کارل مارکس کی سوانحِ حیات کا مصنّف،فرانز مہرنگ (Franz Mehring) بنیادی طور پر ایک صحافی تھا۔ یہ راسخ العقیدہ سوشلسٹ 27 فروری 1846ء کو موجودہ پولینڈ کے چھوٹے سے قصبے میں ایک متوسط جمہوریت پسند گھرانے میں پیدا ہوا۔ مہرنگ جرمنی کا غالباً سب سے زیادہ معروف سوشلسٹ تھا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس چھوٹے سے جسم میں ایک بہادر روح بستی تھی۔ اُس نے جوانی ہی میں اُس دور کی سیاست میں سرگرمی سے حصّہ لینا شروع کردیا تھا اور صرف 25برس کی عمر میں ڈیموکریٹس کے اُس گروپ کا رکن بن گیا، جس کی سربراہی گائیڈویس اور جیکوبی کررہے تھے۔ یہ وہی گروپ ہے جس نے فرانس اور پروشیائی جنگ کے بعد بسمارکismarck) B)کی طرف سے الساس اور لورین (Alsace and Lorraine) پر قبضہ کے خلاف شدید احتجاج کیا تھا۔
مہرنگ کی اہم سرگرمیاں سیاسی و ادبی تھیں، وہ کئی برس تک مشہور لبرل اور جمہوری اخبارات میں لکھتا رہا۔ بعدازاں اُن میں سے کئی کا مدیر بھی رہا۔ مہرنگ بہت دلیر اور انصاف پسند تھا، اُس کے نزدیک سچائی ہر رشتے اور تعلق سے بڑھ کر تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اُس نے ہائینے کے خلاف پلیٹن، مارکس و اینگلز کے خلاف لاسال، باکونن وبیبل کے خلاف شوٹزر اور کارل لبنتھ کے خلاف برنسٹین کی قلمی جنگ میں ہمیشہ فریقِ مخالف کا ساتھ دیا۔ علاوہ ازیں، روزا لکسمبرگ کے ساتھ مل کر رایازنوف اور کارل کاٹسکی کے خلاف ایک شان دار مناظرہ بھی کیا۔30برس کی عمر میں وہ لاسال (Ferdinand Lassalle)مکتبۂ فکر کا سوشلسٹ بنا۔ گو اُس زمانے میں سوشلزم دراصل نیشنلزم کے رنگ میں رنگا ہوا تھا، جس سے سوشل ڈیموکریسی اور مارکس پر حملے ہوتے تھے۔ اُس دور کے دیگر جمہوری اور لبرل ذہن رکھنے والے افراد کی طرح مہرنگ نے بھی جمہوری اور لبرل اصولوں سے مسلّح ہوکر مزدوروں کے حقوق کے لیے جنگ کی۔
1890ء میں مہرنگ نے جب اپنے لوگوں سے باضابطہ علیحدگی اختیار کی تو وہ ’’برلینر وولکزے تنگ (Berliner Volkszeitung) کا چیف ایڈیٹر تھااور اس نے بسمارک کی پالیسیوں کی شدید مخالفت کرکے سوشل ڈیموکریٹس کا دفاع کیا تھا، جن پر اُس وقت تک اینٹی سوشلسٹ قانون کے تحت ظلم و ستم ڈھائے جارہے تھے۔ بسمارک، مہرنگ کے حملے سہہ نہیں پایا اور اس نے اخبار کے شیئر ہولڈرز کو دھمکی دی کہ اگر مہرنگ کو فارغ نہیں کیا گیا، تو وہ اخبار پر پابندی لگادے گا، جس کے جواب میں جرمن بورژوا(Bourgeois)نے پھر سے اپنی روایت کو جاری رکھا اور مہرنگ کو اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے، بالآخر ہر جگہ سے مایوس ہوکر مہرنگ44برس کی عمر میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی میں شامل ہوگیا اور یہیں سے اُس کی عظیم ترین ادبی سرگرمی کا آغاز ہوا۔ اُس وقت مہرنگ نے کارل کاٹسکی کی ادارت میں نیوے زیٹ(Neue Zeit) نامی اخبار میں کئی شان دار مضامین لکھے، جن میں شہرئہ آفاق مضمون ’’دی لیسنگ لیجنڈ‘‘(The Lessing Legend)بھی شامل ہے، جو بعد میں کتابی صورت میں شایع ہوا۔ یہ وہی مضمون ہے، جس کی وجہ سے لندن سے فریڈرک اینگلز نے کاٹسکی کو خط لکھا کہ اس مضمون کو پڑھنے کے لیے میں ہر نئے شمارے کا بے صبری سے انتظار کرتا ہوں۔
مہرنگ ایک لاجواب لکھاری تھا، جسے اپنے قلم کے استعمال میں خطرناک حد تک قدرت حاصل تھی، اس نے جرمن ادب کے ایک ذہین دماغ اور کاٹ ڈالنے والے ناقد کے خیالات کے ابلاغ میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ اپنی تحریروں کے علاوہ مہرنگ کی عظیم ترین خدمت ثقافتی و ادبی مسائل پر مارکسسٹ تاریخی مادیت کا اطلاق تھا۔ وہ سوشلسٹ تحریک کا اوّلین رہنما تھا، جس نے اس موضوع پر قلم اٹھایا۔ مہرنگ کے بارے میں سب سے بہترین رائے روزا لکسمبرگ نے اپنے اُس آخری خط میں دی، جو اس کی آخری سال گرہ کی مبارک باد کے موقعے پر لکھا تھا۔’’دہائیاں بیت گئیں اور آپ نے ہماری تحریک میں ایک خاص مقام حاصل کر رکھا ہے، جسے کوئی دوسرا حاصل کر بھی نہیں سکتا تھا۔ آپ ہمای ثقافت اور ذہانت کے اصل نمائندہ ہیں۔ مارکس اور اینگلز نے کہا تھا کہ جرمن پرولتاریہ، جرمن اساطیری فلسفے کا تاریخی وارث ہے، یقیناً آپ اس وصیت پر عمل کرنے والے پہلے آدمی ہیں۔ آپ نے ہر اس قابلِ قدر چیز کو بچالیا، جو بورژوائی تہذیب کی نشانی تھی، آپ اسے ہمارے پاس لائے، اس کیمپ تک لائے، جسے سماجی طور پر عاق کردیا گیا تھا۔
آپ کی کتابوں کے طفیل اور مضامین کی برکت سے جرمن پرولتاریہ نہ صرف جرمن اساطیری فلسفے بلکہ جرمن اساطیری ادب کے بھی قریب آیا۔ آپ ہی نے کانٹ، ہیگل، لیسنگ، شلر اور گوئٹے جیسے ادیبوں اور فلسفیوں کو جرمن پرولتاریوں سے متعارف کروایا۔ یہ آپ ہی ہیں کہ جس کے قلم کی ہر سطر نے ہمارے مزدوروں کو سکھایا کہ سوشلزم محض نان نفقے کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ ایک ثقافتی تحریک ہے، ایک عظیم اور قابلِ فخر نظریہ ہے۔ سوشلزم کی روح ایک بار پھر جب جرمن پرولتاریہ کی صفوں میں داخل ہوگی، تو پرولتاریہ کا پہلا قدم یہ ہوگا کہ وہ آپ کی کتابوں کا مطالعہ کرے اور آپ کی زندگی بھر کی محنت کے پھل کا مزہ لے۔ آج جب کہ بورژوا نسل کے کوتاہ اندیش دانش وَر ہمیں حکمران طبقے کی طرف واپس دھکیلنے کی کوشش کررہے ہیں، تو ہم ہتک آمیز قہقہہ لگاتے ہیں اور ان کی جانب دھیان نہیں دیتے، اس لیے کہ ہم نے بورژوا کے پاس موجود سب سے باصلاحیت اور باکردار شخص میں سے سب سے آخری اور سب سے بہترین کو جیتا ہے، یعنی آپ کو.....’’فرانز مہرنگ کو۔‘‘
مہرنگ، جمالیاتی فن پارے پرکھنے میں خاص مہارت رکھتا تھا۔ وہ کسی بھی فن پارے کو میکانیکی انداز میں پرکھنے اور جانچنے کے سخت خلاف تھا۔ اُس کے نزدیک تاریخی مادّیت کا بہترین دفاع اُس کے اصل مسائل حل کرنے کی سکت میں ہے، نہ کہ تجریدی مباحث میں۔ مہرنگ کی سب سے بڑی کام یابی روسی کمیونسٹ کے کام میں مارکسیت کا اطلاق تھا۔ ان ساری صلاحیتوں کے باوجود سوشلسٹ ڈیموکریٹک پارٹی میں مہرنگ ہی سب سے زیادہ ناقابلِ بھروسا شخص گردانا جاتا تھا، تاہم اُسے اِس تعصب سے لڑنے میں برسوں لگ گئے۔
فرانزمہرنگ، کارل مارکس کی سوانح عمری میں لکھتا ہے کہ ’’اس کتاب کی اپنی ایک تاریخ ہے۔‘‘ جب مارکس اور اینگلز کے درمیان خط و کتابت کی تدوین کی تجویز پیش کی گئی، تو مارکس کی بیٹی لارا لافاگ (Laura Lafargue) نے اس شرط پر رضامندی ظاہر کی کہ مہرنگ اس سارے کام کی نگرانی لافاگ کے نمائندے کی حیثیت سے کرے گا۔ یہاں تک کہ دس نومبر 1910ء کو ڈراویل کو لکھے گئے خط میں مس لافاگ نے مہرنگ کو اس بات کا بھی اختیار دیا کہ وہ جہاں ضروری سمجھے، حاشیہ لگادے، وضاحتیں شامل کردے یا عبارت حذف کردے۔ مہرنگ لکھتا ہے کہ ’’ایک بات جو لافاگ کی ذہنی بالیدگی کی نشانی کے طور پر پیش کی جاسکتی ہے، وہ یہ کہ ’’جب میں نے سوانح کا کام شروع کیا، تو انہوں نے کبھی میرے کام میں مداخلت یا نکتہ چینی نہیں کی۔ گرچہ وہ میری بے لاگ تنقیدی فطرت سے پوری طرح واقف تھیں، بلکہ مارکس کے ادبی ترکے سے کئی نادر و نایاب نوادرات بھی مجھے عنایت کیں۔
مثلاً انہوں نے مجھے وہ خطوط بھی دے دیئے جو لاسال نے لافاگ کے والد، کارل مارکس کو لکھے تھے اور وہ اس بات سے پوری طرح واقف بھی تھیں کہ میں مارکس کے مقابلے میں کئی بار پوری توانائی کے ساتھ لاسال کا دفاع کرتا رہا ہوں اور لافاگ کے انتقال کے بعد جب میں مارکس کی سوانح پر کام جاری رکھے ہوئے تھا، تو اس وقت کچھ صیہونی دفاع کنندگان مجھ پر پوری توانائی کے ساتھ حملہ آور ہوئے، لیکن میں نے ان کے ضمیر کا آخری سطحی لفظ بھی برداشت کیا، مگر سچائی کا ساتھ کسی صورت بھی چھوڑنے سے انکار کردیا۔ میں نے’’دی نیوے زئیٹ‘‘میں اُن کی دانش وَرانہ دہشت گردی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے لاسال اور باکونن کے ساتھ مارکس کے تعلقات کو سختی کے ساتھ تاریخی سچائی کے مطابق بیان کیا۔‘‘
مہرنگ جو اُس وقت تک مارکس پر کڑی تنقید کے حوالے سے شہرت رکھتا تھا۔ اُس نے جب مارکس کی سوانح لکھنے کا ارادہ کیا، تو اُس کے ذہن میں یہ بات واضح طور پر موجود تھی کہ مارکس بھی ایک عام انسان کی مانند بشری خامیوں اور خوبیوں کے ساتھ پیدا ہوا ہے۔ گو کہ مہرنگ نے مارکس کی خامیوں میں خوبیاں تلاش کیں اور اُس کی کم زوری سے اُس کی طاقت کا رشتہ تلاش کیا، کیوں کہ مارکس کی زندگی پھولوں کی سیج نہیں تھی بلکہ مسلسل جدوجہد پر مبنی تھی، جس میں بے انتہا مسائل، برسوں پر محیط جلاوطنی، قانونی جکڑ بندیاں، غربت کا عفریت، بیماری اور بدقسمتی سب شامل تھے۔ یہاں تک کہ مارکس نے اُس وقت جو کچھ لکھا، اُسے بھی اُن لوگوں نے چھاپنے سے انکار کردیا۔ کارل مارکس کی سوانح دراصل مہرنگ کی اپنی استعداد کی سَند ہے۔ اس کی ہمّت اور صلاحیتوں کا ایک امتحان اُس وقت ہوا، جب جنگِ عظیم اوّل کے زمانے میں اپنی حکمتِ عملی سے اسپارٹکس تحریک کی قیادت کی۔
خاص طور پر ’’اسپارٹکس کے خطوط‘‘ لکھے، جس میں اس نے بڑی ہمّت و شجاعت کا مظاہرہ کیا۔ اسپارٹکس کے چھوٹے سے گروپ میں موجود ہر شخص نے نہ صرف اِس کا اعتراف کیا، بلکہ اُس کی شجاعت و ہمّت سے بے حد متاثر بھی ہوا۔ جن میں روزا لکسمبرگ، کارلا زیٹکن اور کارل لبنتھ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ اُن کی جنگ نہ صرف سرمایا دارانہ سفاکیت کے خلاف تھی، بلکہ اُن قائدین کے بھی خلاف تھی، جنہوں نے جنگ کے دوران عوام النّاس کو دھوکا دیا۔ مہرنگ کے لکھے ہوئے ’’اسپارٹکس کے خطوط‘‘ میں جس طرح جنگ کی مخالفت کی گئی، اُس کی مثال برطانیہ اور فرانس میں چھپنے والے کسی مواد میں بھی نہیں ملتی۔
فرانز مہرنگ میں بھی کارل مارکس کی طرح کچھ خاص صلاحیتیں نظر آتی ہیں، جو عام طور پر انسانوں میں ایک ساتھ موجود نہیں ہوتیں، مثلاً دانش، قوتِ ارادی، اور اخلاقی جرأت جو انسان کو اُس کی راہ سے بھٹکنے نہیں دیتیں۔ کارل مارکس کے پیروکاروں میں شاید ہی کوئی فرانز مہرنگ جیسا باصلاحیت و باہمت ہو۔ یہ مہرنگ ہی تھا، جس نے مارکس سے اختلاف بھی کیا اور اُس کے خلاف لاسال کی مدد بھی کی، جس کے باعث مہرنگ کو اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے ساری زندگی جدوجہد کرنی پڑی۔ اگر یہ کہا جائے، تو غلط نہ ہوگا کہ کارل مارکس کے نظریئے کا صحیح معنوں میں اگر کوئی جان کار ہے، تو مہرنگ ہی ہے، جس نے اشتراکیت کو خالصتاً انسانی فلاح کے لیے استعمال کرنے کی تلقین کی۔ گرچہ اُس کی اشتراکیت میں مارکس کی طرح کی ہٹ دھرمی نہیں تھی، اُس کے نزدیک عامل اور آجر کا رشتہ بہت اہم ہے، خواہ وہ آجر خود حکومت ہی کیوں نہ ہو۔ اشتراکیت کا جو نظریہ بنیادی طور پر مارکس کی جانب سے پیش ہوا، وہ بادی النظر میں عمل پذیر معلوم نہیں ہوتا لیکن مہرنگ کی اشتراکیت گرچہ مارکس کی بیعت میں تھی، پر اُس میں کافی حد تک عمل پذیری نظر آتی ہے۔
روسی اشتراکیت جس نے اجتماعیت میں مارکسی اشتراکیت کو کافی حد تک نقصان پہنچایا، اُس سے مہرنگ کو شدید اختلاف تھا، جس کی وجہ سے اشتراکیت کے عالمی رہنماؤں کو مہرنگ سے چڑ تھی اور وہ اُس کی وفاداری پر سوالیہ نشان لگاتے تھے تاکہ اُس کی باتوں اور دلائل سے پارٹی کی دیگر قیادت متاثر نہ ہو۔ اشتراکیت کا جو نظریہ روس نے لینن کے بعد اسٹالن کی قیادت میں نافذ کیا، وہ شاید اصل اشتراکیت سے کافی دور تھا۔ یہاں تک کہ ماسٹر لینن کی موت سے پہلے والی روسی اشتراکیت سے بھی۔ جس طرح ملوکیت کے زمانے میں نوکر شاہی کو عروج حاصل تھا، وہی عروج نام بدل کر اسٹالن کی اشتراکیت میں کامریڈز کو حاصل ہوا، جو اسٹالن کے نزدیک تر تھے۔ جس سے نظریۂ اشتراکیت کو روس میں خاص طور پر اور عالمی منظر نامے میں عام طور پر کافی نقصان پہنچا-
اِس میں کوئی شک نہیں کہ اُس کی اصل قوت اُس کا قلم تھا،ساری دنیا اِس بات کا اعتراف کرتی تھی کہ اُس کے زمانے میں صحافت میں اُس کا نہ کوئی استاد تھا اور نہ ہی کوئی ہم سر۔ جرمن تاریخ پر اُس جیسی گرفت بہت کم لوگوں کو نصیب ہوئی۔ اُس نے لیسنگ اور شلر کے کام پر بہت کچھ لکھا، اِس کے علاوہ اُس نے بہت کچھ ’’جمالیاتی محویت‘‘ پر بھی لکھا، جس میں اُس نے ادب اور جمالیات پر بات کرنے کے لیے مارکسی طریقۂ کار کو بنیاد بنایا۔ مہرنگ اپنی خداد ذہانت کی مدد سے فنونِ لطیفہ اور جمالیات کے حسن و قبیح میں تفریق کے لیے بڑا بے رحمانہ رویہ اختیار کرتا ہے، جو اُس کے ایک اعلیٰ درجے کے ناقد ہونے کی دلیل ہے۔
مارکسی سوشلزم کے عروج میں جن لوگوں نے اپنی خدمات پیش کیں اور بنی نوع انسان کی فلاح کے بارے میں تردّد کیا، اُن میں سے فرانز مہرنگ ایسا آدمی ہے، جس نے نہ صرف سوشلزم کی ابتدائی خامیوں کی نشان دہی کی، بلکہ اُس تحریک سے وابستہ رہنماؤں کی سیاسی و اخلاقی تربیت میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ایک وقت تھا، جب سوشلزم کا خوف پوری دنیا پر چھا چکا تھا، ہر شخص کو اِس بات کا ڈر تھا کہ سرخ انقلاب جانے کیا کچھ بدل کر رکھ دے، لیکن بعد کے ادوار میں جب رہنماؤں کے کردار و عمل میں تفاوت پیدا ہوئی، تو انقلاب کا سارا زور ٹوٹ گیا اور سوشلزم ایک خاص خطّے تک محدود ہوکر رہ گیا۔