• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بولٹن کی ڈائری۔۔۔ابرار حسین
برطانیہ میں10ڈائوننگ اسٹریٹ سے روزانہ کی بنیاد پر بیانیہ جاری کیا جاتا ہے کہ برطانیہ میں لاک ڈائون اور کورونا وائرس سے پیدا شدہ صورت حال اور شرح اموات کس حد تک ہے، جس میں کم و بیش اضافہ ہوتا رہتا ہے جبکہ اراکین پارلیمنٹ بالخصوص چانسلر رشی سنک ٹی وی کے اسکرین پر حکومت کی طرف سے زندگی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والوں کے لیے امدادی فنڈز کی مد میں ریلیف فراہم کرنے کے اعلانات کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی جانب سے ایک اہم اقدام جس کو مرکزی سطح پر سراہا بھی گیا تھا کہ مختلف فرموں کو حکومت کی جانب سے تقریباً80فیصد ادائیگیاں کرنا تھیں تاکہ کارکن بیروزگاری سے بچ سکیں اور اس میں کی گئی توسیع کا بھی خیرمقدم کیا گیا تاہم جب اس صورت حال کا احاطہ کیا گیا تو اس بات کا انکشاف ہوا کہ بعض ورکر جو سیلف امپلائڈ کی کیٹگری میں آتے ہیں ان سے متعلق تمام معاملات کو پس پشت رکھا گیا۔اس کی ایک بڑی مثال بولٹن سمیت برطانیہ بھر کے ہر چھوٹے بڑے شہر کے اندر ٹیکسی ٹرڈ سے وابستہ افراد کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی وضع نہیں کی گئی جس سے یہ پتہ چلایا جاسکے کہ کیا مئی کے آخر یا جون کی ابتدا یا لیٹ ہونے کی صورت میں ادائیگی کیسے شروع ہو ں گی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ برطانیہ کے نارتھ ویسٹ سے لے کر لندن کے جنوبی علاقے تک ٹیکسی کے شعبے سے وابستہ افراد کا زیادہ تر تعلق پاکستانی کمیونٹی سے ہے جن کا کام ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے۔حکومتی فنڈ کے انتظار کے باوجود انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، حکومتی مشیروں اور وزیروں کو سوچنا ہوگا کہ ان پر اور ان کے زیر کفالت خاندان پر کیا گزر رہی ہوگی، اسی طرح برطانیہ کے اندر بعض صحافی ایسے بھی ہیں جو پرنٹ اور الیکٹرانک میں سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ بھی سیلف امپلائڈ کی طرح کام کرتے ہیں انہیں بھی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، لیکن ان کی خوش قسمتی ہے کہ بولٹن سے پاکستان نژاد رکن پارلیمنٹ نے ان کے اس معاملے کو اٹھایا ہے۔ انہوں نے چانسلر رشی سنک کو لکھے گئے خط میں مطالبہ کیا ہے کہ لاک ڈائون اور کورونا وائرس کی وباکے دوران میڈیا کے اداروں جس میں بی بی سی کے علاوہ دیگر ادارے بھی شامل ہیں جہاں فری لانسرز کی حیثیت سے کام کرنے والوں کے لیے حکومت سے ان کی مدد کے لیے کہا ہے۔ انہوں نے کہا، ایک طرف ایسے لوگ جو سیلف امپلائڈ کی اسکیم کے تحت درخواست نہیں دے سکتے، جبکہ دوسری جانب ان کے ادارے ان کے ساتھ تعاون کرنے سے گریز کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فری لانسرز بھی اتنا ہی ٹیکس ادا کرتے ہیں جتنا دیگر اداروں کے کارکن دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود انہیں سیفٹی نیٹ ورک کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، فری لانسرز کے طور پر کام کرنے والے حکومت کی جانب سے مالی فنڈ نہ ملنے کے باعث پریشانی کا شکار ہیں۔ ایک فری لانسر جس نے اپنا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے یاسمین قریشی سے رابطہ کیا کہ اس سلسلے میں ان کی مدد کی جائے، انہوں نے کہا کہ گو حکومت نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ اس اسکیم کے تحت ہر ایک کو شامل کیا جاسکتا ہے، جبکہ بی بی سی جیسے آجر اور تنظیمیں کورونا وائرس کے دوران ملازمت برقرار رکھنے کی اسکیم کے تحت انکار کررہی ہیں جس پر یاسمین قریشی ایم پی نے حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کراتے ہوئے کہا ہےکہ فری لائونسرز کو بھی مشکل کی اس گھڑی میں اسی طرح فنڈ کی مد میں مدد فراہم کی جائے، جس طرح دیگر اداروں کو دی جارہی ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ موجودہ بحران کے دوران کسی کو بھی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔حکومت کو اس پر کڑی نظر رکھناچاہیے۔ ٹیکسی شعبہ سے تعلق رکھنے والوں نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ جس طرح یاسمین قریشی نے میڈیا سے متعلق چانسلر رشی سنک کے ساتھ اٹھایا ہے۔ اسی طرح ٹیکشی شعبہ سے منسلک ہزاروں سیلف امپلائڈ افراد کے مسائل کو بھی پیش نظر رکھیں گے اور میڈیا کے علاوہ ٹیکسی ڈرائیورز جو سیلف امپلائڈ کی حیثیت سے کام کررہے ہیں، ان کے مسائل بھی چانسلر کے گوش گزار کریں گی تاکہ کوئی بھی خاندان برطانیہ جیسی ایک فلاحی ریاست میں مالی بحران سے دوچار نہ ہو، اس بات کا بِخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر سیل امپلائڈ کو بروقت ادائیگیاں نہ کی گئیں تو ان کے گھر کا چولہا کیسے جلے گا ۔؟۔
تازہ ترین