• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ تباہی ہے ہر اس شخص کے لیے جو ( منہ در منہ) لوگوں پر طعن اور (پیٹھ پیچھے) برائیاں کرنے کا خوگر ہے۔ جس نے مال جمع کیا۔ اور اسے گن گن کر رکھا۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال ہمیشہ اس کے پاس رہے گا ہر گز نہیں وہ شخص تو چکنا چور کردینے والی جگہ میں پھینک دیا جائے گا۔ اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ چکنا چور کردینے والی جگہ۔ اللہ کی آگ خوب بھڑکائی ہوئی۔ جو دلوںتک پہنچے گی۔ وہ ان پر ڈھانک کر بند کردی جائے گی۔(اس حالت میں کہ وہ) اونچے اونچے ستونوں میں( گھرے ہوئے ہوں گے) (سورۃ الھمزۃ۔ ترجمہ:سید ابو الاعلیٰ مودودی)

رمضان کے مبارک مہینے کے آخری دنوں میں سب نے دیکھا۔ کورونا بھی اپنے عروج پر تھا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مال جمع کرنے کی ہوس بھی۔ کورونا کے مریضوں سے اسپتال بھرے ہوئے تھے۔ بہت سے وینٹی لیٹر پر تھے۔ ان سے بڑی تعداد آئی سی یو میں۔ جمعۃ الوداع کو پی آئی اے کے جہاز کو پیش آنے والے حادثے نے کئی سو گھروں میں صف ماتم بچھادی تھی۔ دل ڈوبے ہوئے۔ آنکھیں پُر نم۔ مگر کاروباریے چاہے وہ مارکیٹوں میں تھے۔ دکانوں میں۔ شاپنگ مالز میں۔ یا میڈیا میں۔ انہوں نے اسپتالوں سے۔ بیماروں سے اور طیارے میں جاں بحق ہونے والوں کے گھروں سے منہ موڑ لیا تھا۔ جیسے کوئی جہاز گرا نہ کوئی وبا پھیلی۔ جو پہلے سے سوچ رکھا تھا۔ جو پہلے سے پروگرام تیار کیے ہوئے تھے۔ جو کاروباری معاہدے پہلے سے کیے ہوئے تھے۔ ان سب پر پوری ایمانداری سے عمل ہوا۔ جان تو آنی جانی تھی۔ مرنے والوں کے ساتھ کوئی مر تھوڑی جاتا ہے۔ منڈیاں تو جمی رہتی ہیں۔ کمرشل سودے اپنی جگہ رہتے ہیں۔ زندہ لوگوں کو بھوکے تو مرنے نہیں دیا جاسکتا۔

میرے تمام ہم عمر کہہ رہے ہیں کہ 10مئی 2020سے 26مئی تک کاروباری ذہنیت۔ کمرشلزم۔ زر پرستی۔ خود غرضی جس شدت پر تھی۔ پوری زندگی نہیں دیکھی تھی۔

نقصان پوری دنیا کا ہوا ہے۔کورونا کے خطرناک نتائج ترقی یافتہ۔ خوشحال۔ بڑے بڑے زر مبادلہ کے ذخائر رکھنے والے ملک بھی بھگت رہے ہیں۔ مگر سرمایے کی ہوس اس انتہا پر کہیں دیکھنے سننے میں نہیں آئی۔ پھر یہاں تو ایک روح فرسا سانحہ لاہور سے کراچی آنے والی پرواز کا بھی رونما ہوگیا تھا۔ مجال ہے کہ مارکیٹوں میں رش کم ہوا ہو۔ کسی دکاندار نے سوگ میںشٹر گرایا ہو۔ تلخ حقیقت ہے کہ ہم میں سے اکثر رمضان کا انتظار۔ رحمتوںبرکتوں مغفرتوں اور جہنم سے نجات کے حوالے سے نہیں کرتے بلکہ یہی تو مال کمانے کا اک مہینہ ہے۔ بڑے چھوٹے ہوٹل افطار میں فی کس کمانے۔کپڑے جوتے۔ آرائش و زیبائش کا سامان بیچنے والے ۔ مہندی لگانے والے سب اربوں کروڑوں لاکھوں کے حصول کے لیے رمضان کے مقدس دنوں کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ میڈیا پر سحر و افطار کے پروگرام عید کے تین دن قہقہوں۔ زرق برق لباسوں۔ ناچ گانوں۔ تفریحی خاکوں سے ریٹنگ بڑھانے۔ اور سارے کاروباری ادارے اپنے اشتہاروں کے لیے بے چین رہتے ہیں۔ کورونا نے سب کی امیدوں پر پانی پھیر دیا تھا۔ مگر ہم نے کورونا کی یلغار کا سکوں کی جھنکار سے مقابلہ کیا۔

ہم نے جو کچھ بھی دیکھا سرمایہ داری کا برہنہ رقص تھا۔ زندگی موت بیماریاں سب کاروبار بن گئی ہیں۔ کچھ زندگی کے آڑھتی ہیں۔ کچھ موت کے سوداگر ہیں۔ قبریں بک رہی ہیں۔ نومولود فروخت ہورہے ہیں۔

عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا

اپنے ۔عزیزوں۔ ہم شہروں اور قوم سے بھی زیادہ عزیز روپیہ ہوگیا ہے۔ حکمراں اور ان کے آس پاس بھی سب آڑھتی اور بیوپاری بیٹھے ہیں۔ پارلیمنٹ میں بھی لوگ روپے کے کندھوں پر سوار ہوکر داخل ہوتے ہیں۔ چینی۔ آٹے اور بجلی کے نام پر مال بناتے ہیں۔ جمع کرتے ہیں۔ فیصلوں میں تذبذب بھی روپیہ ہی کرواتا ہے۔ تذبذب قاتل کا ہو یا مقتول کا ہلاکت خیز ہوتا ہے۔

سب مانتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہے۔ لیکن ہم میں سے کتنے غور و فکر کررہے ہیں کہ قادرِ مطلق 2020کی ابتدا میں رمضان کے مقدس مہینے میں۔ عید الفطر کے موقع پر ہمیں امتحان میں ڈال کر کیا چاہتا ہے۔ہمیں اس مشیت ایزدی کو سمجھنا چاہئے۔ یا مال کی ہوس میں مبتلا ہونا چاہئے۔ دوسرے مذاہب والے اپنے تہواروں پر اپنے ہم مذہب۔ اور ہم وطنوں کے لیے چیزیں سستی کرتے ہیں۔ ہم اپنے کلمہ گو بھائیوں کی جیبیں خالی کروانے کو اپنی کاروباری مہارت گردانتے ہیں۔

کیا کورونا نے ہمارے رویے بدلے؟

میں تو یہ سمجھ رہا ہوں کہ ہم سفاک سرداری۔ بے رحم جاگیرداری سے براہ راست بے حس کمرشلزم میںداخل ہوگئے ہیں۔ راستے کے کئی مراحل پر چھلانگ لگاکر منڈیاں سجاکر بیٹھ گئے ہیں۔ صنعتی پھیلائو نہیں آیا۔ صنعت کے ساتھ جو تہذیب۔ ترتیب۔ تربیت۔ تعلیم اور ٹریڈ یونین آتی ہے وہ نہیں آئی۔ قبائلیت میں ہی صارفیت آجائے تو ہجومیت غالب آجاتی ہے۔ غلاموں کو کچھ مفت کا پیسہ مل جائے اور بازار میں خریداری کی آزادی۔ غلام خریدنے والے۔ غلام بیچنے والے۔ منافع کمانے والا کوئی اور۔ گندم کپاس پیدا کرنے والی زمینوں میںپلازا۔ شاپنگ مال بن رہے ہیں۔ مصنوعات غیر ممالک سے آرہی ہیں۔ ٹیکسٹائل ملز بند کرکے کئی کئی منزلہ دکانیں تعمیر ہورہی ہیں۔

یہ کمرشلزم کا جارحانہ فروغ ہے۔ تخلیقی صلاحیتیں کچلی جارہی ہیں۔ اخلاقی اقدار۔ ہنر۔ صلاحیت کباڑیوں کو بھی درکار نہیں ہیں۔ معاشرے میں مافیاز کا راج ہے۔ جو ذمہ داریاں ریاست کی تھیں وہ ٹھیکیداروں کو منتقل ہوگئی ہیں۔ ٹھیکیدار۔ کارخانے داروں۔ زمینداروں سے آگے نکل گئے ہیں۔ وفاداری۔ دیانت سب پر مشاورت غالب ہے۔ مشورے۔ تجاویز نیلام ہورہی ہیں۔ باہر سے آنے والے کنٹینر بُک ہورہے ہیں۔ یہ معلوم نہیں کہ اس میں حلال ہے یا حرام۔ ہم پوری طرح منڈی بن چکے ہیں۔ بولیاں لگ رہی ہیں۔ جس کی جیب بھاری ہے۔ وہ مال اٹھاکر لے جارہا ہے۔ اپنی مرضی کی قیمت پر بیچ رہا ہے۔ جس زمین کے بیٹے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس زمین کو بیچ رہے ہیں۔ بھول جاتے ہیں کہ زمین کا انتقام بہت ہولناک ہوتا ہے۔ اور مال جمع کرنے والوں کیلئے تباہی کے سوا کچھ نہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین