تحریر:شمیم ڈیوڈ۔۔۔لندن
تسلیمات گورنر پنجاب جناب چوہدری محمد سرور صاحب ! آپ نے 15جون بروز پیر ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے کہ صوبہ پنجاب کی تمام جامعات میں طلبہ کو قرآن پاک ترجمہ کے ساتھ پڑھائے بغیر ڈگری نہیں ملے گی۔ آپ نے یہ نوٹیفکیشن یونیورسٹیز کے چانسلر کی حیثیت سے اور جامعات کے وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز اختر کی سربراہی میں 7رکنی کمیٹی کی مشاورت کے بعد جاری کیا۔ آئینی طور پر صوبہ کے گورنر کا یونیورسٹیز کا چانسلر کا مرتبہ ایک اعزازی اور غیر انتظامی حیثیت رکھتا ہے۔ یعنی اُن کا یونیورسٹی کے روزمرہ کے عمل و امور میں کوئی دخل نہیں ہوتا۔ لہٰذا گورنر صاحب کی طرف سے ایسا نوٹیفکیشن ایک نئی ریت و رواج کی ابتدا ہے لیکن سرزمین پاک معرض وجود میں آنے کے تھوڑی دیر بعد ہی سے ہر قسم کے نت نئے تجربات کی آماجگاہ رہا ہے۔اس صورتحال کے پیش نظر ایک تجربہ اور سہی، لیکن ڈر اور خوف اس بات کا ہے آیا پاکستان اب مزید تجربات کا متحمل ہو سکتا ہے؟ اور خاص طور پر تعلیم کے میدان میں کیونکہ تعلیم قوم اور ملک کو ترقی اور کامیابی کی طرف لے کر جانے کا پہلا زینہ ہے اور ہمارا تعلیمی معیار پہلے سے ہی زبوں حالی کا شکار ہے۔ تعصب، شک و شکوک اور جانبداری سے بالاتر ہو کر دیکھا جائے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ یونیورسٹی کے طلباء ابتدائی اور ثانوی تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے تعلیمی ، ذہنی، ادبی ، مذہبی اور اخلاقی بلوغت تک پہنچ چکے ہوتے ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ اُن کی ابتدائی اور ثانوی تعلیم اتنی جامع اور معیاری ہوئی ہوگی کہ طلباء میں سوچ اور دلیل کی صلاحیتیں پورے طور پر نشو و نما پا چکی ہوں گی اور یونیورسٹی کے مرحلہ پر پہنچنے تک اُن میں اتنی پختگی ، فہم اور فطری صلاحیت اور مناسبت کا ادراک نشوونما پاچکا ہوگا کہ وہ خود تعین کر سکیں کہ انہوں نے کس شعبہ علم میں مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کرنی یا کون سے مضامین پڑھنے ہیں۔ اگر وہ خود ایسی صلاحیت نہیں رکھتے اور حکومت یا کوئی بذریعہ نوٹیفکیشن اُن پر لاگو کرے کہ آپ کیلئے فلاں فلاں مضامین لازمی ہیں تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ ابتدائی اور ثانوی تعلیم پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ جس نے طلباء کو اس قابل نہیں بنایا کہ وہ آزادانہ طور پر اپنی قابلیت اور فطری رحجان کے مطابق اپنی اعلیٰ تعلیم کا چنائو کر سکیں۔ یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم کو اعلیٰ تعلیم کا درجہ دیا جاتا ہے۔ یعنی مختلف تعلیمی شعبوں میں تعلیم کا معیار ماہرانہ ، تحقیق اور ریسرچ کی بلندیوں تک پہنچ جائے اور نتیجتاً نئی ایجادات ، سائنسی اور تکنیکی ترقی ، سوچ و افکار میں تنوع و پختگی پروان چڑھیں۔ طلباء کیلئے ایسا آزادانہ تعلیمی ماحول میسر ہو تاکہ وہ اپنے من
پسند شعبہ جات میں علم کی انتہائی حد تک مطالعہ ، تجربہ اور تحقیق کر سکیں اور نتائج اخذ کر سکیں۔ لہٰذا اگر کوئی یونیورسٹی کا طالبعلم ریاضی میں مہارت حاصل کرنا چاہتا ہے اُس پر یہ پابندی عائد کرنا کہ جب تک تم قرآن پاک باترجمہ نہیں پڑھو گے تم کو ریاضی کی ڈگری نہیں دی جائے گی۔ اِس سطح کی اعلیٰ تعلیم کے ساتھ زیادتی اور نا انصافی ہوگی۔ منطقی طور پر بحث کو بڑھایا جائے تو اگر کوئی طالبعلم اسلامیات یا قرآن پاک کے حوالہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہے تو اُس پر یہ پابندی ناجائز ہوگی جب تک وہ فزکس نہ پڑھے اُس کو ڈگری نہیں دی جائے گی۔ یونیورسٹی کی سطح پر طلباء میں اتنی بلوغت ہونی چاہئے اور ان کو اتنی اجازت اور آزادی ملنی چاہئے کہ وہ اپنی تعلیمی پسند اور ترجیحات کی سمت کا خود تعین کر سکیں۔ ہمارے ماہر تعلیم ، دانشور اور صحافی اس بات کی طرف اشارہ بھی کرتے ہیں کہ ہماری جامعات میں ریسرچ ، تحقیق و تجربات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پاکستان میں ایسی یونیورسٹیز جو تحقیق اور ریسرچ میں بین الاقوامی شہرت رکھتی ہوں تقریبا ً نہ ہونے کے برابر یا آٹے میں نمک کی حد تک محدود ہیں۔ ہمارا تعلیمی معیار بہت پست حالی کا شکار ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ہماری جامعات سے حاصل کردہ ڈگریوں یا اسناد کی کوئی قدر و منزلت نہیں۔ گورنر صاحب آپ نے بحیثیت چانسلر نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے مزید فرمایا ہے کہ " قرآن مجید ہمارے لئے اصل رہنمائی کا ذریعہ ہے۔ قرآن پاک کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ہی دنیا اور آخرت سنواری جا سکتی ہے"۔ یقینا قرآن پاک نیکی اور پرہیزگاری اور انبیاء کرام کی فرمودات کاذخیرہ و مجموعہ ہے اور گورنر صاحب کا کہنا بجا ہے کہ مسلمانوں کیلئے ان تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ہی دنیا اور آخرت سنواری جا سکتی ہے۔ ہم نے پاکستان کی 73سالہ تاریخ میں قرآن پاک کی تعلیمات کو با آواز بلند ہوتے صرف سنا ہی ہے، ان پر کبھی عمل ہوتے نہیں دیکھا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے ٹاک شوز ، اخبارات اور نامی گرامی ہستیوں کے منہ سے احادیث اور قرآن پاک کے ارشاد سنے ضرور ہیں اُن پر کبھی عمل ہوتے نہیں دیکھا۔ گورنر صاحب اپنے نوٹیفکیشن میں قرآن باترجمہ پڑھائے جانے سے زیادہ پڑھے ہوئے پر عمل کرنے پر زیادہ زور دیتے تو ملک اور قوم کی بڑی خدمت ہوتی۔ گورنر پنجاب جناب محمد سرور اگر آپ نے پنجاب کے شہریوں کی دنیا اور آخرت سنوارنے کا بیڑا اٹھایا ہی ہے تو مذہبی اقلیتوں کے شہریوں سے ایسی بے رُخی و بے اعتنائی کیوں؟ آپ اُن کے بھی اتنے ہی گورنر ہیں جتنے اکثریت کے ہیں۔ آپ کی قیادت میں مذہبی اقلیتیں دنیا اور آخرت سنوانے کی مہم سے کیوں باہر کر دی گئی ہیں؟ اِن مذہبی اقلیتوں کی بھی اپنی مقدس کتب ہیں جن سے رہنمائی حاصل کر کے اور عمل پیرا ہو کر وہ دنیا اور آخرت سنوار سکیں۔ اُن کے حوالہ سے آپ نے اپنے نوٹیفکیشن میں ذکر نہیں فرمایا۔ گورنر صاحب اِس کار ِ خیر میں پاکستان کی مذہبی اقلیتوں سے اس قسم کا امتیاز اور سوتیلی ماں جیسا سلوک بذات ِ خود اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔