• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دین و دنیا میں فلاح و کامیابی اور آخرت میں نجات کا بنیادی سرچشمہ، اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان اور اخلاصِ نیت کے ساتھ ساتھ نیک اعمال ہیں،اس لیے ایمان کے بغیر کوئی عبادت قبول نہیں،ایمان دین کی بنیاد ہے۔قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’جن لوگوں نے ان باتوں کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے، ان کے لیے یکساں ہے، خواہ تم انہیں خبردار کرو یا نہ کرو، بہر حال وہ ماننے والے نہیں ہیں ، اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑگیا ہے، وہ سخت سزا کے مستحق ہیں ‘‘۔(سورۃ البقرہ)

یعنی ان باتوں میں تاثیر بجا طور پر پائی جاتی ہے، مگر کسی مؤثر کلام سے فائدہ اسی وقت پہنچ سکتا ہے ،جب کہ سننے والوں کا ارادہ نیک ہو، وہ اسے قبول کرنے اور ماننے کا قصد کریں ، ورنہ کسی موقف پر ضد اور ہٹ دھرمی کرنے والوں کے لیے ہزار دلائل بھی بے سود ہیں ۔کفار مکہ کا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا کہ وہ حق بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے تھے، اگر سمجھتے بھی تو اسے عناداً قبول نہیں کرتے، سچی بات کو متوجہ ہوکر نہیں سنتے، راہ حق کو نہیں دیکھتے تھے، ان لوگوں نے نفرت و عناد کے سبب کچھ ایسا حال بنالیا تھا کہ دین اسلام کی صداقت، ایک خدا کے وجود اور حشر و نشر کے روشن اور واضح دلائل کو دیکھنے اور سننے کے لیے وہ تیار ہی نہیں ہوتے تھے، ان کی اصلاح اور ایمان کے متعلق رسول اللہ ﷺ جو کوشش کرتے ،وہ رائیگاں ہوجاتی اور ذرا بھی ان کے دل و دماغ پر اس کا اثر مرتب نہ ہوتا، اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کو تسلی دیتے ہوے کہا کہ ان لوگوں نے جان بوجھ کر آپ ﷺ کی پیش کردہ باتوں کو رد کردیا ہے اور سچے راستے کے خلاف دوسرا راستہ اختیار کرلیا ہے ، اس لیے اللہ نے ان کی حالت پر نظر رکھتے ہوئے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگادی اور آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے، ان کے نتائج انتہائی بُرے اور خوفناک ثابت ہوں گے ۔

کسی چیز پر مہر اس لیے لگائی جاتی ہے ،تاکہ باہر سے کوئی چیز اس میں داخل نہ ہو، کفار مکہ نے سوچنے سمجھنے اور قبولِ حق کے تمام راستے اپنے اوپر بند کرلیے تھے ،اس لیے ان کی اصلاح کی توقع فضول تھی، قرآن نے ان کے دلوں پر مہر بندی کی اطلاع کے ساتھ عذاب عظیم سے با خبر کیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حق بات کا دلوں پر اثر انداز نہ ہونا، اس لیے ہوتا ہے کہ گناہوں کی کثرت اور بے توجہی کے سبب قدرتاً دلوں پر مہر لگادی جاتی ہے جو ایک انسان کے لیے بڑی محرومی اور بد بختی کی بات ہے اور یہ دنیا و آخرت کا بڑا خسارہ ہے ۔

قرآن پڑھنے کی ایک مثال لیجیے، صحابۂ کرامؓ جب قرآن پڑھتے یا سنتے تو ان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے، جہنم کے مناظر اور اس کے خوفناک عذاب کے بیان سے جسم کانپ اٹھتا، جنت کی لازوال نعمتوں کا اشتیاق پیدا ہوتا، وہ بچوں کی طرح روتے، بلکتے اورتڑـپتے تھے۔ آج ہم بھی قرآن پڑھتے اور سنتے ہیں، غور کیجیے کہ کیا اس عظیم الشان کتاب کی آیات سننے سے دلوں میں کوئی ہلچل پیدا ہوتی ہے، روح میں وجد آتا، زندگی میں انقلابی اثرات رونما ہوتے ہیں ، شب وروز قرآن پڑھنے کے باوجود بھی کبھی نہ رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں ، نہ آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں ، نہ ہمارے جذبات میں کوئی طوفان برپاہوتا ہے اور نہ ہی قلب و جگر کی تسخیر پائی جاتی ہے ۔

اسی طرح عمل کی باری آئی تو صحابۂ کرامؓ اس میں بھی کھرے اترے، جیسے ابتدائے اسلام میں شراب کی حرمت نازل نہیں ہوئی تھی، عرب کے دستور کے مطابق بعض مسلمانوں میں بھی اس کی لت پڑی ہوئی تھی ، لیکن مدنی زندگی میںجب اسے واضح طور پر حرام قرار دے دیا گیا تو وہی مسلمان جو اس کے دلدادہ اور عاشق تھے، اس کی حرمت سننے کے بعد فوری طور پر رک گئے، شراب کے برتنوں اور مٹکوں تک کوانہوں نے توڑ ڈالا۔اطاعت و فرماں برداری اور خوف ِخدا کی یہ حیرت انگیز مثال دیکھئے کہ شراب جسے وہ پینے کے عادی تھے، حکم خداوندی آتے ہی کسی پس و پیش کے بغیر اسے ترک کردیا ، بلکہ شراب کا جو جام وہ ہونٹ سے لگا چکے تھے، جیسے ہی قرآن کی آیت سنائی گئی، اسی لمحے اپنے ہونٹ اس سے علیحدہ کرلیے اور پھر شراب کا ایک قطرہ بھی حلق میں نہیں گیا، کس صبر سے انہوں نے کام لیا، کیا خوف خدا کی یہ مثال کہیں اور مل سکتی ہے ؟

آج سودی کاروبار کرنے والے مسلمان سود کی حرمت کے خلاف تقریریں سنتے ہیں ، سود پر اللہ کا جو غضب نازل ہوتا ہے اور آخرت میں اس کے جو خوفناک نتائج ہوں گے، ان پر بھی ان کی اچھی نظر ہے، سودی لین دین کی لعنت والی قرآنی آیات و احادیث کا مطالعہ بھی کرتے ہیں، لیکن کیا ان بیانات سے قرآن وحدیث کی وعیدوں سے ہمارے دل میں کوئی حرکت پیداہوئی، کتنے ایسے مسلمان ہیں جنہوں نے خوف خدا کے سبب قرآنی احکام سنتے ہی ایسے کاروبار کو ترک کردیا اور گزرے ہوئے معاملات پر آنکھوں سے آنسو بہے ہوں ، زندگی گناہوں اور برائیوں سے لت پت ہے اور ان جرائم کے خلاف شب و روز قرآن وحدیث کی باتیں کانوں سے ٹکراتی ہیں ، عذاب قبر اور جہنم کے مناظر کا بیان بھی سامنے ہوتا ہے،لیکن جسم میں کوئی حس نہیں ہے، دل و دماغ میں کوئی انقلاب نہیں ، شب و روز کی عملی رفتار میں کوئی تغیر نہیں ، بلکہ نیکیوں کے بجائے برائیوں کی طرف، رحمتِ خداوندی کے بجائے اس کے غضب کی طرف ہم لپک رہے ہیں ، بلا شبہ قرآن کی اپنی تاثیر باقی ہے، شریعت کی پابندیاں اپنی جگہ قائم ہیں ، جنت و جہنم کی ساری باتیں پہلے کی طرح اب بھی تازہ ہیں ، لیکن دلوں کی کیفیت بدل گئی، ایمانی حرارت میں فرق آگیا، عند اللہ جواب دہی کا احساس مٹ گیا، جس دل میں سختی پیدا ہوجاتی ہے، قبولیت کے تمام دروازے اس کے لیے بند ہوجاتے ہیں اور ایسے قلوب کے لیے قرآن نے بہت سخت وعید بیان کی ہے :’’تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جن کے دل اللہ کی نصیحت سے اورزیادہ سخت ہوگئے، وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔ ‘‘(سورۃ الزمر : ۲۲)

آج ایمان ہونے کے باوجود ہم اخلاصِ نیت اوراعمال صالحہ سے بہت دور ہیں۔گناہوں کی کثرت سے دل پر تاریکی چھاجاتی ہے، پھر جوں جوں گناہ کا سلسلہ جاری رہتا ہے، تاریکی میں شدت پیداہوتی رہتی ہے اور حالت اس قدر پختہ ہوجاتی ہے کہ روشن دلائل اور قرآن و حدیث کی باتوں اور نیک خیالات کا اس پر گزر نہیں ہوتا ۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا: ’’انسان جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے قلب پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے، اگر اس نے توبہ و استغفار کرلی تو سیاہی مٹ جاتی ہے اوردل صاف ہوجاتا ہے ، لیکن اگر اس نے اس گناہ سے توبہ نہ کی اور دوسرا گناہ کرلیا تو ایک دوسرا نقطہ سیاہ لگا دیاجاتا ہے اور اسی طرح ہر گناہ پر سیاہ نقطے لگتے چلے جاتے ہیں ، یہاں تک کہ یہ سیاہی سارے قلب پر محیط ہوجاتی ہے۔(مسند احمد)متعدد احادیث ہیں ، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی سرکشی اور بداعمالیوں سے دل کی نورانیت ختم ہوجاتی ہے، پھر نصیحتوں اور نیک باتوں کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا،اس لیے ہمیں چاہیے کہ اپنے دل کو گناہوں سے آلودہ نہ ہونے دیں ، اگر بشری تقاضے کی بنیاد پر کبھی گناہ سرزد بھی ہوجائے تو اللہ کی طرف رجوع ہو، آنکھوں سے آنسو بہا کر اللہ کے حضور صدق دل سے توبہ کریں، دل کی سیاہی ساری محرومی کی جڑ ہے، دل روشن اور پاکیزہ رہے تو تمام اعضاء سے نیک اور خدا کی مرضی کے مطابق امور انجام پاتے ،اور ایسے اعمال سرزد ہوتے ہیں جو ایمان، اللہ اور اس کے رسول حضرت محمدﷺ کی رضا اور تعلیمات کے عین مطابق ہوں اوردل میں ہی کجی رہی تو کوئی عضو نیک کام کے لیے تیار نہیں ہوتا، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’خبردار ! بلاشبہ بدن میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، جب وہ ٹکڑا صالح رہتا ہے تو تمام بدن میں صالحیت رہتی ہے اور جب اس میں فساد پیدا ہوتا ہے تو پورے جسم کا نظام بگڑجاتا ہے، خبردار! وہ ٹکڑا دل ہے‘‘۔(صحیح بخاری )مختصریہ کہ اخلاصِ نیت اور اعمال صالحہ کے بغیر نیکی کا تصور بھی محال ہے۔

تازہ ترین