتی ہے ۔خواجہ غلام السیدین کہتے ہیں جہاں تک اقبالؒ کے فلسفہ خودی کا تعلق ہے۔اقبالؒ نے یہ اصطلاح انسان کی ذات کے لئے استعمال کی ہے اور وہ اپنے داخلی امکانات کی وجہ سے انہوں نے انسانی ذات کو ایک بیج سے تشبیہ دی ہے۔جو مٹی میں دب جانے کے بعد ایک درخت کی صورت میں فضامیں پھیل کر اپنے وجود میں موجود امکانات کی نشوونماکر لیتا ہے۔ 

لہٰذا اقبالؒ کے فلسفہ تعلیم کا اصل مقصد انسان کی مخفی صلاحیتوں کو اس انداز میں بیدارکرنا ہے کہ سماجی زندگی میں اس کے لئے تعمیری نتیجے برآمد ہوں یعنی ہر فرد معاشرتی زندگی کی فلاح کی کوششوں میں مصروف رہے اور خود بھی معاشرے کا فرد ہونے کی بنا پر اس کی یہ کوشش بالو اسطہ خود اس کی اپنی فلاح کی بھی ضمانت فراہم کرتی چلی جائیں گی۔ ہر انسان قدرت کی منشا اور مرضی کے مطابق وجود کے مقصد کی تکمیل کرسکتاہے۔اقبالؒ کے نظریہ تعلیم کی ابتداء ’بچے‘ کی ابتدائی زندگی سے ہوتی ہے۔

اقبالؒ نے اساتذہ کی بھی ذمہ داریوں کی نشان دہی کی ہے۔ اساتذہ اپنی آغوش سعادت میں پلنے والے شاہین زادوں کو ایسی تعلیم دیں جس سے اُن کے اندر ملی اور قومی جذبہ اُبھرے ۔اُن کی شخصیت نمایاں بنے۔ ان کی انفرادیت کی تربیت ہو۔ مذہب سے محبت کریں جمادات اورنبادات کی ضروریات اور اُن کے متعلق جان سکیں ۔ یہ ذمہ داری اساتذہ کی ہے۔اقبالؒ علم کی برتری کو جان ودل سے تسلیم کرتے ہیں۔

وہ علم کو زینت کا نشانہ تصور کرتے ہیں ۔اقبالؒ اُس علم کے قائل نہیں جو صرف عقل کا غلام ہو اور دل کی دنیا کو معتکف نہ بنائے ۔ وہ علم کو عقل و نظر کا نقیب بنانا چاہتے ہیں تاکہ ذہن کی جلا بھی کرے اور دل کو بھی روحانی وجسمانی ووحدانی سرورعطاکرتارہے۔

تازہ ترین