• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
3ہفتے سخت سردی ، بارشیں کینیڈا میں گزارنے کے بعد پاکستان واپس پہنچے تو یہاں تمام حکومتیں تحلیل ہو چکی تھیں اور نگران سیٹ اپ تشکیل پا چکا تھا۔کراچی میں پھر بھی روزمرہ دہشت گردی کی آڑ میں10بارہ لاشیں گر رہی ہیں۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے انتظامیہ کو2ہفتے کا ٹائم دیا ہے کہ کراچی میں ہر قیمت پر دہشت گردی ختم ہو اور دوبارہ امن قائم ہو مگر ابھی تک خاطر خواہ تبدیلی نظر نہیں آ رہی ۔ صنعت کار ، تاجر ابھی تک خوف و ہراس کا شکار ہیں خصوصاً بدھ کو کراچی کے ایک صنعتی ادارے میں گھس کر فیکٹر ی کے مالک کو پولیس کی چوری شدہ موبائل میں چند سادہ کپڑوں میں بغیر ماسک لگائے سیکڑوں مزدوروں اور سیکورٹی افراد کی موجودگی میں دن دہاڑے موبائل میں ڈال کر لے گئے اور بعد میں کروڑوں روپے لے کر مغوی کو چھوڑ گئے۔2دن گزرنے کے باوجود اور ایک ٹی وی چینل سے دکھانے کے بعد بھی پولیس خاموش ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ لیاری ہی کے افراد دن دہاڑے پولیس کی چوری شدہ موبائل میں وارداتیں کرتے پھر رہے ہیں ۔ نگران کابینہ ابھی تک صرف حلف اُٹھانے اور جائزہ لینے تک ہی محدود ہے ۔ کب تک حرکت میں آئے گی ۔ صرف الیکشن کمیشن اپنے کام میں لگا ہوا ہے ۔ چند دن قبل سیاسی میدان میں شیخ الاسلام کے بعد ہمارے سابق صدر پرویز مشرف بھی میدان سیاست میں وارد ہوئے کراچی ایئر پورٹ پر ان کا استقبال کرنے والوں کی تعداد بڑی حد تک مایوس کن تھی البتہ ان کی حفاظت پر مامور افراد کی تعداد کہیں زیادہ تھی ۔ سابق صدر نے پریس کانفرنس میں اپنے ماضی کے 8سالہ دور کی کامیابیاں گنوائیں۔ انہوں نے اپنے آخری دور میں بلوچستان کے اکبر بگٹی کے قتل کو خودکشی قرار دیا۔ اپنے دوسرے انکشاف میں انہوں نے اسلام آباد کی لال مسجد کے واقعے کو بھی مرنے والے غازی عبدالرشید اور ان کے خاندان پر ڈالا کہ انہوں نے نہتے فوجیوں پر گولیاں برسائیں جس کی وجہ سے سابق صدر اور ان کے وزیراعظم شوکت عزیز کو انتہائی اقدام اُٹھانے پر مجبور کیا گیا ۔
درمیان کے مذاکرات خود خانہ کعبہ کے امام عبدالرحمن السدیس و دیگر مفتی اور علمائے کرام کی کوششیں اور خود ان کی اپنی تشکیل کردہ مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کی مفاہمتی تجاویز کو بھی مسترد کرنے سے منکر ہو گئے۔ انہوں نے چیف جسٹس افتخارچوہدری صاحب کے ساتھ قصرِ صدارت میں دیگر جرنیلوں کے ساتھ ناروا سلوک معزولی اور پھر بعد میں ان کو گھر میں نظر بند کرنے سے بھی انکار کر کے سب کو حیران کر دیا جو خود ان کے زوال کا سبب بنا ۔ اگر وکلاء چیف جسٹس کی بحالی کی مہم نہیں چلاتے تو شاید وہ آج بھی جوڑ توڑ کر کے مسندِصدارت پر ہوتے مگر پی پی پی کی حکومت آتے ہی آصف علی زرداری نے بڑی خوبصورتی سے ان کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا۔ قوم حیران ہے آج جبکہ ان کی اپنی جماعت مسلم لیگ ق ان سے الگ ہو کر ان کے دور کی تمام خرابیاں ان کے پلڑے میں ڈال کر الگ ہو چکی ہے اور متحدہ قومی موومنٹ بھی ان سے تقریباً الگ ہو چکی ہے وہ دوبارہ اپنی نئی آل پاکستان مسلم لیگ جس کا نہ کوئی منشور سامنے آیا نہ جماعت کی ممبر سازی ہو سکی ۔ وہ صرف اپنے چند دوستوں پر مشتمل ٹیم کے ساتھ پورے پاکستان میں الیکشن لڑنے کی امید رکھتے ہیں جبکہ ان کے سابقہ دور کی نفرتوں کے جواب میں لندن کے عوامی جلسے میں ان پر جوتا بھی پھینکا گیا اور پھر کراچی میں بھی ایک مقامی وکیل کی طرف سے اظہار ِ نفرت میں دوبارہ جوتا پھینکا جانا یقینا معنی رکھتا ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ ماضی کی طرح وہ مکّا لہرا کر بہادری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اگر وہ خود بغیر کسی بیرونی طاقت یا مفاہمت اور متحدہ ان کے ماضی کے لحاظ میں اپنی ایک سیٹ ان کے کھاتے میں ڈال دے تو وہ اور بات ہے تب بھی ان کی سیٹ پکّی ہرگز نظر نہیں آتی ۔ البتہ چترال کے ان کے دوست ان کا ساتھ دیں تو بھی شاید ان کی سیٹ نکل سکے ۔ لوگ حیران ہیں کہ وہ کون سے ان کے دوست ہیں جو ان کو 5سال آرام دہ زندگی گزارنے کے بعد پاکستان کھینچ لائے اب جبکہ عدالت ِ عظمیٰ نے ان کا نام ای سی ایل میں بھی ڈال دیا ہے ۔ کتنی جگہوں پر جا کر خود اپنی عبوری ضمانتوں کو کنفرم کروا کر ان کی پیشیاں بھگتیں گے ۔ ان کی اپنی جان کو بھی خطرہ ہے ۔ ان کے نادان دوست انہیں یہاں کھینچ لائے ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں تو ان کی جگہ نہیں بنتی البتہ جو انہوں نے اپنے دور کے آخری دنوں میں کیا ان کو اس کا جواب اب دینا ہو گا۔ ویسے بھی میری رائے میں الیکشن ”ہنوز دلّی دور است “ کے مصداق ہے۔ فی الحال تو ماضی کے داغدار سیاستدانوں کا اتوار بازار لگا ہے جن میں جعلی ڈگری والوں ، دہری شہریت رکھ کر جھوٹ بولنے والوں، نادہندہ اور کرپٹ سیاست دانوں کو سزائیں سنانے کا عمل بہت تیزی سے جاری ہے۔ کاش یہ عمل پہلے ہی شروع ہو جاتا تو قوم ان کے چہرے پہلے ہی سے دیکھ لیتی۔ خیر دیر آید درست آید ۔ کاش اس سے ہماری سیاست کو نئی منزل مل سکے اور الیکشن کمیشن اور عدلیہ سرخرو ہو سکیں۔
تازہ ترین