محمد عادل
جب سے انسان اس روئے زمین پر ہے، اس نے مختلف مواقع پر بہت سی قدرتی آفات کا سامنا کیا ہے گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان اور قدرتی آفات کا تعلق بہت پرانا ہے۔جب انسان اس دنیا میں آیا اور اپنے ماحول سے آشنا ہوا ، اس نے اپنے اطراف میں ہونے والی تبدیلوں کا تجزیہ کیا تو قدرتی آفات کے باعث رونما ہونے والی تبدیلیوں نے اسے حیرت و تجسس کے دریا میں غوطہ زن ہونے پر مجبور کردیا۔
ماہرین ارضیات کے مطابق صدیوں سے وقتاً فوقتاً رونما ہونے والی قدرتی آفات انسان اور اس کے گرد و پیش کے لیے خطرناک ثابت ہوئی ہیں۔دراصل قدرتی آفات کسی بھی قدرتی خطرے جیسے سیلاب،طوفان،آتش فشاں، زلزلے، جنگل میں آگ، باڑ، سنامی وغیرہ جیسے اثرات کا نام ہے،جو ہمارے قدرتی ماحول پر اس طرح اثر انداز ہوتے ہیں، جس سے نہ صرف قدرتی وسائل کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ جان و مال کی بھی بربادی دیکھنے کو ملتی ہے۔اس لیے انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان اقدام کے بارے میں سوچے جن کے باعث وہ خود کو اور کائنات کو ان قدرتی آفات سے محفوظ رکھ سکے یا ان کے نقصانات کم سے کم ہوں۔
قدرتی آفات کے موقع پر ایک انسان کیا عمل انجام دے اور جان و مال کی کس طرح حفاظت کر سکے۔دنیا بھر کے سائنس دانوں نے اس پر تحقیق کر کے ان آفات کی وجوہات کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور لوگوں کو اس سے آشنا کرایا ہے۔اسی طرح ہر بڑا ادیب اور شاعر جو انسانیت کا محافظ ہوتا ہے اور ماحول اور معاشرے کا ترجمان ہوتا ہے وہ بھی اپنے کلام کے ذریعے لوگوں کو ان قدرتی آفات سے واقف کراتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر ادب میںان آفات کی ترجمانی دیکھنے کو ملتی ہے۔
اگر ہم اردو غزل کی بات کریں تو اس کے دامن میں بہت سے ایسے اشعار ہیں، جن میں واضح طور پر ان آفات کا ذکر ملتا ہے۔ مثلاً کچھ قدرتی آفات کا ذکر پیش کیا جاتا ہے جنھیں شعراءنے اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔زلزلہ آنے سے انسانی ماحول،اس کی زندگی اور نفسیات پر بھی گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔اور جب کوئی حساس شاعر اس تکلیف سے دوچار ہوتا ہے تواس کی ترجمانی اپنی تخلیقات میں کرتا ہے۔اردو غزل میں زلزلہ سے متعلق چند اشعار ملاحظہ کریں:
زلزلہ آیا تو دیواروں میں دب جاؤں گا
لوگ بھی کہتے ہیں یہ گھر بھی ڈراتا ہے مجھے
(اختر ہوشیارپوری)
تم جسے بانٹ رہے ہو وہ ستم دیدہ زمیں
زلزلہ آئے گا کچھ ایسا کہ پھٹ جائے گی
(عارف عبدالمتین)
زندگی جس کی اجڑ جاتی ہے اس سے پوچھو
زلزلہ شہر میں آتا ہے چلا جاتا ہے
(ہاشم رضا جلال پوری)
زلزلہ آیا مکاں گرنے لگا
نیند میں اک خواب داں گرنے لگا
(شمائلہ بہزاد)
آتش فشاں کے پھٹنے کے بعد پرندوں اور جانوروں کی زندگی بھی متاثر ہوتی ہے،پرندے اس سے نکلنے والی آگ، دھویں اور گرمی سے مرجاتے ہیں۔جنگلات میں آگ لگ جاتی ہے۔انسانی بستیاں برباد ہو جاتی ہیں۔ اردو غزل میں آتش فشاں سے متعلق بہت سے اشعارپڑھنے کو ملتے ہیں مثلاً
ٹھٹھر گیا ہے بدن سب کا برف باری سے
دہکتا کھولتا آتش فشاں تلاش کرو
(اسعد بدایونی)
جانے لاوا سلگ اٹھے کس وقت
دل کہ آتش فشاں ہے کھیل نہیں
(شفیق دہلوی)
پھٹا مجھ میں پھٹا آتش فشاں پھر
ہیں سینے میں دھماکوں پر دھماکے
(شمیم عباس)
یہ خوف ہے کہیں آتش فشاں نہ بن جائے
ہمارے پاؤں کے نیچے دبا ہوا ساکچھ
(راشدجمال فاروقی)
غم کا اک آتش فشاں تھا اور میں
دور تک گہرا دھواں تھا اور میں
(کبیر اجمل)
کیا جانے کس مقام سے لاوا ابل پڑے
آتش فشاں زمیں پہ سفر کر رہے ہیں ہم
(ناصر شکیب)
جنگل کی آگ کے بہت برے اثرات ہوتے ہیں، جس سے ہمارا قدرتی ماحول بھی بری طرح متاثر ہوتا ہے۔گذشتہ کئی صدیوں میں یہ ایک بڑی تباہی کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔اس طرح کے واقعات دنیا بھر میں دیکھنے کو ملے ہیں۔مثلاً ’انٹار کٹکا‘ اور دیگر براعظم میں پیش آئے واقعات اس کی ترجمانی کرتے ہیں۔اس کے سبب ہمارے قدرتی ماحول،انسانی جان و مال،جنگلی جانوروں،پرندوں،پیڑ پودوں کے تباہ ہونے کا خطرہ کافی بڑھ جاتا ہے۔اردو غزل کے منفرد اشعار میں اس کی بڑی دلچسپ ترجمانی دیکھنے کو ملتی ہے:
آبادیوں کی خیر منانے کا وقت ہے
جنگل کی آگ پھیل رہی ہے ہوا کے ساتھ
(سرشارصدیقی)
ڈھونڈیں گے اب پرندے کہاں شام کو پناہ
جنگل کی آگ کھا گئی سب ڈالیاں درخت
(پروین کمار اشک)
تیرے گھر تک آچکی ہے دور کے جنگل کی آگ
اب ترا اس آگ سے ڈرنا بھی کیا لڑنا بھی کیا
(وزیر آغا)
تمام شہر میں جنگل کی آگ ہو جیسے
ہوا کے دوش پہ اڑتی ہوئی خبر تھا میں
(جمنا پرشاد راہی)
کون اس کو جلانے والا تھا
اپنی ہی آگ میں جلا جنگل
(شین کاف نظام)
جب بھی کہیں وسیع پیمانے پر کوئی طوفان آتا ہے تو اس کے برے نتائج ہمارے معاشرے کو جھیلنے پڑتے ہیں۔ان حالات کا پروردہ شاعر اپنی غزل میں طوفان کے موضوع کو اس طرح بیان کرتا ہے:
طوفان کر رہا تھا میرے عزم کا طواف
دنیا سمجھ رہی تھی کہ کشتی بھنور میں ہے
(نامعلوم)
مٹّی کے گھر ہی صرف نہیں باعث ملال
طوفان کی حدوں میں ہیں پکّے مکان بھی
(عزیزخیر آبادی)
ایک ندی ہے کہ رکتی ہی نہیں
ایک طوفان اترتا جائے
(شین کاف نظام)
کوئی سناٹا سا سناٹا ہے
کاش طوفان اٹھادے کوئی
(ناصر زیدی)
وہ نہیں دیکھتے ساحل کی طرف
جن کو طوفان صدا دیتا ہے
(سیف الدین سیف)
چاند اور سورج کی ثقلی قوتوں اور زمین کی گردش کے مجموعی اثرات کی وجہ سے سمندر ی سطح کا اتار چڑھاؤ ہوتا ہے۔جس کے سبب مدوجزر پیدا ہوتے ہیں۔اسے عام زبان میں جوار بھاٹا بھی کہا جاتا ہے۔اس کے اثرات صرف سمندروں پر ہی مرتب نہیں ہوتے بلکہ ان سب ہی چیزوں پر اس کا اثر ہوتا ہے، جن پر وقت اور مقام کے ساتھ قوت ثقل لگتی ہے۔زمین،چاند،اور سورج کی قوت ثقل مدو جزر پیدا ہونے کی اہم وجہ ہیں۔اردو غزل میں اس موضوع سے متعلق چند اشعارملاحظہ کریں:
دریا کے مدوجزر بھی پانی کے کھیل ہیں
ہستی ہی کے کرشمے ہیں کیا موت کیا حیات
(فراق گورکھپوری)
مہتاب تو نکلا ہی نہیں ڈوب کے فاخر
لیکن مرے دریا میں وہی مدوجزر ہے
(احمد فاخر)
مجھ کو بھی علم ہے سب مدو جزر کا
میں بھی تو سب کے ساتھ انھیں پانیوں میں ہوں
(محسن زیدی)
الغرض اردو غزل میں قدم قدم پر منفرد انداز میں قدرتی آفات کاکا ذکر ہے۔کیونکہ یہ وہ موضوع ہے، جس سے انسان کی زندگی ہر صدی میں متاثر ہوتی رہی ہے۔جب سے اس زمین کی تخلیق ہوئی ہے اور دور حاضر تک ان قدرتی آفات کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔