• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بائیس سال کی دن رات محنت، عوام میں شعور اجاگر کرنے اور مخالفین کو زیر کرنے کے بعد بالآخر عمران خان ملک کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوگئے اور ان کو اقتدار کی وہ طاقت حاصل ہوگئی جس کے ذریعے وہ عوام سے کئے گئے اپنے ان وعدوں پر عملدرآمد کر سکیں جس کے خواب انھوں نے عوام کی آنکھوں میں سجائے تھے۔ پاکستان کے عوام بھی عمران خان کے وزیراعظم بنتے ہی اپنی آنکھوں میں اس ریاست مدینہ کے سپنے سجاچکے تھے جہاں انصاف عوام کی دہلیز تک پہنچایا جاتا تھا، جہاں امیر اور غریب کے لیے ریاستی وسائل بھی برابر ہوا کرتے تھے، جہاں امیر کو غریب پر کوئی فوقیت حاصل نہ تھی اور جہاں بھوک سے مرنے والے ایک کتے کا حساب بھی حاکم ریاست کے سر ہوا کرتا تھا۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اقتدار پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا ہار ہے، یہاں اقتدار ملتے ہی اپنے بھی پرائے ہوجایا کرتے ہیں اور عوام کو سہولتیں پہنچانے کے لیے مخالفین کے ساتھ ساتھ اپنوں کے منہ سے بھی ناجائز نوالا چھیننا پڑتا ہے۔ اس وقت عمران خان کو وزیراعظم بنے دو سال مکمل ہوچکے ہیں لیکن وزیراعظم چاہنے کے باوجود بھی عوام کے لیے وہ کچھ نہیں کرپارہے جس کی خواہش وہ رکھتے ہیں۔بدقسمتی سے اس وقت نہ صرف سیاسی مخالفین منصوبہ بندی کے ساتھ عمران خان کی حکومت کو ناکام بنانے کے درپے ہیں بلکہ سخت قدرتی آفات بھی وزیراعظم کے وعدوں پر عملدرآمد میں رکاوٹیں پیدا کررہی ہیں۔اس وقت ٹڈی دل کےحملے نےکروڑوں ایکڑ فصل کو تباہ کردیا ہے جس کو روکنے کے لیے حکومتی مشینری خود اور فوج کے ذریعے ٹڈی دل کے خاتمے کی کوششوں میں مصروف ہے لیکن ٹڈی دل مزید حملوں کے ذریعے سندھ اور پنجاب کی بڑی اور تیار فصلوں کوتبا ہ کررہی ہے۔ دوسری جانب کورونا کی وبا نے ملکی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے بلکہ یہ وباعوام کو بھی شدید جانی نقصان پہنچا رہی ہے۔ملک کی بڑی بڑی سیاسی، سماجی اور مذہبی شخصیات دیکھتے ہی دیکھتے اس وباکا نشانہ بن گئیں۔حکومت چاہنے کے باوجود بھی بے بس ہوچکی ہے۔ یہ ایک ایسی قدرتی وبا ہے جس کو روکنے کے لیے حکومت کے پاس کوئی علاج موجود نہیں ہے۔ اس کے بعد چینی کی چوری میں اپنے لوگوں کا ملوث ہونا بھی وزیراعظم عمران خان کے لیے کسی صدمے سے کم نہ ہوگا۔جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے کے مصداق ان پر ہاتھ ڈالنا حکومت کی اپنی کشتی میں سوراخ کرنے کے مترادف تھا لیکن عمران خان نے بطور وزیراعظم عوام کے لیے یہ کڑوا گھونٹ بھی پیا اور ایک قابل تعریف احتساب کرتے ہوئے اپنے بااثر افراد کے خلاف کارروائی شروع کی۔

ابھی چینی کی چوری کا مسئلہ حل نہ ہوا تھا کہ بجلی بنانے والی پاور کمپنیوں کی جانب سے عوام کے اربوں روپے پر ڈاکہ ڈالنے کا اسکینڈل سامنے آگیا۔ ابھی اس پر کاروائی جاری تھی کہ ملک میں تیل کی مصنوعی قلت پیدا کردی گئی۔یہ تمام بڑے مافیا حکومت کی اپنی ٹیم میں سے نکل کرسامنے آرہے ہیں اور عمران خان ایک کمزور ٹیم کے ساتھ ان سے مقابلہ کررہے ہیں۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام وزیراعظم کے ہاتھ مضبوط کریں تاکہ اس مشکل وقت میں عمران خان تیل، چینی اور بجلی مافیا سے نمٹ سکیں اور عوام کے حقوق پر ڈاکے ڈالنے والوں کو نشان عبرت بنا سکیں ؛تاہم یہ تو دنیا وی طور پر نظر آنے والے مسائل ہیں اس کے لیے عوام حکومت کا ساتھ بھی دینے کو تیار ہیں لیکن یہ سب مصیبتیں کہیں دنیا میں جاری ناانصافی کے سبب اللہ تعالیٰ کے عذاب کی صورت میں توملک پر نازل نہیں ہورہیں ؟ کہیں حکومتی سطح پر تو کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہورہی ؟ کہیں حکومت نے امیروں کو معافی اور غریبوں کو پھانسی دینے کا اصول تو نہیں اپنا لیا ؟ کہیں طاقت کے نشے میں حکومت نے معصوم لوگوں کو قید اور ظلم و ستم ڈھانا شروع تو نہیں کردیا ؟کہیں حکمرانوں میں چند دن کے اقتدار اور طاقت کا نشہ تو سرایت نہیں کرگیا ؟ اللہ کی زمین پر اکڑ کر چلنے والا انسان یہ تو نہیں بھول گیا ہے کہ دنیا میں جب ایک فرعون پیدا ہوا تھا تو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے اسے ایسی ذلت ناک شکست دی تھی کہ آج تک اور رہتی دنیا تک کے لیے فرعون نشان عبرت بن چکا ہے۔کہیں آج کی دنیا کے حکمرانوں میں فرعونیت تو سرایت نہیں کرگئی جس کی سزا کے لیے اللہ تعالیٰ نے کورونا جیسا نظر نہ آنے والا جراثیم انسانوں کو سزا دینے کے لیے مقرر کردیا ہے جو آج کے انسانوں کو آنے والی دنیا کے لیے نشان عبرت بنانے کے لیے بھیجا گیا ہو۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ پروردگار ہماری قوم اور ہمارے حکمرانوں کو سیدھے رستے پر چلا اور ہم پر مسلط کی جانے والی تمام قدرتی آفات کا خاتمہ کرکے ہمیں معا ف فرمادے اور ہمارے حکمرانوں میں انصاف اور صلہ رحمی پیدا فرما۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ آمین!

تازہ ترین