• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے یہ بات انتہائی افسوس سے لکھنا پڑ رہی ہے کہ جتنی دکھ بھری اور شرمناک ہماری ملکی تاریخ ہے اتنی ہی دکھ بھری اور شرمناک آئینی تاریخ بھی ہے۔ اول تو قائداعظم محمد علی جناح کے انتقال کے بعد ایک خاص عرصے تک نہ انتخابات کرائے گئے اور نہ ہی ملک کا آئین بنایا گیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کی تاریخ مارشل لائوں اور آمروں کی تاریخ ہے تو زیادہ غلط نہ ہوگا۔ ایک وقت وہ تھا جب بغیر انتخابات کے ایک بیورو کریٹ غلام محمد کو پاکستان کا گورنر جنرل بنایا گیا، انہوں نے اول تو مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے جمہوریت پسند سیاستدان خواجہ ناظم الدین کو اچانک ایک حکم جاری کرکے وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا، بعد ازاں اچانک ملک کی اسمبلی، جو کیسی بھی تھی اور کیسے بھی وجود میں آئی تھی، کو تحلیل کر دیا، اس وقت قومی اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین تھے اور دارالحکومت کراچی تھا۔ مولوی تمیز الدین نے اس فیصلے کو قبول نہیں کیا اور اسے سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا، سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں فل بنچ نے پٹیشن کی سماعت کرنے کے بعد اپنے فیصلے میں قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے حکم کو منسوخ کرکے قومی اسمبلی کو بحال کر دیا مگر ملک غلام محمد اور ان کی کابینہ نے اس فیصلے کو قبول نہیں کیا اور اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا، اس وقت پاکستان کے چیف جسٹس، جسٹس منیر تھے۔ جسٹس منیر کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فل بنچ نے اس پٹیشن کی سماعت کے بعد سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کو منسوخ کر دیا۔ کچھ ہی عرصے کے بعد جنرل ایوب نے پاکستان میں مارشل لا لگا دیا، بعد ازاں انہوں نے ملک میں سویلین رول بحال کرنے کے بہانے ملک میں بیسک ڈیمو کریسی کا نظام لاگوکرکے اس کے تحت انتخابات کرائے۔ حالانکہ برطانوی حکومت کے جس ایکٹ کے تحت بھارت اور پاکستان وجود میں آئے تھے اس کے مطابق مقررہ مدت کے اندر دونوں ملکوں کو ’’ایک فرد ایک ووٹ‘‘ کے اصول کے تحت انتخابات کرا کے اسمبلیوں کو منتخب کرنا تھا اور ان اسمبلیوں سے اپنے اپنے ملک کے آئین کی منظوری لینا تھی، بھارت نے تو ایسا کیا مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہو سکا اور اپنی پسند کا آئین مسلط کر دیا گیا جسے قوم نے قبول نہیں کیا۔ قوم کی اس سوچ کی نمائندگی پاکستان کے ممتاز شاعر حبیب جالب نے کی جن کی یہ نظم کافی مقبول ہوئی

دیپ جس کا محلات ہی میں جلے

چند لوگوں کی خوشیوں کو لیکر چلے

وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے

ایسے دستور کو، صبح بے نور کو

میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا

اس طرح مارشل لاء کا سلسلہ چل نکلا، اس کے بعد جنرل یحییٰ کا مارشل لاء آیا جس میں مشرقی پاکستان کو الگ ہونا پڑا، اس کے بعد جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء آیا جس نے پاکستان کے اُس منتخب وزیراعظم کا دھڑن تختہ کیا گیا اور بعد میں اسے پھانسی پر چڑھایا گیا جس نے نہ صرف پاکستان کو ایٹمی پروگرام دیا بلکہ ملک کو پہلا متفقہ آئین بھی دیا۔ اس مارشل لا کے ایک دہائی کے بعد جنرل مشرف نے ملک پر چڑھائی کرکے اس پر قبضہ کرلیا، اس کے دور میں آئین میں کئی جمہوریت دشمن شقیں شامل کی گئیں جن میں سے ایک شق یہ بھی تھی کہ ملک کا صدر جس وقت چاہے، اسمبلی تحلیل کر سکتا ہے، اس شق سے اگر جان چھوٹی تو 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے۔ میں اس کالم کے ذریعے سب سے پہلے 18ویں آئینی ترمیم کی اس شق کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ میں سب سے پہلے 18ویں ائینی ترمیم کا آرٹیکل 4پیش کر رہا ہوں جس کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 6میں ترمیم کی گئی، اس میں کہا گیا ہے کہ :

Any person who abrogates or subverts or suspends or holds in abeyance or attempts or conspiros to abrogate or sub verts or suspend or hold in abeyance the constitution by use of force or show of force or by any otter unconstitutional means shall be guilty of high treason.

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ 18 ویں آئینی ترمیم کو ختم کرنے یا اس میں مطلوبہ ترامیم لانے کی جو کوششیں ہو رہی ہیں ان کا مقصد آئین کے اس آرٹیکل سے جان چھڑانا ہے۔

میں اب 18 ویں آئینی ترمیم کے آرٹیکل 19اے کا ذکر کروں گا جس کا تعلق تعلیم کے حق سے ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ

"The state shall provide free and compulsory education to all childern of the age of five to sixteen years in such manner as may be determine by law"

جہاں تک اس شق کا تعلق ہے تو یہ تو پتا نہیں کہ مرکز اور دیگر صوبوں میں اس سلسلے میں مطلوبہ قانون سازی کی گئی یا نہیں، بہرحال سندھ حکومت نے 2013ء میں اس سلسلے میں مطلوبہ قانون منظور کیا تاہم اب بھی اطلاعات ہیں کہ کئی جگہوں پر بچوں سے تعلیم کے عوض کچھ نہ کچھ رقم وصول کی جا رہی ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین