• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی تاریخ میں شاید پہلا موقع ہے حکومت وقت نے شوگر اسکینڈل رپورٹ پبلک کر دی ہے۔ حکومت نے اپنے ہی ایسے ساتھی جن سے حکمران ناراض ہیں،، کےخلاف پینڈورا باکس کھول دیا ہے۔ کہنے کو تو اپنے بیگانے سب ہی رودھن میں آئے ہیں۔ ایف آئی اے کی فرانزک رپورٹ کا نتیجہ بھی آ چکا ہے، اس میں کئی بڑے سیاسی نام سامنے آئے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ رپورٹ کاشتکاروں اور عوام پر ظلم کی داستان سنا رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق گنے کے کاشتکاروں کے ساتھ کھلا ظلم کیا گیا، انھیں صنعتکار کبھی بھی مقررہ قیمت ادا نہیں کرتے اور وزن میں بھی پندرہ سے بیس فیصد کٹوتی کرتے ہیں۔ کسانوں کو قرضہ بھی اگر دیا جاتا ہے تو وہ بھی 35فیصد پر دیا جاتا ہے جو سراسر زیادتی ہے۔ ایسے ہی گنے کی خرید کی پکی پرچی نہیں دی جاتی۔ کاشتکار کو کچی پرچی دی جاتی ہے جبکہ اپنے کھاتوں میں پکی پرچی میں وزن زیادہ دکھایا جاتا ہے تاکہ گنے کی قیمت خرید کے حساب سے پیداوار زیادہ دکھائی جا سکے 2017-18ء میں پیداوار کی لاگت 51روپےفی کلو ظاہر کی گئی جبکہ اس وقت چینی کی اصل لاگت 38روپے فی کلوگرام تھی اسی طرح 2018-19ء میں پیداواری لاگت 52روپے فی کلو بتائی گئی جبکہ لاگت 40روپے فی کلو تھی، اس طرح اس سال بھی شوگر ملز نے تقریباً سولہ روپے فی کلو زیادہ بتائی ہے۔ اس تمام اضافی منافع کے باوجود حکومت سے سبسڈی بھی وصول کی جاتی ہے۔ وہی بات ہوئی، آم کے آم گٹھلیوں کےدام۔ فرانزک رپورٹ نے دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر دیا ہے۔ اب متعلقہ فریق تلملا رہے ہیں، حکومت کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں، اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ایسا محسوس ہو رہا ہے۔ چینی چور اپنے کیے پر شرمندہ ہونے کے بجائے اپنی صفائی میں سب الزامات کو جھٹلا رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ جو کچھ انہوں نے کیا وہ حکومت کی اجازت سے کیا۔ ہم نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا۔ ان کا خیال ہے کہ انہیں سیاسی رگڑا لگایا جا رہا ہے، ورنہ وہ بیچارے تو بے قصور ہیں۔ اُن کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہے۔

حیرانی کی بات ہے کہ اپنوں نے ہی حکومت کو چونا لگایا اور اپنے ہی اپنی حکومت پر الزام لگا رہے ہیں اور ڈھول کا پول کھولنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ یہ بھی سب عوام پر عیاں ہے کہ وقت پر حکومت کے کام آنے والا سب سے اہم ساتھی ہی سب سے بڑا ملزم بنا دیا گیا ہے۔ اگر دیانت داری سے سمجھا جائے تو حکومت اور موجودہ حکمران نے کچھ غلط نہیں کیا، چور کو چور کہنا کیسے غلط ہو سکتا ہے؟ ملزم کو یہ یقین تھا کہ میں تو حکمرانی میں گلے گلے شریک ہوں مجھ پر کون ہاتھ ڈال سکتا ہے شاید یہی یقین لے ڈوبا ہے۔ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ شریک حکمرانی کا سارا بھرم، سارا یقین ٹوٹ کر رہ گیا، دوسروں پر کالک ملتے ملتے خود کالے ہو گئے۔ سارے کیے کرائے پر پانی پھر گیا، اب جتنی بھی صفائیاں دیتے رہو خلیج کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے۔ درمیاں میں نیبو نچوڑوں کی کمی نہیں، کچھ تو ایسے بھی ہیں جو اپنی بوٹی کے لیے دوسرے کا بکرا کٹوانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اب تو مفاد پرست ٹولہ ملزم نمبر ون کو یہی سجھا رہا ہے کہ چڑھ جا بیٹا سولی پہ رام بھلی کرے گا۔ کان بھرنے والوں کا خیال ہے کہ جب ملزم نمبر ون منہ کھولے گا تو ایوانِ اقتدار میں بھونچال آجائے گا، ایسا ضرور ہو رہا ہے کہ الزامات جو حزب اختلاف پر لگ رہے تھے، اب اُن کی بساط اُلٹ رہی ہے۔ کل تک جو الزامات غیروں پر لگائے جا رہے تھے اب اپنوں پر لگنا شروع ہو چکے ہیں۔ شاید مکافاتِ عمل شروع ہو چکا۔ یہ بات بھی درست ہے کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ چاہے چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھری پر گرے نقصان خربوزے کا ہی ہوتا ہے۔ چینی کی آڑ میں قومی دولت لوٹنے والوں میں اور سابقہ حکومت میں کیا فرق رہ گیا؟ انھوں نے بھی بقول حکمران وقت قومی دولت لوٹی، اب نئے پاکستان کےحامیان بھی وہی کام کر رہے ہیں، نقصان تو عوام اور ملک و قوم کا ہو رہا ہے۔ نئے آنے والوں نے آتے ہوئے عوام کو یہ تاثر دینے کی بھرپور کوشش کی تھی کہ وہ دودھ کے بلکہ خالص دودھ کے دھلے ہیں لیکن وقت نے ثابت کر دیا کہ یہ بھی اُس کند کے نہائے ہوئے ہیں۔ ملک تو اللہ کی مہربانی سے چل رہا ہے ورنہ تو جانے والے اور نئے دعوئوں کےساتھ آنے والے سب کے سب ملک کی لٹیا ڈبونے سے باز نہیں آ سکتے، سب کے مفادات یکساں ہیں، کھائو پیو موج اُڑائو۔ سب اپنی اپنی باری لگا رہے ہیں۔

تازہ ترین