نگلیریا ایک ایسا جرثوما ہے، جو پانی کے ذریعے انسانی دماغ تک رسائی حاصل کرکے اُسے متاثر کردیتا ہے۔ اس جرثومے کو طبّی اصطلاح میں"Naegleria Fowleri"کہاجاتا ہے، جو اصل میں امیبا کی ایک قسم ہے۔واضح رہے کہ اس امیبا کا نام نگلیریا، ایک فرانسیسی ماہرِ حیاتیات میتھیو نگلیر کے نام پر رکھا گیا ہے۔ نگلیریا کا پہلا کیس سب سے پہلے1965ء میں آسٹریلیا میں رپورٹ ہوا،جب کہ پاکستان میں یہ مرض 2008ء میں پہلی بار کراچی میںسامنے آیا۔نگلیریا کے جراثیم تازہ پانی اور انڈسٹری کے پلانٹس سے خارج ہونے والے پانی میں پائے جاتے ہیں۔
علاوہ ازیں، سوئمنگ پولز، تالابوںسمیت ٹینکوں میں موجود ایسے پانی میں بھی پیدا ہوسکتے ہیں، جس میں کلورین کی مقدار کم ہو۔نیز، گیلی مٹّی میں بھی پائے جاسکتے ہیں۔ نگلیریا امیبا کی خوراک دیگر جراثیم اور کائی وغیرہ ہیں۔واضح رہے کہ یہ امیبا صرف میٹھےپانی ہی میں زندہ رہ سکتاہے ، نمکین یعنی سمندری پانی میں مرجاتا ہے۔
عموماً نگلیریا کے جراثیم دورانِ وضو، تیراکی، غوطہ خوری اور پانی کی دیگر سرگرمیوں کے ذریعے ناک کی جھلّی تک رسائی حاصل کرکے دماغ تک پہنچ جاتے ہیں اور پھر دماغ اور اُس کی جھلّیوں کو کھانا شروع کر دیتے ہیں۔ اسی لیے اس مرض کو "Brain-Eating Amoeba" بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی دماغ خور امیبا۔ یہ بیماری اس قدر خطرناک ہے کہ متاثر ہونے کے بعد ایک تا دو ہفتوں کے دوران مریض کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ اگرچہ ہر سال کروڑوں کی تعداد میں لوگ اس امیبا کی زد میں آتے ہیں، لیکن ان میں سے کم ہی اس کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ محققین کے لیے تاحال یہ سوال معمّا ہی ہے۔
عمومی طور پر جھیلوں، چشموں اور تالابوں کی تہہ میں یہ امیبا سسٹ بنا کے رہتا ہے۔ سسٹ کی صُورت میں امیبا کےگرد ایک سخت غلاف بن جاتا ہے، جو اسےموسم کی سختیوں سے بچاتا ہےاور یہ فریزنگ ٹمپریچر میں بھی زندہ رہتا ہے، لیکن جب حالات سازگار ہوں، تو امیبا سسٹ سے باہر آجاتا ہے اور نسبتاً گرم پانی میں رہنا پسند کرتا ہے۔امیبا کے انسانی جسم میں داخل ہونے کے بعد علامات دو مراحل میں ظاہر ہوتی ہیں۔ پہلے مرحلے کی علامات عمومی طور پر امیبا کے جسم میں داخل ہونے کے دو سے سات دِنوں میں ظاہر ہوتی ہیں۔ اس دوران سَرمیں شدید درد، بخار، متلی اور قے ہوتی ہے، جس کے بعد دوسرے مرحلے کی علامات، پہلے مرحلے کے دو تا بارہ دِن بعد ظاہر ہوتی ہیں۔اس مرحلے میں مریض کی گردن اکڑ جاتی ہے اور جھٹکے لگنے لگتے ہیں۔
دماغی حالت میں تبدیلیاںرونماہونے لگتی ہیں اوروہ ہذیانی کیفیت کا شکار ہوکر بالآخر کومے میں چلا جاتا ہے۔بعض کیسز میں مرض کا حملہ اس قدر شدید ہوتا ہےکہ مرض کی تشخیص موت کے بعدہی ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں، دیگر علامات میں قوتِ شامہ اور چکھنے کی حس میں تبدیلی، روشنی بُری لگنا، کنفیوژن، توازن برقرار رکھنے میں دشواری، نیند نہ آنا وغیرہ شامل ہیں۔ اگر کسی فرد کو اچانک سَر درد، گردن اکڑ جانے، بخار اور قے کی علامات ظاہر ہوں، خاص طور پر جب وہ کسی جوہڑ، تالاب یا سوئمنگ پول وغیرہ میں نہایا ہو، تو فوراً معالج سے رجوع کیا جائے کہ یہ امیبا خاموشی سے دماغ تک پہنچ کر جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔
واضح رہے کہ اس مرض کے ایک سے دوسرے فرد کو لاحق ہونے کے امکانات نہ ہونے کےبرابرہیںاور بیماری کے شکار زیادہ تر شیرخوار بچّے اور نوجوان ہوتے ہیں۔ نگلیریا کی تشخیص کے لیے مختلف ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ عام طور پر خون کے سفید خلیات کی تعداد بڑھ جاتی ہے اور ایکسرے کرنے پر دماغ کی سوزش ظاہر ہوتی ہے، لیکن ان علامات کو نگلیریا کی مخصوص علامات نہیں سمجھا جاتا۔ ریڑھ کی ہڈی سے پانی نکال کر ٹیسٹ کرنے پر سفید اور سُرخ خلیات کی تعداد میں اضافہ ظاہر ہوتاہے، لیکن اس میں مخصوص رنگ دار کیمیکل شامل کرنے سے امیبا نظر نہیں آتا،بلکہ سلائیڈز(جس پہ ریڑھ کی ہڈی سے نکالا گیا پانی ہوتا ہے)کیمیکل ڈالے بغیربراہِ راست خرد بین کے نیچے رکھ کرباآسانی دیکھاجا سکتا ہے۔
نگلیریا کے مخصوص ٹیسٹ بہت کم لیبارٹریز میں کیے جاتے ہیں۔ دماغ کی سوزش کی جانچ کے لیے سی ٹی اسکین اور ایم آر آئی کیا جاتا ہے۔یہ مرض اس اعتبار سے بھی زیادہ خطرناک ہے کہ جو افراد اس کا شکار ہوجاتے ہیں، اُن کے بچنے کے امکانات بہت کم یا نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔99فی صد مریض موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔اگر مرض ابتدائی مرحلے پر تشخیص ہوجائے، تو زندگی بچنے کی کچھ اُمید کی جاسکتی ہے، لیکن پھر بھی زیادہ تر افراد موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یوں بھی اس مرض کی درست تشخیص بھی ایک مشکل مرحلہ ہے، کیوں کہ نگلیریا کی علامات گردن توڑ بخار اور دوسرے دماغی امراض سے ملتی جُلتی ہوتی ہیں۔
آغا خان یونی ورسٹی اسپتال،کراچی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں بلدیہ کراچی کی جانب سے فراہم کیے جانے والے پانی میں نگلیریا امیبا کی موجودگی پائی گئی ۔نیز،کراچی کوجن دو جھیلوں سے پانی فراہم کیا جاتا ہے، بدقسمتی سے ان کو فلٹر یا کلورین سے صاف کرنے کا کوئی معقول انتظام بھی نہیں۔علاوہ ازیں،صاف پانی میں گٹر کا آلودہ پانی شامل ہونے کی خبریں بھی وقتاً فوقتاًمنظر عام پر آتی رہتی ہیںوریہی عوامل نگلیریا کے پھیلاؤ میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔چوں کہ تازہ پانی کے تمام ذخائر کو امیبا سے پاک نہیں کیا جا سکتا ،لہٰذا ضروری ہے کہ نہانے والے تالابوں اور سوئمنگ پولز میں کلورین ڈال دی جائے اورکم از کم گھروں میں سپلائی ہونے والے پانی کی فلٹریشن اور کلورینیشن ضرور کی جائے۔
نیز، کوشش کی جائے کہ تیراکی کے دوران ناک میں پانی نہ جانے پائے۔ اس مقصد کے لیے نوز پلگ اور نوز کلپس کا استعمال مفید ہے۔ رہی بات وضو کی، تو اس کے لیے ہمیشہ جراثیم سے پاک فلٹر کیا ہوا پانی، جس میں کلورین شامل ہو، استعمال کیا جائے چوں کہ موسمِ گرما میں گرمی کی شدّت بڑھنے کےساتھ امیبا کی افزایش بھی بڑھ جاتی ہے، لہٰذاحتی الامکان احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔