• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:لنڈا وانگ۔۔۔امریکہ
 کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے امریکی مسلمانوں کی 40 تنظیموں نے مسلمانوں کو اس سال گھروں میں رہ کر روزے رکھنے، نمازیں ادا کرنے اور خیرات کرنے کی سفارش کی ہے۔شکاگو کے اندرون شہر اسلامی مرکز کے بورڈ کے ایک ممبر، سلمان اعظم کا کہنا ہے کہ حفاظت ایک ترجیحی ضرورت ہے۔ مگر سماجی فاصلے کے لیے سماجی تنہائی کا ہونا لازمی نہیں ہے۔جارجیا کی کلیٹن ریاستی یونیورسٹی کے ایک منتظم، شاکر عبداللہ اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ گزشتہ ماہ رمضان کے مقابلے میں اس مرتبہ وہ، ان کی اہلیہ اور چار بیٹیاں زیادہ تر وقت اکٹھے گزارتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ہم گھر والوں نے ایک باغیچہ بنایا ہے اور اپنے بچوں پر توجہ دے رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہیں قرآن پاک کی تلاوت کرنے اور غور و فکر کے لیے بھی زیادہ وقت میسر آیا ہے۔اعظم کہتے ہیں کہ اگرچہ شکاگو کے اسلامی مرکز کے لوگ ایک دوسرے سے فاصلے پر کھڑے ہوتے ہیں تاہم انہیں اس انتہائی خاص اور انتہائی مختلف رمضان سے مثبت ذیلی فوائد بھی حاصل ہو رہے ہیں۔ انہوں نے اور ان کی اہلیہ نے اپنے گھر میں نماز کے لیے ایک خصوصی جگہ وقف کر دی ہے۔ وہ کہتے ہیں،ہم خدا کے زیادہ نزدیک ہو گئے ہیں۔سارہ فرید چوہدری ریاست کنیٹی کٹ میں ماہر غذائیات ہیں اور ان کے شوہر اپنے دو چھوٹے بچوں کے لیے ماہ رمضان کو بامعنی بنانا چاہتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ہمارے پاس بچوں کا ایک خیمہ ہے جسے ہم نے اپنے ڈرائنگ روم میں لگا کر اُن کے لیے ایک عارضی مسجد میں تبدیل کر دیا ہے۔ ہم انہیں کتابیں پڑھ کر سناتے ہیں اور اسلام اور ماہ رمضان کے بارے میں تعلیم دیتے ہیں۔اس گھر کے افراد اکٹھے مل کر سحری کرتے ہیں جب کہ بچوں کے سکولوں کی وجہ سے پہلے ایسا کرنا ممکن نہ تھا۔ یاد رہے کہ وبا کی وجہ سے بچوں کے سکول بند ہیں۔ بعض سحریوں میں سارہ صبح ساڑھے تین بجے بچوں کے لیے پراٹھا نما وافل بناتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں،ہم اپنے بچوں کو ماہ رمضان کے ایک مختلف قسم کے تجربے سے روشناس کرا رہے ہیں۔فاران سعید حال ہی میں ملک کے دوسرے کونے میں واقع اوریگن ریاستی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے اوریگن منتقل ہوئے ہیں۔ اس نئے شہر میں اپنی سہیلی کے علاوہ وہ کسی اور کو نہیں جانتے۔ مگر یہ جوڑا ویڈیو کانفرنسوں کے ذریعے اپنے دوستوں کے ساتھ ایک ہی قسم کے کھانے پکانے کا اہتمام کرتا ہے۔ سعید کہتے ہیں، اس کے (کورونا وائرس) باوجود میں اپنے عقیدے کی آبیاری کر سکتا ہوں۔محمد السماری ریاست مزوری کے شہر کولمبیا میں آنکھوں کی امراض کے ڈاکٹر ہیں۔ وہ اور اُن کے اہل خانہ اپنی مسجد کی طرف سے آن لائن نشر کیے جانے والے لیکچر سنتے ہیں جن میں پورے ملک سے تعلق رکھنے والے مقررین حصہ لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،اس میں پوشیدہ نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ ہے کہ اس نے ہمیں پورے ملک کی عظیم تر مسلم کمیونٹی کے قریب تر کر دیا ہے۔ورجینیا کی رہنے والی زینا رؤف کہتی ہیں کہ عام طور پر سال کے اِن دنوں میں کالج جانے والی اُن کی بیٹیاں اپنی سہیلیوں کے ساتھ مصروف ہوتی ہیں۔ مگر اس سال ماہ رمضان میں وہ مل کر کھانا بناتی ہیں۔ زینا کہتی ہیں، ہمارے پاس روائتی کھانے بنانے کا وقت ہوتا ہے اور ہم نئے کھانے اور کھانا بنانے کی نئی نئی ترکیبیں معلوم کر رہی ہیں۔سماجی فاصلے کے باوجود امریکی مسلمان روایتی زکٰوۃ ادا کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مسلم اگینسٹ ہنگر (بھوک مخالف مسلمان) اور ہنگر وین (بھوک مٹانے والی وین) کے بانی، ضمیر حسن نے کیسیمی، فلوریڈا کے معمر افراد کی ایک کمیونٹی کے اپنے ہمسایوں میں 20,000 سے زیادہ کھانے تقسیم کیے۔ چہرے پر ماسک پہنے وہ ایک گالف گاڑی پر چاولوں، زیرے، دال، اور کینوا قسم کی گندم سے تیار کیے گئے کھانے لوگوں کے گھروں پر پہنچاتے ہیں۔حسن کا کہنا ہے کہ 23 مئی کو اختتام پذیر ہونے والے ماہ رمضان کے دوران، تھوڑا بہت کھانا بنائیں اور اپنے ہمسائے کو دیں۔ جب آپ اپنے لیے سودا سلف لینے جائیں تو اپنے ہمسائے کے لیے بھی کچھ تھوڑا بہت سودا سلف خرید لائیں۔وہ کہتے ہیں کہ کورونا وائرس نے ہمیں مزید مضبوط بنا دیا ہے۔ 
تازہ ترین