پاکستان تحریک انصاف کی مخلوط وفاقی حکومت کے مستقبل پر بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی مینگل)کی علیحدگی سے کوئی فرق پڑے نہ پڑے، بلوچستان میں اس کاضرور منفی پیغام جائے گا جس سے وہاں کے عوام میں پہلے سے موجود احساس محرومی مزید گہرا ہوجائے گا اور اس کا فائدہ ان عناصر کو پہنچے گا جو غیر ملکی ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔
اس سے پی ٹی آئی کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچے گا، جو ملک میں اسٹیٹس کو توڑنے کا دعویٰ لے کر برسراقتدار آئی تھی۔یہ بات اب واضح ہوگئی کہ کم سے کم بلوچستان میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور پرنالا وہیں رہے گا جہاں عشروں سے ہے۔ 2018 کے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کو مرکز میں حکومت بنانے کے لئے چھوٹی جماعتوں کی مدد درکار تھی۔
چنانچہ اس کے سرکردہ لیڈرخود چل کر بی این پی کے صدر سردار اختر مینگل کے پاس گئے اور انہوں نے جو بھی شرائط پیش کیں انہیں موقع کی نزاکت کے پیش نظر مان لیا، مثلاً یہ کہ بلوچستان میں لاپتا افراد جو اس صوبے کا سب سے حساس مسئلہ ہے، کو بازیاب کرایا جائے گا اور اس حوالے سے نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کیاجائے گا۔
اس پلان کاتقاضایہ بھی تھاکہ حکومت بلوچستان کو تمام اسٹیک ہولڈرز کے اطمینان کے مطابق سیاسی مفاہمت کی راہ ہموار کرنے کامکمل اختیار دیاجائے گا اورافغان مہاجرین کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے جامع پالیسی تشکیل دی جائے گی جس کاآغاز مہاجرین کی رجسٹریشن سے ہوگا۔اس سلسلے میں ایک معاہدہ کیاگیا جس پر پی ٹی آئی کی جانب سے جہانگیرترین،شاہ محمودقریشی اورسردار یار محمد رند نے دستخط کئےمگر دوسال گزر گئے اس سمت میں پہلا قدم بھی نہیں اٹھایا گیا۔
سرداراخترمینگل نے قومی اسمبلی میںحکمران اتحاد سے علیحدگی کاباضابطہ اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ ان کےاحتجاج پر تمام پارٹیوں پرمشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے بلوچستان جاکر یہ دیکھنا تھا کہ وہاں کے مسائل کیاہیں اورانہیں حل نہ کرنے کے ذمہ دار کون ہیں۔لیکن اس کے بعد کمیٹی کے قیام کا کوئی نوٹیفکیشن جاری ہوا نہ اس کے ٹرمز آف ریفرنس طے ہوئے اورنہ اس کا کوئی اجلاس ہوا۔
اس سلسلے میں جس یادداشت پرفریقین نے دستخط کئے تھے اس میں مسنگ پرسنزکامعاملہ سرفہرست تھا۔اس کے علاوہ بلوچستان کی ترقی اورریاست کے نظام میں اسے جائز مقام دلانے کیلئے قانون سازی،وفاقی اورفارن سروس میں بلوچستان کے مختص کوٹے کو یقینی بنانے،ڈیمز کی تعمیر اورسونے اورتانبے کی دھاتوں کےلئے ریفائنریزکی تعمیر بھی یادداشت کاحصہ تھی۔
یہ بھی کہا گیا تھا کہ افغان مہاجرین، جن کی وجہ سے صوبے میں بعض سیاسی، اقتصادی اورسماجی مسائل پیدا ہورہے ہیں، کی باعزت افغانستان واپسی کابندوبست کیاجائے گا۔پی ٹی آئی اس معاہدہ پر’’ صدق دل ‘‘سے قائم ہے مگر اس پر عملدرآمد کیلئے اس نے کچھ بھی نہیں کیا۔
اختر مینگل اس پر صبر کرکے بیٹھنے والے نہیں تھے انہوں نے پارٹی کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی کے متفقہ فیصلے پرمخلوط حکومت کی حمایت ترک کرنے کااعلان کردیا۔
سردار اختر مینگل نے8سال پہلے بلوچستان کے مسائل حل کرانے کیلئے6نکاتی مطالبات پیش کئے تھے جنہیں شیخ مجیب کے6نکات کے مماثل نہایت خطرناک قرار دے کر ملکی اورغیر ملکی میڈیا میں بہت اچھالاگیا تھا۔وہ نکات یہ تھے۔
1۔بلوچ عوام کے خلاف تمام خفیہ اورظاہری آپریشنز بند کئے جائیں۔
2۔تمام لاپتا افراد کوبازیاب کرکے قانون کی عدالت میں پیش کیاجائے۔
3۔الشمس اورالبدر کی طرز پر خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ نگرانی میں کام کرنے والے تمام پراکسی ڈیتھ اسکواڈ ختم کئے جائیں۔
4۔بلوچ سیاسی جماعتوں کو انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مداخلت کے بغیر اپنی سرگرمیاں بحال کرنے اور جاری رکھنے کی آزادی دی جائے۔
5۔نواب اکبر بگٹی اور حبیب جالب بلوچ سمیت تمام بلوچ سیاسی لیڈروں اور کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنانے، انہیں قتل کرنے اور ان کی لاشیں مسخ کرکے پھینکنے کے ذمہ دار افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
6۔اپنے علاقوں سے بے دخل کئے جانے والے ہزاروں بلوچوں کی بحالی کیلئے فوری اقدامات کئے جائیں۔
8سال کے عرصے میں بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہے۔ بلوچستان میں عمومی حالات پہلے جیسے نہیں رہے مگر لاپتا افراد اور افغان مہاجرین کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ اختر مینگل کی پارٹی بلوچوں کی متفقہ علیہ پارٹی نہیں مگر اس کا ایجنڈا بلوچ قوم پرستوں میں بہت مقبول ہے اور یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ نظریاتی اور جذباتی اعتبار سے ہر بلوچ قوم پرست ہے خواہ اس کاتعلق کسی بھی پارٹی سے ہو۔
اس لئے بلوچستان میں اختر مینگل کی ہر بات غور سے سنی جاتی ہے، چاہے اس پر عملاً کوئی ان کاساتھ دے یا نہ دے۔ اس اعتبار سے حکمران اتحاد سے بی این پی کی علیحدگی ایسا معاملہ نہیں جسے نظر انداز کیا جائے اس لئے ملک کے سب سے بڑے صوبے کو ناامید کرنے کے بجائے وہاں کے سلگتے ہوئے مسائل پر فوری توجہ دی جانی چاہئے اور بی این پی مینگل سمیت تمام سیاسی پارٹیوں کو آن بورڈ لے کر فوری فیصلے اور اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس حوالے سے بلوچستان کی حساسیت کو ہمیشہ مدنظر رکھا جائے۔
یاد رکھنا چاہئے کہ بھارت اور بعض دوسری عالمی قوتیں اپنے اپنے مفاد میں بلوچستان کو غیر مستحکم کرنے کیلئے سرگرم ہیں جس کے شواہد آئے روز سامنے آتے رہتے ہیں۔