• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عرفان جاوید ممتاز و معروف ادیب، افسانہ نگار، محقّق ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے برصغیر کی نام ور شخصیات پر اُن کےسوانحی خاکے ’’جنگ، سنڈے میگزین ‘‘ میں تواتر سے شائع ہوتے رہے۔ بعدازاں، ان خاکوں کے علاوہ کچھ دیگر خاکوں پر مشتمل اُن کی دو کُتب ’’دروازے‘‘ اور ’’سُرخاب‘‘ کے عنوان سے منظرِ عام پر آئیں اور ایسی مقبول ہوئیں کہ پھر اُن کے کئی ایڈیشن شائع کیے گئے۔

گزشتہ چند برسوں سے علمی وفکری موضوعات میں عرفان جاوید کی جُست جو اور فکروتحقیق کا حاصل، آئینہ تمثال مضامین کا مجموعہ ’’عجائب خانہ‘‘ ہے۔ یہ دنیا حیرت انگیز مظاہر و مناظر، موجودات و خیالات کا عجائب خانہ ہی تو ہے۔ سو، اس سلسلے کے کچھ منتخب مضامین اِس یقین سے قارئینِ جنگ کی نذر کیے جارہے ہیں کہ کئی اعتبار سے اپنی نوعیت کی یہ منفرد تحریریں یقیناً معلومات میں اضافے اور ذہنی تربیت کا سبب بنیں گی۔ ’’عجائب خانہ‘‘ سلسلے کی یہ چَھٹی کڑی ’’وقت‘‘ کے حیرت کدے سے منسلک مختلف نظریات، خیالات اور واقعات پرمشتمل ہے، جسے ’’زمانہ‘‘ کا عنوان دِیا گیا ہے۔ دیکھیے، قلم کار نے مختلف علمی وفکری موضوعات کا کیسے کیسے پہلوؤں اور زاویوں سے جائزہ لیا ہے یا کہیے، پردہ اُٹھایا ہے۔

(ایڈیٹر، سنڈے میگزین)

وقت یعنی زمانہ خدائی صفت ہے۔ رسول پاک ﷺ فرماتے ہیں، ’’اللہ تعالیٰ کافرمان ہے کہ انسان زمانے کو برُاکہتا ہے، حالاں کہ مَیں ہی زمانہ ہوں‘‘ (صحیح بخاری)۔ ہندومت کے حوالے سے بھگوت گیتا میں مہاراج کرشن کا کہنا ہے، ’’تمام عناصر میں سے، مَیں وقت ہوں۔‘‘مسیحی مفکّر اور مبلّغ سینٹ آگسٹائن نے قریباً سترہ سَو برس پہلے کہا تھا کہ ’’زمان ومکان، یعنی وقت اور جگہ کا وجود کائنات اور تخلیق سے مشروط ہے۔ وقت کائنات کے ساتھ ہی تخلیق ہوا۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور وقت کا کائنات سے علیحدہ کوئی وجود نہیں۔‘‘ یہی بات 1915میں آئن اسٹائن نے دریافت کی۔ سینٹ آگسٹائن نے تو بات بڑھاتے ہوئے خیال پیش کیاتھا کہ خدا وقت سے ماورا اور بالاتر ہے۔ چناں چہ وہ کہیں پرے سے وقت گزرتے ہوئے دیکھتا ہے اور ماضی، حال اور مستقبل ایک ہی نظر میں بہ یک وقت دیکھتا ہے۔ 

سینٹ آگسٹائن نے اپنی شہرئہ آفاق تصنیف’’شہرِ خدا‘‘(City of God) میں وقت کے ایک سیدھی لکیر میں سفر کرنے کے خیال کی تائید کی۔ عیسائی تصوّرِ وقت کہ زمانہ تخلیق سے یومِ حساب تک سیدھ میں سفر کرتا ہے، یونانی فکر، جو وقت کو دائرے میں چلتا دیکھتی تھی، سے قطعی مختلف ہے۔ وقت کے سیدھی لکیر میں سفرکرنے کےخیال نے بعد میں آنے والے عظیم مغربی ادب کو بھی متاثر کیا۔ شہرئہ آفاق اطالوی شاعر، دانتے کی تخلیق’’الوہی طربیہ داستان‘‘"The Divine Comedy" اور اٹھارہویں صدی کے برطانوی شاعر جان ملٹن کی تصنیف ’’جنتِ گم گشتہ‘‘ "Paradise Lost" پراسی خیال کا پَرتو واضح طور پر نظر آتا ہے۔ مسلمان اور ابراہیمی مذاہب کو ماننے والے دیگر لوگ بھی اسی فکر کے پیرو ہیں، جو وقت کو بہتے دھارے کی طرح مسلسل ایک منزل کی جانب سفر کرتا دیکھتا ہے۔

’’وقت‘‘ اور’’زبان‘‘ کا اکٹھا تذکرہ برمحل ہے۔ زبان یقینا انسان کی اہم ترین ایجاد ہے۔ اسی میں انسان سوچتا ہے اور یہی ترسیل خیال کا وسیلہ ہے۔ اگر زبان ایجاد نہ ہوتی تو انسان موجودہ سطح کی ترقی ہرگزنہ کرپاتا۔ جان وَروں میں زبان کا نہ ہونا ایک بڑی کمی ہے۔ زبان انسان کے خیالات میں ترتیب لے کرآتی ہے۔ ایک انسان کے خیال پر دوسرے انسان کے فکر کی اینٹ جمتی ہے اور تہذیب کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ اسی طرح وقت کا تصوّر بھی انسان کو دیگر جان داروں سے جدا کرتا ہے۔ تمام جان وَر ایک مسلسل ’’حال‘‘ میں زندہ رہتے ہیں۔ ان میں ماضی، حال اور مستقبل کا باقاعدہ اور واضح احساس موجود نہیں۔ وقت کو شناخت کرنے کی خوبی انسانی فضائل میں سے ایک اہم فضیلت ہے۔ یہی خوبی انسان کو ’’وقت‘‘ سے متعلق غورو فکر پر آمادہ کرتی ہے۔ 

ہزاروں برس سے فلسفی، دانش ور، ادیب، صوفی، سائنس داں اور عام انسان ’’وقت‘‘ کی ماہیت پر غور کرتے آئے ہیں۔ مکان یعنی جگہ و مقام کا احساس اجسام کی حرکت سے وابستہ ہے، جب کہ زمان یعنی وقت کا تصوّر دماغ کی حرکت سے منسلک ہے۔ کیا قوی دماغ کا حامل ہرقلیطس تھا، جو تین ہزار برس قبل بول اُٹھا تھا کہ ’’کوئی شخص ایک دریا میں دو مرتبہ قدم نہیں رکھ سکتا کہ نہ وہ دریا پہلے سا رہتا ہے اور نہ ہی بندہ وہی رہتا ہے۔‘‘ آئن اسٹائن نے بھی انکشافِ حقیقت کے ایسے ہی لمحات میں کہا ’’وقت فریب ِ خیال ہے‘‘ اور ’’وقت کا تصوّر اس لیے اہم ہے تاکہ تمام واقعات بہ یک وقت وقوع پذیر نہ ہوں۔‘‘ یعنی وقت کا وجود واقعاتی ترتیب اور ضبط ِ انتشار کے لیےاہم ہے۔ تفکّر اور گیان کے قیمتی لمحات میں خدائے سخن اسد اللہ خاں غالب ؔپکار اُٹھے تھے ؎ ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد…عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے۔ وقت کے حیرت کدے میں قدم رکھ کر معروف و مستند ادیب نیتھینئل ہاتھورن نے کہا تھا، ’’وقت ہمارے اوپر سے پرواز کرتا گزر جاتاہے، مگر اپنا سایہ پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔‘‘ وقت کے حوالے سے مختلف النّوع فلسفے موجود ہیں، جن میں دوامیت (Eternalism)کا فلسفہ غوروفکر اور دل چسپی کا خاصا سامان رکھتا ہے۔ 

اس کے مطابق جس طرح مختلف مقامات بہ یک وقت اپنی جگہ موجود ہوتے ہیں اسی طرح ’’مستقبل‘‘ کے واقعات، موجودہ’’حال‘‘ کے ساتھ عین اس وقت وجود رکھتے ہیں۔ یعنی آج کی تاریخ میں متوازی طور پرمستقبل حاضر اور موجود ہے۔ گویا ماضی، حال اور مستقبل ایک مکان کے کمرے ہیں، جو بہ یک وقت موجود ہیں، پر اُن میں جھانکنے کے لیے دروازہ کھولنا پڑتا ہے۔ غالباًیہی وجہ ہے کہ صوفی اور درویش جذب، القا، کشف اور خواب کے ذریعے اُسے دیکھ پاتے ہیں۔ اگر ایک شے موجود ہی نہ ہو تو اُسے دیکھا نہیں جاسکتا۔ پھربہت سے نوازے گئےلوگوں کی تیسری آنکھ کھل جاتی ہے۔ بعض اوقات تپسّیا، مراقبہ اور ارتکاز یہ صلاحیت چمکا دیتا ہے تو بعضے چُنیدہ لوگوں کو یہ وصف قدرت کی جانب سے بِلا مانگے ودیعت کردیا جاتا ہے۔

مراقبے میں ارتکازِ توجّہ کی اہمیت مسلمہ ہے۔ ولیم جیمز اپنے 1890کے شاہ کار’’نفسیات کے اصول‘‘ (The Principles of Psychology) میں نکتہ آرا ہےکہ حال میں موجودرہنا اور اِسی پر توجّہ مرکوز رکھنا انتہائی دشوار ہے کہ ماضی کی ’’بازگشت‘‘ اور مستقبل کا پوروسواد اور’’پیش ذائقہ‘‘حال میں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ منشّیات اورخلل دماغ بھی وقت کےتاروپود کو چھیڑتے ہیں۔ ٹامس ڈی کوینسی ایک معروف ادیب ہے، جس نے اپنی گزشتہ زندگی منشّیات کے زیرِ اثر گزاری۔ اس تجربے کو اس نے اپنی شہرت یافتہ کتاب ’’ایک برطانوی افیمی کے اعترافات‘‘(Confessions of an English Opium Eater) میں قلم بند کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ اس نے ایک رات میں ستّربرس بھی گزارے۔ یعنی وقت کا بہاؤ حد درجے سُست پڑگیا۔ 

اہم مفکّر، آلڈس ہکسلے نے بھی منشّیات اور کیمیائی مرکبات کے استعمال کے تحت وقت کی سُست روی اور الجھاؤ کا اعتراف کیا ہے۔ وقت کیا ہے، اس کے بارے میں مختلف نقطۂ ہائے نظر کیا رہے ہیں اور آج بھی موجود ہیں، اس کی متنوّع اقسام کیاہیں، اس سے وابستہ دل چسپ حقائق کون سےہیں، مختلف فلسفیوں نے کیا فلسفے پیش کیے، بین الاقوامی ادب میں اِسے کس طرح برتا گیا اور اُردو ادب میں اس کا کیا استعمال رہا؟ جواہرخانۂ افکار سے چند خوشہ ہائے تازہ مع معروضات و تجزیات کچھ یوں ہیں۔ عام فہم زبان میں وقت ایک مخصوص دورانیے کو کہتے ہیں۔ یہ دورانیہ مختصر ترین اکائی سے لےکر بےشمار نوری سالوں پر محیط ہوسکتا ہے۔ نصابی زبان میں وقت، موجودات اور واقعات کی مسلسل اور غیر معیّنہ مدت کی، ماضی سے حال اورحال سے مستقبل کی یک رُخی وقوع پذیری کو کہتے ہیں۔ وقت ایک ایسا پیمائشی جزو ہے، جس سے واقعات کو ترتیب دیا جاتا ہے اور ان کی طوالت ماپی جاتی ہے۔ اس سے ان کے بیچ وقفہ بھی ناپا جاتا ہے، تبدیلی کی پیمائش کی جاتی ہے، مختلف مرئی اور غیر مرئی تجربات کی پیمائش کی جاتی ہے، مختلف مرئی اور غیرمرئی تجربات کا باہم موازنہ کیا جاتا ہے اور ان کی قدرجانچی جاتی ہے۔ 

انجیل مقدّس میں ’’وقت‘‘ کے لیے عبرانی کے لفظ ’’عدن‘‘ سے مشتق اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ عربی، فارسی اور عبرانی میں ’’زمان‘‘کالفظ وقت کےلیےمعروف ہے۔ درحقیقت ’’زمان‘‘ کا لفظ حقیقی معنوں میں اس وسیلے یا راہ گزر کے لیے استعمال ہوتا تھا، جس سے ’’پہلے سے طے شدہ واقعات‘‘ کا گزر ہوتا ہے۔ ’’دورانیہ، ثانیہ یا وقت‘‘ اور ’’مقدر کردیے گئے واقعات کی گزر گاہ‘‘ میں ایک لطیف فرق ہے، جسے گردشِ ایام نے دھندلا دیا ہے۔ اقبال نے ’’زماں بینی‘‘ کا کیا خُوب اظہار کیا ہے ؎ تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا…ایک زمانے کی رَو جس میں نہ دن ہے نہ رات۔ وقت سے متعلق ادراکی علوم میں علمِ نفسیات، علمِ طبیعات، علمِ طب، علمِ لسانیات اور دیگر شعبہ جات شامل ہیں۔ فی زمانہ عوامی طور پر مقبول تصوّر ِوقت کے متعلق چند دل چسپ حقائق ہیں۔1836 میں ایک شخص نے وقت بیچنا شروع کردیا، آج یہ بات عجیب معلوم ہوگی۔ 

البتہ اگر اسے وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کی آمدن کا بیش تر انحصار اپنے وقت کی فروخت پر ہوتا ہے۔ اسی طرح ’’درست وقت‘‘کی معلومات اُس زمانے کی ضرورت تھی اور درست وقت بیچنے کا کاروباری خیال ایک ہوشیار شخص کو آیا۔ وہ ہوشیار شخص جان بیوائل تھا۔ وہ برطانیہ میں گرین وِچ کی تجربہ گاہ میں ملازمت کرتا تھا۔ گرین وِچ حوالہ جاتی مقام ہے، جس سے درست وقت کا تعیّن کیا جاتا ہے۔ وہ روزانہ وہاں کے مقررکردہ عین صحیح وقت کے مطابق اپنی جیبی گھڑی درست کرلیتا تھا اور بعد ازاں وہ درست وقت شہر میں گاہکوں کو فروخت کرتا تھا۔ اُس کا یہ خاندانی کاروبار1940 تک چلتا رہا۔

آئن اسٹائن کے نظریۂ اضافت کے مطابق زمین کے اندرونی مرکز کے قریب تر وقت آہستہ گزرتاہے۔ یعنی کے ٹو کی چوٹی پر وقت سطح سمندر سے سالانہ پندرہ ملی سیکنڈفرق سےگزرتا ہے۔ دور ِ حاضر میں ایک سال 365.24دِنوں کا ہوتا ہے۔ جب اس زمین پر ڈائنوسار چلتے پھرتے تھے، اُس زمانے میں ایک برس میں 370 دن ہوتے تھے۔ زمین، چاند کی کشش کےباعث اپنے چکر آہستہ کررہی ہے۔ ہم جو کچھ دیکھتے ہیں، وہ ماضی میں ہوتا ہے۔ سورج کی روشنی زمین پر آٹھ منٹ اور بیس سیکنڈمیں پہنچتی ہے۔ جو سورج ہم اس وقت دیکھ رہے ہیں وہ اتنا ہی پراناہے۔ سائنسی تحقیق کے مطابق دنیا کی قدیم ترین شے ایک زرقونی کرسٹل ہے، جو آسٹریلیا کی جیک پہاڑیوں سے برآمد ہوا تھا۔ یہ 4.4ارب سال پرانا ہے۔ 

اس وقت زمین کی عُمر 16کروڑ برس تھی۔ کمانی سَروالی وہیل مچھلی دنیا کی سب سے طویل العُمر مخلوق(جان وَر) ہے۔ اس وقت سب سے لمبی عُمر پانے والی متعلقہ وہیل مچھلی کی عمر 211برس ہے۔ آج سمندروں میں ایسی وہیل مچھلیاں بھی موجود ہیں، جن کے اجسام میں مرکھپ چُکے پرانے سمندری شکاریوں کے ہاتھی دانت کے بنے200برس پرانے نیزے پیوست ہیں۔ بابل کی آبی گھڑیوں کے پیندوں میں سوراخ ہوتے تھے، جن سے پانی رِستا رہتا تھا۔ ان کے مرتبانوں کے گرد پیمایشی نشان ہوتے تھے، جن کی مدد سے وقت بتایا جاتا تھا۔ ان کی مدد سے تب تو وقت درست معلوم ہوتا تھا، جب تک وہ پانی سے بھرے رہتے تھے، البتہ جیسے جیسے پانی کم ہوتا جاتا تھا، ویسے ویسے پانی کا رساؤ کم ہوتے ہوتے قریباً ختم ہوجاتا تھا۔ 

جولیئس سیزر نے45قبل مسیح میں شمسی کیلنڈر متعارف کروایا۔ پوپ گریگوری نے اس کیلنڈرکی خامیاں دور کیں اور 1582 سے دور ِ حاضر تک معمولی تبدیلیوں کےسوا وہی کیلنڈر مستعمل ہے۔ فرانسیسی انقلاب کے بعد ایک نیا کیلنڈر اور نئی گھڑی متعارف کروائے گئے۔ اس کا مقصدعیسائی کلیسائی نظام کےاثرات سے چھٹکارا پانا تھا۔ اس میں ایک دن دس گھنٹوں پر مشتمل ہوتا تھا، ہر گھنٹا ایک سَومنٹ کا تھا اور ہر منٹ ایک سَو سیکنڈ کا تھا۔ یہ نظام 1806تک ہی چل پایا۔

قدیم مصر میں 1500 قبل مسیح میں ایک وقت پیماآلہ استعمال کیاجاتا تھا۔ اس میں ایک عمودی بازو(کھڑا حصہ، اِستادہ اوزار) ایک فاصلہ پیما (Ruler)پرسورج کے سامنے سے سایہ کرکے وقت بتاتا تھا۔ دن بارہ بجے اس آلے کا رخ بدل دیا جاتا تھا۔ فرعونوں کے اہراموں سے بھی ایسے وقت پیما ملے ہیں، جو پانی کی مدد سے وقت بتاتے تھے۔ بعد ازاں مسلمان، جو ستاروں کے علوم میں خاص دل چسپی رکھتے تھے، وقت پیما آلات میں جدّت اور بہتری لے کر آئے۔ شیشے سے بنے وقت پیما میں ریت کا بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ اسے عموماً بحری سفروں میں استعمال کیا جاتا تھا۔1522 میں فرڈینینڈ میگلن شیشے کے اٹھارہ ایسے آلات کو بحری جہاز پر دنیا کا چکر لگانے کے لیے استعمال میں لایا۔ 

گلیلیو گلیلی اور کرسچئن ہایگنز آلات ِ وقت پیمائی میں خاصی درستی لے کر آئے اور بعد ازاں پینڈولم والا گھڑیال وجود میں آیا۔ صنعتی انقلاب کے بعد برطانوی ریلوے، بحری افواج اور بحری شعبے کے لیے 1847میں گرین وِچ مِین ٹائم (GMT) کومتعارف کروا کراس کا اطلاق کردیا گیا۔ صدیوں تک ہر قصبہ اورہر شہر اپناانفرادی وقت رکھتا تھا۔ یورپ، امریکا، کینیڈا، ایشیا، افریقا وغیرہ میں لوگ مقامی وقت کے مطابق زندگی گزارتے تھے۔ ریلوے کی ایجاد کے بعد، مختلف نظام الاوقات کی الجھن کو سلجھانے کے لیے Time Zone (حصارِ وقت) تخلیق کیے گئے۔ ابتدا میں اس نظام کو عائد کرنے میں خاصی دشواریوں کا سامنا رہا کیوں کہ لوگ سمجھتے تھے کہ ایسا کر کے ریاست امورِ قدرت میں مداخلت کر رہی ہے۔Time Zone قائم ہونے کے بعد وسیع خطہ ہائے زمین پریک ساں وقت ہوگیا۔ اس سے ریلوے کے علاوہ جدید دور کےدیگر معاملات میں بھی لوگوں کو آسانی ہوگئی۔ 

لِیپ سال کا تصّور وقت کی درستی کے لیے عمل میں آیا۔ اس کے مطابق ہر چوتھے برس فروری کے مہینے میں 29 دن ہوتے ہیں۔ یہ پوپ گریگوری کی اصلاحات کا نتیجہ ہے۔ اس سے پہلے جولیئس سیزر نے ایک عوامی انداز اپنایا تھا۔ قدیم رومی فروری کو سال کے آخری مہینے کے طور پر لیتے تھے۔ سال کے اختتام پر جشن کا اہتمام ہوتا تھا۔ جشن کے آخری دن خُوب لطف و انبساط کے ہوتے تھے۔ عوام کی خواہش ہوتی تھی کہ یہ جشن بڑھ جائے۔ عوام کو خوش کرنے کے لیےجولئس سیزر نے فروری کے آخری دن کے گھنٹے بڑھا دیے۔ اِس طرح کیلنڈر میں بھی درستی آگئی۔ (جاری ہے)

تازہ ترین