• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے قرضے گزشتہ دو برسوں میں تیزی سے بڑھے ہیں اور ان کی ادائیگی وقت کے ساتھ ساتھ مشکل ہوتی جا رہی تھی تاہم کورونا کے سبب ہمارے بیرونی قرضے ری شیڈول کئے جا رہے ہیں ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، ایشین ڈیولپمنٹ بینک اور دیگر اداروں نے پاکستان کے قرضوں کی ادائیگی میں ایک سال کی مہلت دی ہے۔

معاشی سونامی
زبیر طفیل
سابق صدر، فیڈریشن آف
پاکستان چیمبرز آف کامرس
اینڈ انڈسٹری

اس سے پاکستان پر سے وقتی دبائو ہٹ جائے گا کیونکہ بجٹ کا ایک بڑا امائونٹ قرضوں کی ادائیگی میں جاتا ہے اور اس برس اندازہ تھا کہ یہ رقم ہماری آمدنی کے تقریباً برابر ہوگی۔

امریکا اور دیگر بڑے ممالک غریب ملکوں کا قرضہ معاف کرنے کا بھی سوچ رہے ہیں اگر ایسا ہوا یا پاکستان کو دو تین سال کی مہلت مل جاتی ہے تو پاکستان کی معیشت کو سانس مل جائے گی

زبیر طفیل

رواں مالی برس میں حکومت ٹیکس اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے گو کہ حکومت نے چھ سو ارب کے نئے ٹیکس عائد کئے تھے۔

معاشی سونامی
عارف حبیب
چیئرمین ، عارف حبیب گروپ

اب ضرورت ہے کہ نئے ٹیکس عائد نہ کئے جائیں۔ اس کے برعکس ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیا جائے اور معاشی سرگرمیوں میں پالیسی کے ذریعے تیزی لائی جائے۔ مشیر خزانہ کو بھی اس بات کا ادراک ہے اور انہوں نے عندیہ دیا ہے کہ نئے ٹیکس عائد نہیں کئے جائیں گے۔ 

حکومت کو اس کی ضرورت بھی نہیں رہی ہے کیونکہ شرح سود میں کمی کے سبب حکومت کو بارہ سو ارب کی بڑی بچت ہوگی جو بلند شرح سود کی صورت میں قرضوں کی ادائیگی میں چلا جاتا تھا حکومت کو یہ ایک بڑی اسپیس ملے گی

عارف حبیب

تعمیرات میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے لاگت اور وقت کی بچت کے مقصد کے حصول کے لیے تعمیراتی مشینریز کی درآمد پر امپورٹ ڈیوٹی کا خاتمہ کیا جائے

معاشی سونامی
محسن شیخانی
چیئرمین ، ایسوسی ایشن
آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز(آباد)

اس سے ملک میں عالمی معیار کی رہائش اور انفرااسٹرکچر کاحصول ممکن ہوسکے گا۔تعمیراتی مٹیریل میں سیلز ٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹی کی شرح کم کرکے پانچ فیصد کی جائے۔

سیلز ٹیکس ڈپارٹمنٹ میں رجسٹرڈ نہ ہونے والے بلڈرز اور ڈیولپرز سے تعمیراتی میٹریل کے مینوفیکچررز کی جانب سے اضافی تین فیصد سیلز ٹیکس وصولیوں کا خاتمہ کیا جائے

محسن شیخانی

پاکستان آئی ایم ایف سے مزید دو بلین ڈالر کا قرض کا معاہدہ کرنے جارہا ہے رواں مالی برس اور پی ٹی آئی کی بیس ماہ کے دور حکومت میں پہلے ہی ریکارڈ قرضے لئے جاچکے ہیں

معاشی سونامی
ڈاکٹر ایوب مہر
اکانومسٹ/اقراء یونی ورسٹی

جو کہ مجموعی طور پر جی ڈی پی کے 92؍ فیصد کے برابر ہوگئے ہیں۔ آئین کے تحت پاکستان کے قرضے 60؍ فیصد سے زائد نہیں ہوسکتے اس حد کو عبور کرنے پر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے گزشتہ حکومتوں کے لئے نیب سے انکوائری کا عندیہ دیا تھا اب خود اس کے دور حکومت میں یہ حد 92؍ فیصد تک پہنچ چکی ہے بیرونی سرمائے کا حصول اس حد میں مزید اضافہ کرے گا

ڈاکٹر ایوب مہر

پاکستان کی معیشت اس وقت معاشی سونامی کا سامنا کررہی ہے۔ معاشی ترقی کی شرح نمو پاکستان کی تاریخ میں 68؍ برس بعد پہلی مرتبہ منفی رہی ہے۔ یہ ہی نہیں تقریباً تمام معاشی عشاریئے منفی رہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ یہ مصیبت کورونا کے سبب ہے معیشت کی یہ بدحالی رواں مالی سال کے مارچ تک کے اعداد وش مار کی بنیاد پر دکھائی دے رہی ہے۔ کورونا اثر تو اس تباہی میں مزیدا ضافہ کرے گا۔ معاشی سونامی کے اس پس منظر میں نئے مالی سال کا بجٹ تیاری کے مرحلے میں ہے۔ نئے بجٹ کو لے کر آزاد معاشی ماہرین اور کاروباری طبقے میں تشویش کی لہر پائی جاتی ہے۔ ان کےخیال میں معیشت کو جس سونامی کا سامنا ہے اس میں کورونا اثر مزید تباہی کا باعث بنے گا۔ بیروزگاری کی شدید لہر ایک کروڑ سے زائد افراد کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دے گی۔ بیرون ملک پاکستانیوں کی واپسی اس صورتحال کو مزید خطرناک بنادے گی۔ برآمدات میں کمی، ایف بی آر کی وصولیوں کے اہداف میں ناکامی نے پاکستان کے مستقبل کومزید دھندلادیا ہے آئندہ آنے والے بجٹ میں حکومت کو کیا مشکلات پیش ہیں؟ 

حکومتی آمدنی بڑھانے کی حکمت عملی کیا ہونی چاہئے؟ بیروزگاری کے عفریت سے کیسے نمٹا جائے؟ غریب عوام کو ریلیف کیسے مہیا کیا جائے؟ معاشی ترقی کو کیسے یقینی بنایا جائے؟ یہ اور ان جیسے دیگر اہم سوالات کے جوابات کے لئے ’’معاشی مشکلات اوربجٹ‘‘ کے موضوع پر ٹیلی فونک جنگ فورم کا انعقاد کیا گیا۔ فورم میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر زبیر طفیل، عارف حبیب گروپ کے چیئرمین عارف حبیب، ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد) کے چیئرمین محسن شیخانی اور معروف اکنامسٹ اور اقراء یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر ایوب مہر نے اظہار خیال کیا۔ فورم کی رپورٹ پیش خدمت ہے۔

ڈاکٹر ایوب مہر

اکنامسٹ/اقراء یونیورسٹی

رواں مالی برس میں حکومت اپنے معاشی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے اور بظاہر تاثر یہ دیا جارہاہےکہ اس کی وجہ کورونا وائرس کی وبا ہے۔ حکومت کا یہ تاثر دینا درست نہیں کیونکہ معیشت کے یہ اعدادوشمار مارچ تک کی بنیاد پرریلیز کئے گئے ہیں جب کورونا اثر شروع نہیں ہواتھا۔ مارچ تک کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستانی مجموعی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی کی شرح نمو منفی رہی ہے۔ ایسا پاکستان کی تاریخ میں 68؍ برس بعد ہواہے۔ پاکستان کی معاشی شرح نمو منفی 0.3رہی ہے جبکہ گزشتہ مالی سال کی شرح بھی 3.3 کی بجائے 1.9 رہی ہے۔ 

اس کے علاوہ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی دیکھی گئی صنعتوں کی ترقی کی شرح منفی رہی ہے۔ کافی صنعتیں بندش کاشکار ہوگئی ہیں اور کورونا کے سبب بند ہیں۔ غربت کی تعداد میں اضافہ ہواہے، غرض کہ گزشتہ مالی سال کے تمام معاشی اعشاریئے معیشت کی بہت مایوس کن تصویر پیش کررہے ہیں اور تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس ہولناک تصویر میں مزید خرابی کورونا اثر سے پیدا ہوگئی۔

حکومت کی جانب سے معیشت میں دو شعبوںمیں بہتری بتائی جارہی ہے جو کہ حقیقتاً درست نہیں۔ افراط زر میں کمی کی نوید سراسر غلط بیانی ہے۔ درحقیقت عوام کی قوت خرید میں کمی واقع ہوئی ہے جس کے سبب طلب میں کمی دیکھی جارہی ہے حکومت اس کو افراط زر میں کمی سے تعبیر کررہی ہے۔ دوسرے تجارتی خسارے میں کمی بتائی جارہی ہے یہ دعویً بھی درست دکھائی نہیں دیتاکیونکہ تجارتی خسارے میں کمی برآمدات میں اضافے کے سبب نہیں ہے برآمدات میں تو کمی واقع ہوئی ہے اور اب کورونا کے سبب برآمدات میں مزیدکمی ہوگی۔ تجارتی خسارے میں کمی کی وجہ امپورٹ میں کمی ہے اور یہ تشویشناک یوں ہے کہ امپورٹ میں کمی مشینری، پلانٹس، کیپٹل گڈز، خام مال کے شعبوں میں ہوئی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ نئی سرمایہ کاری نہیں ہوری، نئی انڈسٹریاں نہیں لگ رہیں، یاان میں توسیع نہیں ہورہی جس کے سبب روزگار کے نئے ذرائع بھی نہیں پیدا ہوں گے، نئی سرمایہ کاری کی قیمت پر امپورٹ میں کمی خطرناک ہے۔

پاکستان کواس وقت پالیسی میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ معاشی ترجیحات بدلنا ہوں گی لیکن اس کی بھی امید کم دکھائی دیتی ہے۔ پلاننگ کمیشن اور منسٹری آف فنانس کا پالیسی سازی میں کوئی کردار دکھائی نہیں ۔ مشیر خزانہ بجٹ کاانحصار بیرونی سرمایہ کاری پر رکھ رہے ہیں ان کے ایک بیان کے مطابق 1.8 بلین ڈالر قرض کی ادائیگی میں انہیں ایک سال کا وقت مل گیاہے اور یہ قرضہ ری شیڈول کردیا گیا ہے اور پاکستان اب اسے اگلے برس سے ادا کرنا شروع کرے گا دوسرے پاکستان آئی ایم ایف سے مزید دو بلین ڈالر کا قرض کا معاہدہ کرنے جارہا ہے رواں مالی برس اور پی ٹی آئی کی بیس ماہ کے دور حکومت میں پہلے ہی ریکارڈ قرضے لئے جاچکے ہیں جو کہ مجموعی طور پر جی ڈی پی کے 92؍ فیصد کے برابر ہوگئے ہیں۔ آئین کے تحت پاکستان کے قرضے 60؍ فیصد سے زائد نہیں ہوسکتے اس حد کو عبور کرنے پر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے گزشتہ حکومتوں کے لئے نیب سے انکوائری کا عندیہ دیا تھا اب خود کے دور حکومت میں یہ حد 92؍ فیصد تک پہنچ چکی ہے بیرونی سرمائے کا حصول اس حد میں مزید اضافہ کرے گا۔

حکومت کم شرح سود پر قرضوں کے حصول کو اپنی کامیابی گردان رہی ہے جبکہ درحقیقت عالمی مارکیٹ میں شرح سود میں بے حد کمی دیکھی جارہی ہے اور یہ شرح زیرو تک بھی پہنچ گئی ہے۔ فارن کرنسی میں قرضوں کا حصول پاکستانی معیشت کے لئے خطرناک ثابت ہوگا اور مستقبل میں پاکستان کے لئے قرضوں کے سود کی ادائیگی ناممکن ہوجائے گی۔ آئی ایم ایف اپنے ڈاکومنٹس میں مینشن کرچکا ہے کہ پاکستان کے روپے کی قدر مزید گر سکتی ہے اور یہ ڈالر کے مقابلے میں 200؍ روپے ہوسکتی ہے اگر پاکستانی روپے کی شرح میں اتنی کمی ہوئی تو معاشی سونامی سے کوئی محفوظ نہیں رہ سکتا۔

حکومت کیپٹل وصولیوں کے لئے اب ریلوے کی زمین کو فروخت کرنے کا پروگرام بنارہی ہے اور دوسری طر ف پاکستان کے بڑے ایئرپورٹس کو بھی آئوٹ سورس کرنے کامنصوبہ زیر غور ہے یہ بہت خطرناک اقدام ہوگا۔ حکومت کی ٹیکس انکم میں واضح کمی واقع ہوئی ہے اور ساڑھے پچپن کھرب کا ہدف ناممکن د کھائی دیتاہے بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی ٹیکس آمدنی گزشتہ مالی سال کے برابر ہی ہوگی جو کہ چالیس کھرب سے کم ہے۔ نئے بجٹ میں ٹیکس آمدنی میں اضافے کے لئے پالیسی واضح نہیں ہے۔

کہا جارہا ہے کہ کوئی نیا ٹیکس نہیں عائد کیا جائے گا اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹیکس ریٹ میں اضافہ ممکن ہے۔ انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس میں اضافہ کا بوجھ انڈسٹری پر آئے گا جو پہلے ہی بدحالی کا شکار ہے۔ حکومت ایکسائز ڈیوٹی میں بھی کمی کی بات کررہی ہےجو ڈبلیو ٹی رجیم میں پہلے ہی کم ہوچکی ہے اس میں کمی سے صوبوں کو نقصان ہوگا کیونکہ ایکسائز ڈیوٹی این ایف سی میں صوبوںمیں تقسیم ہوتی ہے وفاق اپنے حصے کو محفوظ کرنے کی کوشش کررہا ہے جبکہ صوبوں کی آمدنی میں کمی کی منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہے۔ 

حکومت بزنس فرینڈلی ماحول بنائے، اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھے، ٹیکس بیسڈ کو بڑھانے کی ضرورت ہے اس کی شرح کو نہیں، زراعت سے وابستہ صنعتوں کو فروغ کی پالیسی تیار کرنے کی ضرورت ہے، پاکستانی زراعت پر بھی برا وقت ہے، ڈیزل کی قیمتوں، بارشوں اور ٹڈی دل کے سبب فصلوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ کپاس جس پر ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری کا انحصار ہے پیداوار میں کافی کمی واقع ہوئی ہے اور یہ دس بارہ ملین بیل سے کم ہو کر آٹھ ملین بیل پر آگئی ہے جو ہماری برآمدات کو بھی متاثر کرے گی۔ زراعت سے منسلک بیوریجز، فوڈ، ڈیری فارمنگ انڈسٹری کو فروغ دینے کی پالیسی تیار کرنی ہوگی اس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے شہروں کی طرف ہجرت میں کمی ہوگی انڈسٹری کو فروغ ملے گا حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوگا، کاٹن کی صنعت دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے گی۔

حکومت نے عوامی قرضوں کی ادائیگی میں سہولت فراہم کی ہے اور اسے ایک سال کے لئے ڈیفر کیا ہے اب لوگ ہائوسنگ، کار وغیرہ کا قرضہ ایک سال بعدادا کرسکیں گے۔ اس اقدام سے بینکوں میں سرمائے کے بہائو او ردستیابی میں کمی واقع ہوگی سرمایہ کاری کے لئے معقول رقم دستیاب نہیں ر ہےگی شرح سود میں کمی کے سبب بچتوں کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی اور جو لوگ زیادہ منافع کے لئے بینکوں میں رقوم رکھ رہے تھے اب نکالنا شروع ہوگئے ہیں اس سے بھی بینکوں کے سرمائے میں کمی ہوگی۔

زبیرطفیل

سابق صدر ،فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری

پوری دنیا اس وقت کورونا وبا کے سبب شدید مشکلات کا شکار ہے۔ دنیا بھر میں سوا تین لاکھ اور امریکا میں تقریباً ایک لاکھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ کورونا وبا کے سبب تمام دنیا اور بڑی عالمی معیشتیں شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ امریکا، یورپ، مڈل ایسٹ کے ممالک بھی چین سے شروع ہونے والی وبا سے شدید متاثر ہیں۔ پاکستان ترقی پذیر ملکوں میں شمارکیا جا تا ہے جہاں کورونا وبا کا پھیلائو بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک ترقی پذیر ملک کے ناتے ہماری معیشت ویسے ہی مشکلات سے نبرد آزما تھی اب کورونا وائرس کا اس پر مزید منفی اثر آئے گا اور مسائل دوچند ہو جائیں گے۔ گزشتہ برس سے ہی حکومت کی معاشی پالیسیوں کے سبب کاروبار میں دشواریاں تھیں، صنعتیں بند ہو رہی تھیں، سرمایہ کاری نہیں ہو رہی تھی۔ کورونا نے کاروبار کو ناممکن بنا دیا ہے۔ ان حالات میں آئندہ مالی برس کا بجٹ تیار کیا جا رہا ہے جب پاکستان کی آمدنی کے تمام وسائل میں کمی کے اشارے ہیں۔ 

برآمدات میں اضافہ گزشتہ کئی برسوں سے نہیں ہوسکا، روپے کی بے قدری نے بھی اس شعبے پر کوئی خاص اثر نہیں ڈالا اس برس بھی 23/24 ارب ڈالر تک محدود ہے، زرمبادلہ کا دوسرا اہم شعبہ ترسیلات زر میں جو بیرون ملک مقیم پاکستان اپنے وطن بھیجتے ہیں۔ اس میں خدشہ ہے کہ اب کمی واقع ہوگی۔ کورونا وبا نے دنیا بھر میں کاروبار کو متاثر کیا ہے۔ لاک ڈائون کے سبب بے روزگاری کا گراف بہت تیزی سے اوپر گیا ہے جس کے اثرات ترسیلات زر پر پڑیں گے۔ خدشہ ہے کہ اس میں 22فیصد تک کمی واقع ہوگی۔ پاکستان برآمدات میں بھی 30فیصد کمی کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ امریکا یورپ ہماری بڑی مارکیٹیں ہیں۔ ٹیکسٹائل مصنوعات زیادہ تر ان ہی ملکوں میں برآمد کی جاتی ہیں۔ 

رواں سیزن کے تمام آرڈرز منسوخ ہو چکے ہیں۔ نئے آرڈرز کا بھی ابھی کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ لاک ڈائون کھلے، حالات نارمل ہوں، شاپنگ مال کھلیں۔ فلائٹس چلیں، خرید و فروخت شروع ہو تو کاروبار بحال ہوگا لیکن اس میں ابھی وقت لگے گا۔ یوں برآمدات میں بڑے پیمانے پر کمی واقع ہونے کا خدشہ ہے جس کا لازمی اثر زرمبادلہ پر آئےگا۔ کورونا وبا کے سبب پاکستان کی معیشت کو ایک بڑا جھٹکا بے روزگاری کی شکل میں بھی برداشت کرنا پڑے گا۔ نہ صرف ملک میں بڑی تعداد میں بے روزگار ہو رہےہیں بلکہ دنیا بھر میں روزگار کی غرض سے مقیم پاکستانی بھی اس وبا کے سبب روزگار سے محروم ہوگئے ہیں اور ان کیلئے وہاں قیام کرنا دشوار ہوتا جا رہا ہے اور وہ وطن واپس آنا چاہتے ہیں۔

پاکستان میں بے روزگاری کی ایک بڑی لہر آئے گی۔اندرون ملک بڑی صنعتیں بھی بندش کا شکار ہیں۔ پیداواری عمل رُکنے کے سبب بے روزگاری ہو رہی ہے دُوسری طرف حکومتی آمدنی میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ آٹو موبیل، ٹیکسٹائل جیسی تمام بڑی صنعتیں کام نہیں کر پا رہی ہیں۔ جس کے سبب حکومت کو ٹیکس وصول نہیں ہو رہا ہے۔ ایک کار سے حکومت کو پانچ سے چھ لاکھ سیلزٹیکس مل رہا تھا اور کار کی فروخت نصف ہو کر رہ گئی ہے۔ نئی کاروں کی تیاری کا عمل رُکا ہوا ہے۔ 

ایک اندازہ ہے کہ کار کی فروخت میں 30 فیصد کمی واقع ہو چکی ہے جس کے سبب جو انڈسٹری 80 ارب روپے کا ٹیکس ادا کرتی تھی اب اس میں 30 فیصد کمی واقع ہوگی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے پاکستان کی ٹیکس آمدنی میں بڑی کمی ہوگی۔ پاکستان کا ٹیکس آمدنی کا ہدف ساڑھے پچپن کھرب روپے تھا اب خدشہ ہے کہ یہ چالیس کھرب کے قریب وصول ہوگا۔ ان حالات میں ایک متوازن بجٹ تیار کرنا ایک مشکل اَمر ہے۔

پاکستان کے قرضے گزشتہ دو برسوں میں تیزی سے بڑھے ہیں اور ان کی ادائی وقت کے ساتھ ساتھ مشکل ہوتی جا رہی تھی تاہم کورونا کے سبب ہمارے بیرونی قرضے ری شیڈول کئے جا رہے ہیں ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، ایشین ڈیولپمنٹ بینک اور دیگر اداروں نے پاکستان کے قرضوں کی ادائی میں ایک سال کی مہلت دی ہے۔ اس سے پاکستان پر سے وقتی دبائو ہٹ جائے گا کیونکہ بجٹ میں ایک بڑا امائونٹ قرضوں کی ادائی میں جاتا ہے اور اس برس اندازہ تھا کہ یہ رقم ہماری آمدنی کے تقریباً برابر ہوگی۔ امریکا اور دیگر بڑے ممالک غریب ملکوں کا قرضہ معاف کرنے کا بھی سوچ رہے ہیں اگر ایسا ہوا یا پاکستان کو دو تین سال کی مہلت مل جاتی ہے تو پاکستان کی معیشت کو سانس مل جائے گی۔ قرضوں کی ادائی نہ کرنے سے زرمبادلہ کے ذخائر پر سے بھی دبائو کم ہو جائے گا۔ اس دوران معیشت کی گاڑی کو رواں رکھا جا سکے گا۔ آئی ایم ایف سے بھی دوبارہ بات چیت ہو رہی ہے ادارے نے پہلے ہی قرضوں کی ادائی میں نرمی دکھائی ہے۔ مزید نرمی پاکستانی معیشت کیلئے اچھی خبر ہوگی۔

حکومت نے کورونا سے متاثرہ افراد کیلئے 12کھرب کا ریلیف پیکیچ کا اعلان کیا ہے لیکن یہ پیسے کہاں سے آئیں گے۔ حکومت اس کیلئے مزید قرض لے گی یا نوٹ چھاپےگی جس کا اثر افراط زر پر برا پڑے گا۔ حکومت پالیسی کے ذریعے عوام کو ریلیف مہیا کرے۔ عالمی منڈی میں پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام تک پہنچایا جائے۔ بجلی کی قیمتوں میںکمی کی جائے، ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی کو یقینی بنایا جائے۔ اس سے مہنگائی میں کافی کمی واقع ہو سکتی ہے اور عوام کی قوت خرید میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ بجٹ میں صنتوں کیلئے مراعات کا اعلان کیا جائے۔

ٹیکسوں میں کمی کی جائے، کوئی نیا ٹیکس عائد نہ کیا جائے، ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیا جائے۔ صنعتوں کو ریلیف دیا جائے گا تو اس سے بے روزگاری کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ حکومت شرح سود میں مزید کمی کرے اور اسے پانچ فیصد پر لایا جائے۔ بے روزگار افراد کیلئے قرضوں کی اسکیم شروع کی جائے، چھوٹے قرضے زیر یا بہت کم شرح سود پر دیئے جائیں۔ شرح سود میں کمی سے انڈسٹری میں نئی سرمایہ کاری ہوگی۔ لیزنگ کا کاروبار دوبارہ شروع ہوگا لوگ گھروں کاروں کیلئے قرض لیں گے۔ 

کنسٹرکشن انڈسٹری کیلئے پیکیج مناسب ہے لیکن اس کے چلنے میں بڑی رکاوٹ سریئے اور سیمنٹ کی قیمتوں میں اضافہ ہے حکومت ان اشیاء پر ٹیکس کم کرے تاکہ نہ صرف تعمیراتی شعبہ کام کرے بلکہ اس کے چلنے سے اس سے منسلک چالیس انڈسٹریاں بھی چلیں۔ حکومت صنعتوں کو چلانے کیلئے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کرے، چینی اور آٹے کے اسکینڈل کو منطقی انجام تک پہنچانا، کورونا کے سبب ہیلتھ کیئر سیکٹر میں کام کرنے کی بڑی ضرورت ہے، صحت کے شعبے میں فنڈنگ بڑھائی جائے۔ بڑی صنعتوں کے ساتھ چھوٹی صنعتوں کیلئے بھی ریلیف پیکیچ دیا جائے اور انہیں کم شرح سود پر قرضے دیئے جائیں۔

عارف حبیب

چیئرمین عارف حبیب گروپ

پاکستانا کی معیشت کو اس وقت نئے اور بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔ اور یہ حکومت کی ذہانت، دور اندیشی اور حکمت عملی کا امتحان ہے کہ وہ نہ صرف فوراً اس چیلنج پر پورا اترے بلکہ قوم اور ملک کوبھی معاشی بحران سے نجات دلائے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ حکومت کو اپنی معاشی پالیسیوں میں بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ گزشتہ بجٹ میں لئے گئے اقدامات کے سبب معیشت سست روی کا شکار ہوئی، مثال کے طور پر شناختی کارڈ کی لازمی شرط نے کاروباری طبقے کی حوصلہ شکنی کی اور معاشی سرگرمیاں سست پڑ گئیں۔ کاروبار مشکلات کا شکار ہوا جس کے سبب کرنٹ اکائونٹ خسارہ پر اثر تو ہوا لیکن امپورٹ میں کمی واقع ہوئی۔ شرح نمو منفی رہی، ریونیو اپنے ہدف سے بہت نیچے رہا، برآمدات میں توقع کے مطابق اضافہ نہیں ہوا، مجموعی قومی پیداوارمیں دو فیصد گروتھ کا اندازہ تھا لیکن یہ منفی رہی۔ اس کی بڑی وجہ معاشی سرگرمیوں کا نہ ہونا تھا۔ معاشی سرگرمی ہوگی تو حکومت کی آمدن میں اضافہ ہوگا۔

رواں مالی برس میں حکومت ٹیکس اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے گو کہ حکومت نے چھ سو ارب کے نئے ٹیکس عائد کئے تھے اب ضرورت ہے کہ نئے ٹیکس عائد نہ کئے جائیں۔ اس کے برعکس ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیا جائے اور معاشی سرگرمیوں میں پالیسی کے ذریعے تیزی لائی جائے۔ مشیر خزانہ کو بھی اس بات کا ادراک ہے اور انہوں نے عندیہ دیا ہے کہ نئے ٹیکس عائد نہیں کئے جائیں گے۔ حکومت کو اس کی ضرورت بھی نہیں رہی ہے کیونکہ شرح سود میں کمی کے سبب حکومت کو بارہ سو ارب کی بڑی بچت ہوگی یوں وہ بلند شرح سود کی صورت میں قرضوں کی ادائیگی یا اس کے سود کی شکل میں چلا جاتا تھا حکومت کو یہ ایک بڑی اسپیس ملے گی۔

عارف حبیب کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں بھی اب نرمی دکھائی دیتی ہے جس کا فائدہ بھی پاکستان اٹھا سکتا ہے۔ کورونا کے سبب دنیا بھر کے مالی معالات میں نرمی پیدا ہو رہی ہے۔ گزشتہ بجٹ کے موقع پر آئی ایم ایف کی شرائط سخت تھیں ان کو پاکستان پر بھروسہ بھی نہیں تھا کہ یہ اپنا وعدے پورا نہیں کرتے لیکن اب ادارے کے رویئے میں بہتری دکھائی دے رہی۔ قرضوں کی ادائی ملتوی کی گئی ہے۔ یہ اعتمادمیں بحالی کا اشارہ ہے جس کیلئے ڈاکٹر حفیظ شیخ اور وزیراعظم عمران خان کی کوششوں کا بڑا دخل ہے۔

پاکستان نے بھی آئی ایم ایف کی شرائط پورا کرنے میں سخت کنٹرول دکھایا ہے ان کی بنیادی شرط پرائمری خسارہ کو جی ڈی پی کے ماہ تک محدود رکھنا تھا جس میں پاکستان کامیاب دکھائی دیا ہے۔ یہ جاری اخراجات میں کنٹرول کے سبب ہی ممکن ہوا ہے آگے بھی توقع ہے جاری اخراجات پر کنٹرول جاری رہے گا۔ اب تو شرح سود میں کمی کے سبب وسائل میں بھی اضافہ ہوگا۔ بلند شرح سود میں بچت دکھائی تو کم شرح سود میں تو بچت میں مزید اضافہ ہوگا۔

عارف حبیب نے کہا کہ ترقیاتی اخراجات کیلئے حکومت سرکاری منصوبے ضرور تیار کرے لیکن اس میں نجی شعبے کی شراکت بھی اختیار کرے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ایک کامیاب ماڈل ہے اس سے حکومتوں کے وسائل کم صرف ہوتے ہیں اور منصوبوں میں بہتری بھی پیدا ہوتی ہے۔ وسائل میں اضافہ کیلئے حکومت کا نج کاری کا پروگرام تھا جو رواں برس تو پورا نہیں ہو سکا حکومت نئے مالی سال میں نج کاری پر توجہ دے۔ اس سے وہ تین سو ارب روپے حاصل کر سکتے ہیں اس طرح حکومت پر سرکاری اداروں کے مالی بوجھ میں بھی کمی واقع ہوگی اور وہ ایک بڑے خسارے سے نکلنے میں کامیاب ہو جائے گی۔

اسٹیٹ بینک کی مالی مراعات اور ایوانوں اور حکومت کے ریلیف پیکیج کے سبب بھی معاشی حالات میں بہتری آے گی۔ سرمائے کے بہائو میں بہتری کے اچھے نتائج نکلیں گے۔ اسٹیٹ بنک نے عوامی قرضوں کی ادائی میں ایک سال کی چھوٹ فراہم کی ہے جو بڑا اقدام ہے۔ گزشتہ برس گھروں، کاروں کی خربداری میں کمی آئی تھی اور کریڈٹ کارڈز کے استعمال میں بھی جو بلند شرح سود کے سبب تھا۔ اب شرح سود میں کمی سے اس صورتحال میں بہتری آئے گی۔ لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ ہوگا ان کی حقیقی آمدنی بڑھے گی جس سے مارکیٹ طلب میں اضافہ ہوگا جو رسد میں اضافہ اور معاشی سرگرمی میں تیزی کا سبب بنے گا حکومت نے زرعی شعبے میں بھی کسان کو بیچ کی فراہمی میں مدد دی ہے، کھاد کی قیمتیں دو ہزار سے کم ہو کر چودہ سو پر آگئی ہیں جس کا فائدہ بھی کسان کو پہنچے گا۔

ایک اچھی معاشی پیش رفت یہ بھی ہوئی ہے کہ بیرونی قرضوں کی ادائی میں توسیع اور مہلت مل گئی ہے۔ آئی ایم ایف، ایشین ڈیولپمنٹ بینک، ورلڈ بینک، جی ٹوئنٹی، پیرس کلب اور ممالک کے مابین پالیسی تعلقات کی سطح پر قرضے کی ادائی میں مہلت دی جا رہی ہے۔ اس سے پاکستان کے زرمبادلہ پر دبائو میں کمی واقع ہوگی جو اس وقت ہمارا ایک بڑا مسئلہ تھا۔ قرضوں کی ادائی میں چھوٹ ملنے سے زرمبادلہ کے ذخائر بہتر رہیں گے اس طرح روپے کی قیمت بھی مستحکم رہے گی۔ حکومت کو چاہیے لاک ڈائون میں نرمی کو برقرار رکھے اگر کورونا کے سبب لاک ڈائون دوبارہ ہوا تو قوم کا بڑا نقصان ہوگا۔ لوگ بھی احتیاط کریں اور کاروبار زندگی کو برقرار رکھنے کی کوشش پوری احتیاط کے ساتھ کریں۔ 

اس وبا کا مقابلہ احتیاط سے کریںتا کہ کاوروبار جاری رہے اور وبا بھی نہ پھیلے۔ کورونا پروٹوکول اور اس کے ایس او پیز پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔ غیرضروری سرگرمیاں نہ کریں، بھیڑ بھاڑ، اجتماعات سے گریز کریں۔،سماجی فاصلے کے ساتھ رہیں۔ توقع ہے کہ حکومت کے ریلیف پیکیج، اسٹیٹ بینک کے مالی سہولتوں، حکومت کے زرعی اور تعمیراتی صنعتوں کے لیے مراعاتی اور ترغیباتی پیکیج اور شرح سود میں کمی جو 13.25 سے 8.0 فیصد پر ہے جیسے اقدامات سے معاشی سرگرمیوں میں بہتری پیدا ہوگی۔ اس کے مثبت اثرات پیدا ہوں گے، روزگار کے ذرائع پیدا ہوں گے اور غربت میں کمی میں مدد ملے گی۔

محسن شیخانی

چیئرمین ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ دیولپرز (آباد)

تعمیراتی شعبے کے لیے ریلیف پیکج اور تعمیراتی شعبے کی ترقی کے لیے بھرپور معاونت پر آباد وزیراعظم عمران خان، مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ، ایف بی آر کی چیئرپرسن نوشین جاوید امجد کا انتہائی مشکور ہے ۔ تعمیراتی شعبے کی ترقی کے لیے آباد نے بجٹ تجاویز پیش کی ہیں۔

تعمیراتی شعبے کو وزیراعظم عمران خان کی جانب سے انڈسٹری کا درجہ دیے جانے کے بعد دیگرصنعتوں کی طرح تعمیراتی صنعت کو بھی فنانسنگ ،امپورٹس اور ایکسپورٹ میں فوائد حاصل ہونے چاہئیں۔

وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات میں متفقہ فیصلے کے مطابق سیکشن 236 k(3) کا خاتمہ کیا جائے۔ فائنل ٹیکس ریجیم اختیار نہ کرنے والے بلڈرز اور ڈیولپرز کو ود ہولڈنگ ٹیکس سے استثنیٰ دیا جانا چاہیے۔فنانس ایکٹ 2017 کے مطابق کیپٹل گین ٹیکس کے ریٹس اور دورانیہ کم کیا جانا چاہیے۔اسٹیل بار اور سیمنٹ پر ریگولیٹری ڈیوٹی اوراینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی کا خاتمہ ضروری ہے۔ ریگولیٹری ڈیوٹی اور اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی کے خاتمے سے سیمنٹ اور اسٹیل کے شعبے میں کارٹیلائزیشن اور اجارہ داری کا خاتمہ ہوجائے گا۔اسٹیل کی درآمد کو روکنے کے لیے ریگولیٹری ڈیوٹی اس وقت نافذ کی گئی تھی جب تقریبا 5 برس قبل عالمی منڈی میں اسٹیل کی قیمتیں فی میٹرک ٹن 500 امریکی ڈالر سے گھٹ کر 220 امریکی ڈالر ہوگئی تھیں۔ریگولیٹری ڈیوٹی کو اسٹیل کی قیمتوں میں واپس اضافے کے بعد ختم کیا جانا تھا۔تاہم اسٹیل کی قیمتیں واپس اپنی جگہ پر آنے کے باوجود ریگولیٹری ڈیوٹی کا خاتمہ نہیں کیا جاسکا ہے۔

علاوہ ازیں صرف چند مینوفیکچررز کو فائدہ پہنچانے کے لیے اسٹیل بار کی درآمد پر اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی نافذ کی گئی تھی کہ پاکستان میں 5 برسوں میں 50 لاکھ گھروں کی تعمیر،ایک کروڑ لوگوں کو روزگار فراہم کرنا اور کارٹیلائزیشن کا خاتمہ وزیراعظم عمران خان کا وژن ہے تاہم ریگولیٹری ڈیوٹی اور اینٹی دمپنگ ڈیوٹی کا نفاذ وزیر اعظم عمران خان کے وژن سے متصادم ہے۔ہائوسنگ سیکٹر غیر ملکی زرمبادلہ کمانے کا اہم ذریعہ بن سکتا ہے۔ بلڈرز اور ڈیوپرز اپنے تعمیر شدہ یونٹس اور ڈیولپڈ پلاٹ عالمی منڈی میں اوورسیز پاکستانیوں کو روڈ شوز کے ذریعے فروخت کریں گے۔ 

 فروخت کا عمل بینکنگ چینلز کے ذریعے ہوگا،عالمی منڈی میں تعمیر شدہ یونٹس اور پلاٹ کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم میں سے 50 فیصد رقم سے ڈیوٹی فری تعمیراتی مٹیریل کی درآمد میں استعمال کی اجازت دی جائے اس سے مقامی تعمیرات کو بین الاقوامی معیار پر لایا جاسکے گا اور کارٹیلائزیشن کا بھی خاتمہ ہوگا۔اس سارے عمل سے سب سے زیادہ فائدہ حکومت پاکستان اور خریداروں کو ہوگا۔

6 حال ہی میں فنانس ایکٹ کے تحت نافذ آرڈیننس میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں جس کے مطابق پروجیکٹ شروع کرنے کا ٹائم فریم بڑھا کر 31 دسمبر 2021 کیا جائے۔پروجیکٹ کی تکمیل کی مدت 30 ستمبر2025 کی جائے۔بلڈرز ،ڈیولپرز اور خریداروں کے لیے سیکشن 111 سے استثنیٰ کا دورانیہ اسی کے مطابق کیا جائے۔ پروجیکٹ ڈیولپمنٹ کے لیے 40 فیصد ادائیگی کی شرط کا خاتمہ کیا جائے اس سے ڈیولپرز کو اپنے پروجیکٹ کو جلد مکمل کرنے کے لیے اپنے ہی ریسورسز سے سرمایہ کاری میں مدد ملے گی۔آمدنی زیادہ ہونے کی صورت میں فی اسکوائر فٹ۔

اسکوائر گز پر ٹیکس شرح رضاکارانہ طور پر بڑھانے کا نظام متعارف کرایا جائے۔اس شق سے پورٹل میں رجسٹریشن کے وقت مستفید ہونا چاہیے۔کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ کی ایک شق متعارف کی جانی چاہیے جس سے دولت کی تخلیق اور لوگوں کو اپنا منافع ایمانداری سے ظاہر کرنے میں مدد ملے گی اور اس سے ریونیو میں بھی کئی گنا اضافہ ہوگا۔پنجاب ،اسلام آباد اور کے پی کے میں پلاٹ عمارتوں کی تعمیر یا ہائوسنگ اسکیم کے لیے قسطوں پر فروخت کیا جاتا ہے۔خریدار بیعانہ دے کر بقایا ادائیگی چیک کے ذریعے عمارت یا ہائوسنگ اسکیم کی تعمیرات کے ساتھ ساتھ ادا کرتا ہے۔

ختمی ادائیگی کے بعد فروخت کنندہ پلاٹ خریدار کے نام پر ٹرانسفر کرتا ہے۔ یہ طریقہ کار عمو ما بڑے پلاٹ یا زمین کے بڑے رقبے کی فروخت میں کیا جاتا ہے۔حالیہ آرڈیننس میں اس طرح کے بلڈرز اور ڈیولپرز کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔لہذا تجویز دی جاتی ہے کہ فکس ٹیکس اور ٹیکس کریڈٹ سے فائدہ اٹھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ بلڈرز اور ڈیولپرز کو شامل کرنے کے لیے فنانس ایکٹ میں مناسب شق شامل کی جائے۔30 جون 2021 کے بعد انسٹالمنٹس کی ادائیگی پر بلڈرز اور ڈیولپرز کو سیکشن 111 سے استثنیٰ نہیں دیا جانا چاہیے۔

محسن شیخانی کا کہنا تھا کہ تعمیراتی مشینریز کی درآمد پر امپورٹ ڈیوٹی کا خاتمہ کیا جائے۔ تعمیرات میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے لاگت اور وقت کی بچت کے مقصد کے حصول کیلیے تعمیراتی مشینریز کی درآمد پر امپورٹ ڈیوٹی کا خاتمہ کیا جائے اس سے ملک میں عالمی معیار کی رہائش اور انفرااسٹرکچر کاحصول ممکن ہوسکے گا۔تعمیراتی مٹیریل میں سیلز ٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹی کی شرح کم کرکے 5 فیصد کی جائے۔سیلز ٹیکس ڈپارٹمنٹ میں رجسٹرڈ نہ ہونے والے بلڈرز اور ڈیولپرز سے تعمیراتی میٹریل کے مینوفیکچررز کی جانب سے اضافی 3فیصد سیلز ٹیکس وصولیوں کا خاتمہ کیا جائے۔چونکہ قانون کے مطابق بلڈرز اور ڈیولپرز کے لیے سیلز ٹیکس ڈپارٹمنٹ میں رجسٹریشن کرانا ضروری نہیں ہے اس لیے بلڈرز اور ڈیولپرز کی ایف بی آر میں فعال حیثیت ہی کافی ہے اس لیے اضافی 3 فیصد سیلز ٹیکس چارج نہیں کیا جانا چاہیے۔سیمنٹ کی پیداوار میں ایکسائز ڈیوٹی میں 50 فیصد کمی کی تجویزدی گئی ہے۔

کورونا وائرس ایک عالمی وبا ہے جس سے دنیا بھر کے ممالک بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔پاکستان میں بھی کورونا وائرس کے مریضوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس کے لیے صحت کے شعبے کے لیے مختص بجٹ میں اضافہ ناگزیر ہوگیا ہے۔پورے پاکستان میں جدید سہولتوں سے آراستہ اسپتالوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور ان اسپتالوں کی تعمیرات کے لیے نجی شعبے کو بھی کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے۔

پاکستان کے سرکاری اداروں کی کارکردگی میں بہتری لانے کے لیے اداروں کی آئوٹ سورسنگ کی جائے۔حال ہی میں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پاکستان کے تمام بڑے ایئرپورٹس کو نجی شعبوں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہو۔آباد اس فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہے۔آباد کی تجویز ہے کہ پاکستان کے دیگر اداروں کی کارکردگی میں بہتری لانے کیلیے ان اداروں کو بھی نجی شعبے کے حوالے کیا جائے اس سے نا صرف حکومت کے ریونیو میں اضافہ ہوگا بلکہ بہتر کارکردگی سے عام شہریوں کے مسائل بھی حل ہوسکیں گے۔

تازہ ترین