ارشادِ ربانی ہے: ’’لوگو! زمین میں جتنی حلال اور طیب(پاکیزہ) چیزیں ہیں، انہیں کھائو پیو اور (دیکھو)شیطانی راہ پر نہ چلنا، (یاد رکھو) وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘ ۔(سورۃ البقرہ )
ہم بہ حیثیت مسلمان اس کی بھرپور کوشش کرتے ہیں کہ کھانے پینے میں حلال وحرام کی تمیزکی جائے، یہاں تک کہ کمائی کے حلال یاحرام ہونے میں بھی فرق کرناہمارافرض ہے۔اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے کی چیزوں میں بہت سی چیزوں کوحرام قراردیاہے۔چین سے شروع ہونے والے کوروناوائرس نے پوری دنیاکوپریشان کرکے رکھ دیاہے۔ آج پوری دنیا کورونا وائرس کے باعث بے حد پریشان ہے۔ چین میں شروع ہونے والا وائرس پہلےجانوروں میں منتقل ہوا اور پھر انسانوں تک پہنچا، جس نے انسانوں کے نظام سانس کوشدید متاثر کیاتھا۔اس میں وہ جانور شامل تھے جنہیں دین فطرت اسلام نے ناجائز اور حرام قرار دیا ہے۔
اسلام اعتدال پر مبنی مذہب ہے اور انسانوں سے ان ہی اعمال کا مطالبہ کرتا ہے جو اس کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں یہ بھی ایک خوبی ہے کہ یہ اپنے ماننے والوں کو دنیاوی و اخروی زندگی کے ارتقائی منازل تک پہنچانے اور تطہیر نفس و تزکیہ نفس کےلیے اصول و قواعد اور ضابطے مقرر کرتا ہے۔ اگر اس پر کامل طور پر اہل ایمان عمل کریں تو یقینی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی اخروی زندگی تو بن ہی جائے گی اور دنیاوی زندگی میں بھی اس کے ثمرات سے یہ فیضاب ہوسکتے ہیں۔ اگر اعمال کی ادائیگی میں افراط و تفریط کی کیفیت پائی گئی تو یہ ارتقائی منازل کےلیے سد راہ بن جاتی ہے۔ اسی لئے فرمایا گیا :’’اے ایمان والو‘‘و پاک چیزیں اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں، انہیں حرام نہ کرلو، یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ جن چیزوں کو حلال قرار دیتا ہے، تمہیں اس کا کوئی حق نہیںہے کہ اسے اپنے لئے حرام قرار دے لو اور اس کا استعمال ترک کردو کیونکہ اللہ رب العالمین کے احکام کو ترک کرتے ہوئے جو شخص بھی لذات جسمانی کے ترک کرنے کو تزکیہ نفس ،تطہیر نفس اور تقربِ الٰہی کا ذریہ سمجھتا ہو تو یہ خود اس کاخود ساختہ طریقہ ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’اور وہ پیغمبرﷺ،ان کے لیے طیّبات (پاکیزہ) چیزوں کو حلال اور خبیث (گندی چیزوں) کو حرام قرار دیتے ہیں( سورۃ الاعراف )ایک دوسرے مقام پر طیّبات (یعنی حلال) اور خبائث کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا،بھلا پاک و پاکیزہ اور نجس و ناپاک کیا برابر ہوسکتے ہیں؟ خواہ نجس ،ناپاک چیز تمہیں شکلاً کتنی ہی بھلی معلوم ہو ،مگر یادرکھو وہ تو ناپاک ہے اور ناپاک نجس ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’(اے محمدﷺ) کہہ دیجیے، خبیث اور طیّب برابر نہیں ہوسکتے، گو کہ ناپاک کی کثرت بھلی لگتی ہو۔اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، اے عقل مندو، تاکہ تم کامیاب ہو جائو‘‘ (سورۃ المائدہ)
اسلامی تعلیمات انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہیں ، یہ انسان کے جسم کی ساخت وبناوٹ کے عین مطابق ہیں ، جب تک انسان خواہشات نفس کو چھوڑ کر اللہ کے بنائے ہوئے نظام کے مطابق نہیں چلے گا، اسے زندگی میں ایسے ہی مصائب کاسامنا کرنا پڑے گا۔دنیا میں عمومی طور پر جن آزمائشوں سے انسان دوچار ہوتا ہے، وہ اس وقت جب دنیا میں بے حیائی ،بدکاری اور انسانیت سوز ، ناانصافی اور ظلم وجور پر مشتمل کام ہونے لگتے ہیں تو اس قسم کی تباہیاں سامنے آنے لگتی ہیں ،وہ اس طرح کی آزمائشوں سے اسی وقت چھٹکارا پاسکتے ہیں، جب کہ کتاب اللہ اور حدیث رسول ﷺپر عمل پیرا ہوں۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓفرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا، اے جماعت مہاجرین، پانچ چیزوں میں جب تم مبتلا ہوجا ؤاور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ تم ان چیزوں میں مبتلا ہو۔ اول یہ کہ جس قوم میں فحاشی علانیہ ہونے لگے تو اس میں طاعون اور ایسی ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان سے پہلے لوگوں میں نہ تھیں اور جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو وہ قحط، مصائب اور بادشاہوں (حکمرانوں )کے ظلم وستم میں مبتلا کر دی جاتی ہے اور جب کوئی قوم اپنے اموال کی زکوٰۃ نہیں دیتی تو بارش روک دی جاتی ہے اور اگر چوپائے نہ ہوں تو ان پر کبھی بھی بارش نہ برسے اور جو قوم اللہ اور اس کے رسولﷺ کے عہد کو توڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ غیروں کو ان پر مسلّط فرما دیتا ہے جو اس قوم سے عداوت رکھتے ہیں ،پھر وہ ان کے اموال چھین لیتے ہیں اور جب مسلمان حکمراں کتاب اللہ کے مطابق فیصلے نہیں کرتے،بلکہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ نظام میں (مرضی کے کچھ احکام)لیتے ہیں (اور باقی کوچھوڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو خانہ جنگی اور)باہمی اختلافات میں مبتلا فرما دیتا ہے ۔ ‘‘(ابن ماجہ، باب العقوبات)
سب سے پہلے اسلام نے یہ تعلیم دی کہ یہ جسم اللہ کی نعمت ہے ،امانت ہے ، اس کے استعمال کے حوالے سے اللہ عزوجل نے جو احکام دیئے، ان ہی کے مطابق یہ جسم صحیح وسالم رہ سکتا ہے، ورنہ تباہی وبربادی انسان کا مقدر ہوسکتی ہے ، اگر انسان شتر بے مہار کی طرح ہر جگہ چرتا اور چگتا ہے اور بے قابو جانور کی طرح انسانی حدود وقیود سے نکل کر اپنی خواہشات نفس پر چلنا شروع کرتا ہے ، پھر اللہ کے عذاب کا اس پر ایسا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے کہ عذاب کی وجوہات اور بیماریوں کی ادویات کا بھی اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے ، بڑی بڑی معیشتیں ، دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں اللہ عزوجل کی طاقت کے سامنے ڈھیر ہوجاتی ہیں، اس لیے جسم کے استعمال کے حوالے سے شرعی احکام کو ملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے ۔ارشادِ ربانی ہے:(ترجمہ)پس ان کے اوپر غیر شعوری جگہوں سے عذاب آگیا ، تواللہ نے انہیں دنیا میں ذلت کا مزا چکھایا اور آخرت کا عذاب تواس سے بڑھ کر ہے اگریہ جانتے (تو ایسا نہ کرتے)۔(سورۃالزمر)
اسلام نے کھانے کے حوالے سے بھی چند جانوروں کو حلا ل قراردیا ہے اور باقی دیگر جانوروں کو اللہ عزوجل نے حرام قرار دیا ہے ،کورونا وائرس جو آج عذاب کی صورت میں دنیا میں ایک وبائی صورت اختیار کرچکا ہے،اس کے جن جانوروں سے پھیلنے کے اندیشے ظاہر کیے جارہے ہیں ، ان میں چمگاڈر، مگرمچھ، لومڑی، بھیڑیا اور چوہا اور اس طرح کے دیگر مہلک وموذی جانور جن کے کھانے کی وجہ سے یہ مرض انسانوں میں منتقل ہوا ،یہ تمام جانور شرعاًحرام ہیں ، ان کی شریعت نے کھانے کی اجازت نہیں دی ، یہ فطرت انسانی کے خلاف ہے ، خلاف فطرت امور کی انجام دہی کی وجہ سے یہ موذی مرض انسان میں پھیلا اور انسانیت بدترین تباہی سے دوچارہوئی۔اسلام میں حلال و پاکیزہ غذاؤں کے استعمال اور حرام و ناجائز غذاؤں سے پرہیز کے پس پردہ جو بنیادی فلسفہ پوشیدہ ہے،وہ درحقیقت خالق کائنات اللہ عزوجل کا عطا کردہ ہے۔جس میںانسانیت کی فلاح و کامیابی پوشیدہ ہے۔
اللہ عزوجل نے فرمایا: ان کے لیے آپ پاکیزہ چیزوں کو حلال اور خبیث چیزوں کو حرام کرتے ہیں ۔ حلال وحرام کی تعیین کا پیمانہ ہماری ناقص عقل نہیں کرسکتی، وہی ذات حلال وحرام کا تعین کرے گی جس نے ہمیں پیدا کیا، وہی جانتی ہے ہمارے جسم کے مناسب اور لائق حلال کیا اور ہمارے جسم کے لیے نقصان دہ اور ضرر رساں کون سی چیزیں ہیں ؟ سورہ ٔمائدہ میں حلال وحرام جانورں کی ساری تفصیلات، کیا کھائیں کیا نہ کھائیں ، مفید وغیر مفید چیزوں کا تذکرہ ہے ، بلکہ یہاں تک کہا گیا ہے بغیر بسم اللہ جو جانور ذبح کیاجائے ،وہ بھی حلال نہیں ہوتا، اللہ عزوجل نے اپنی شریعت میں جن امور کو جاری کیا ہے ، ان تمام امور کی تاثیر ہے جس سے انسانیت کا نفع ونقصان متعلق ہے ۔یہ حلال وحرام کے ضابطے اللہ عزوجل نے ہمارے فائدے کے لیے بنائے ہیں ۔اسی لیے درندہ صفت جانوروں کو بھی حرام کیا گیا، کیوں کہ ان کے اوصاف ہمارے اندر آجائیں گے ،ان لوگوں نے اللہ کی بیان کردہ حدود اور نفع ونقصان کے ضوابط کو پس پشت ڈال دیا،صفت حیوانیت کو اپناناچاہا جس کے نتائج وہ آج بھگت رہے ہیں ۔
نبی کریم ﷺنے جو تدابیر چودہ سو سال پہلے بتائیں، وہ ہمارے لیے مشعل راہ ہیں ۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: جذامی شخص سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو اور یہ بھی نبی کریم ﷺنے فرمایا: جو بیمار جانور ہیں، انہیں صحیح جانورو ں میں نہ رکھاجائے ۔آپﷺ نے طاعون جیسی وبا اور متعدی بیماری کے سلسلے میں ایک رہنما ہدایت دی ۔ آپﷺ نے فرمایا: جہاں تم طاعون کے سلسلے میں سنو تووہاں نہ جاؤ اور اگر تم طاعون زدہ علاقوں میں ہو تو وہاں سے بھاگ کر نہ آؤ ۔ یعنی جوشخص وبائی علاقے میں ہے، وہ وہاں سے نہ آئے کہ ناگاہ وہ وبائی مرض اس کے وہاں سے دوسری جگہ منتقل ہونے سے دوسروں کو لگ جائے، یا وہاں جانے سے تم اس وبا میں مبتلا ہوجاؤ، لیکن کسی بھی بیماری میں تعدیہ اور منتقلی کی صلاحیت خود بخود نہیں ہوتی، اللہ جس جگہ چاہے اور جس میں چاہے، اسے منتقل کردے ، نبی کریمﷺ نے فرمایا: ہر بیماری متعدی نہیں ہوتی۔(بخاری مسلم) ویسے بھی ہر بیماری وبائی نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے انسان اس مریض سے، اس کی عیادت سے دور ہوجائے۔ لیکن یہ نبی کریم ﷺ کی طرف سے احتیاطی تدابیر بتائی گئی ہیں ۔وہاں کے لوگ وہاں سے دوسری جگہ منتقل نہ ہوں کہ وہاں کے لوگ بغیر عیادت گزاروں کے رہ جائیں ، یہ اگر یہ سمجھ کرکہ ہمیںکچھ بیماری نہیں، دوسری جگہ جائیں گے تو ہوسکتا ہے ،وہ وائرس ان کے اندر موجود ہواور وہ دوسروں میں پہنچ جائے اور وہ وہاں کے لوگوں کے لیے بھی وبالِ جان بن جائیں ۔بہرحال رسول اللہﷺ نے وہاں کے لوگوں کو دوسری جگہ منتقل ہونے سے اور دوسرے لوگوں کو وبازدہ جگہوں پر جانے سے منع فرمایا ۔
خصوصا ًاس وقت ماہر مسلم اطباء بتارہے ہیں پنچ وقتہ نمازوں کے لیے جو وضو کیا جاتا ہے ، وہ اس وبا کے ازالے کے لیے نسخہ کیمیا ہے ، اس لیے جسم کے جو اعضاء ہر دم کھلے رہتے ہیں اور ان کے وائرس زدہ ہونے کا اندیشہ او رخدشہ ہوتا ہے ، وہ پنچ وقتہ نمازوں کے لیے سنن ومستحبات کے اہتمام کے ساتھ وضو کرنے سے یہ وائرس جڑ پکڑنے سے پہلے ہی ختم ہوجاتے ہیں اور انسان ان کے اثر انداز ہونے سے بچ جاتا ہے ، اس لیے کہ کلی کرنے ، ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ اور ہاتھ ، منہ ، پاؤں دھونے اور سر کا مسح کرنے ، کانوں اور گردن کا مسح کرنے سے ان ظاہری اعضاء کو دن میں پانچ وقت دھو لیا جاتا ہے تو ان جراثیم کے جسم کے کھلے ہوئے اعضاء پر جمے رہنے کے اندیشوں میں کمی واقع ہوتی ہے، اس لیے وضو کی مشق کو بھی اس وائرس سے بچنے کی بہترین اور فطری تدبیر بتایا جارہا ہے ۔
ماثور ومنقول دعائیں جن میں جسم کی عافیت اور صحت کی دعائیں کی گئی ہیں ، ان کا اہتمام رکھنے اور اللہ کی طرف رجوع کرنے سے بھی ان وباؤں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے ، اللہ کی پناہ، حفاظت اور حصار سے تمام بیماریوں اور اذیتوں سے حفاظت کی ضمانت دی جاسکتی ہے ، خصوصاً اس طرح کی ماثور دعائیں:اے اللہ ،میرے پورے جسم میں ، میرے کان میں ، میری آنکھوں میں صحت عطا فرما، تیرے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ پاک ہے، وہ صرف پاک ہی کو قبول کرتا ہے، اوراس نے اس بارے میں جو حکم اپنے پیغمبروں کو دیا ہے، وہی اپنے سب مومن بندوں کو دیا ہے۔ پیغمبروں کے لئے اس کا ارشادہے، اے رسولو، تم کھاؤ پاک اور حلال غذا اورعمل کرو صالح، میں خوب جانتا ہوں تمہارے اعمال ۔اور اہل ایمان کو مخاطب کرکے فرمایا گیاکہ اے ایمان والو، تم ہمارے رزق میں سے حلا ل اور طیب کھاؤ(اور حرام سے بچو)عبادت اور دُعا کے قبول ہونے میں حلال غذا کو بڑا دخل ہے، جب غذا حلال نہ ہو تو عبادت اور دعا کی مقبولیت کا بھی استحقاق نہیں رہتا۔
ایک مسلمان پر جہاں اور بہت سے شرعی احکام کا بجا لانا ضروری ہے، وہیں اس پر یہ بھی لازم ہے کہ حلا ل چیزیں کھانے کا اہتمام کرے اور حرام چیزوں کے کھانے سے مکمل اجتناب کرے۔ان تعلیمات سے پتا چلتا ہے کہ حلال و طیب پاکیزہ غذائیں اور حرام و نجس،ناپاک غذائیں انسانی زندگی اور اس کی صحت پر اثرانداز ہوتی ہیں۔دین فطرت اسلام نے انسان کو حلال و پاکیزہ غذاؤں میں صحت و زندگی اور حرام و نجس غذاؤں میں وبائی امراض اور ہلاکت و بربادی کا سبب قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس حوالے سے اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر ہی انسانیت فلاح و کامیابی کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہے۔