• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاست کی شاہراہ کبھی ہموار نہیں ہوتی کہیں اچانک موڑ، کبھی اچانک نشیب و فراز، کبھی کبھی دل کی دستک کو فراموش کرکے اور حق کی آہٹ نظرانداز کرکے بھی مصلحتوں اور ذاتی مفادات کیلئے در وا کرنا پڑتا ہے۔ سیاست کے اس کلچر میں اور قیادت کے اس کھیل میں سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن منفرد اور مثالی تھے۔ یوں کہہ لیجئے کہ سیاست سید منور حسن کا شوق نہیں ذوق تھا سو جتنی کی عبادت سمجھ کر کی، عادت سمجھ کر نہیں!

جب جامعہ کراچی کی طرف خیال جاتا ہے تو کئی طالب علموں رہنماؤں کی طرف دھیان جاتا ہے اور دل طلبہ سیاست کی یاد میں انگڑائی لیتا ہے، سید منور حسن چھاتہ بردار لیڈر نہ تھے، کسی خانقاہی نظام سے آئے نہ وراثت اور میراث ہی کا کوئی ٹیگ ان کے ساتھ تھا۔ طلبہ سیاست سے آغاز تھا اور وہ بھی بائیں بازو کی سیاست سے، گویا ابتدا این ایس ایف کے پلیٹ فارم سے کی اور اپنا سکہ جمایا، ایسا ویسا نہیں خوب جمایا، پوری لیڈری چمکائی !

فہم و فراست اور صداقت کو سنگ سنگ رکھنے کی پاداش میں جونہی سید منور حسن کی آنکھیں سید ابوالاعلیٰ مودودی کے لٹریچر سے دوچار ہوئیں تو اسی اسلامک چوکھٹ کے ہوکر رہ گئے۔ اسلامی جمعیت طلبہ سے قربتیں بڑھیں پھر وہی عروج بلکہ ماضی کی نیشنل اسٹوڈنس فیڈریشن سے بڑھ کر جمعیت میں پایا، جامعہ کراچی طلبہ یونین کی صدارت مقدر بنی۔ این ایس ایف میں مارکسزم، لیننزم یا کیمونزم کے ساتھ چلے تو دل و جان سے چلے۔ سن 1960 میں جمعیت کی رفاقتوں میں بھی زبان و بیان اور قول و فعل میں تضاد نہیں رکھا۔ سید مودودی کے علاوہ نعیم صدیقی کی تحریروں سے بھی متاثر تھے۔ اسلامی جمعیت طلبہ سے جماعت اسلامی کے کارواں میں شامل ہوئے۔ سن 1992 میں جماعت کے مرکزی جنرل سیکرٹری اور 2009 میں امیر جماعت اسلامی بنے۔

پرسوں ایک ٹی وی ٹاک شو میں بیٹھے بیٹھے انکشاف ہوا کہ ان کے بیٹے کی شادی پر جو تحفے تحائف لوگوں نے انہیں دئیے، وہ سب بیٹے کو یہ کہہ کر جماعت اسلامی کے بیت المال میں جمع کرا دیے کہ ’’یہ تحائف سید منور حسن یا اس کے بیٹے کو نہیں ملے امیر جماعت اسلامی کو ملے ہیں‘‘۔ الیکشن 2013 میں جب جماعت اسلامی کے نتائج توقع کے برعکس رہے تو جماعت اسلامی کی امارت سے استعفیٰ پیش کرنے کے درپے تھے تاہم مرکزی شوریٰ نے اس عمل سے روک دیا۔ عمرانیات اور اسلامیات میں ایم اے کرنے والا پورے زمانہ طالب علمی میں ہیرو تھا۔

بیگم عائشہ منور الیکشن 2002 میں ایم ایم اے کے پلیٹ فارم پر خواتین نشست پر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئیں، خود 2002 کے الیکشن میں چند ووٹوں سے ایم کیو ایم کے امیدوار سے ہارے، ہاں 1977 کے الیکشن میں جب ممبر قومی اسمبلی بنے تو ریکارڈ ووٹ حاصل کئے۔ مگر سادگی اور عاجزی کا چولی دامن کا ساتھ رہا۔ چھوٹا سا گھر بڑے آدمی کی رہائش گاہ ہونے پر شاداں و فرحاں تھا۔

آج کے سیاسیات کے طالب علم کو کہوں گا کہ سید منور حسن، معراج محمد خان اور نفیس صدیقی کا آج شمار بھی پولیٹکل سائنس میں ہوتا ہے، جنہوں نے یہ مضمون نہ پڑھا ان کی تعلیم میں ایک مخصوص وٹامن کی کمی رہ گئی بلکہ درخواست تو جرنلزم کے اسٹوڈنٹس سے بھی یہی ہے کہ یہ وہ مضمون کہ امتحانی بھی ہے اور کامرانی بھی۔ وہ زمانے گئے جب یونیورسٹیاں طالبعلم رہنما تراشتی تھیں اب تو کم و بیش ’’ہوم ڈیلیوری‘‘ کا زمانہ ہے۔ تحریکی و تنظیمی جدوجہد کا قحط ہے لیکن ’’سیاسی‘‘ جدوجہد کا سیلاب۔ گملے کے پودے پھلدار شجر بنا کے پیش کئے جارہے ہیں اور اشجار گملوں میں مقید ہیں۔ تبھی تو سیاست کے جسم میں نظریہ کی روح کا فقدان ہے اور ایکوسسٹم جمہوری کلچر سے نابلد۔ یار لوگوں نے قول و فعل کے بدصورت امتزاج کو سیاست بنارکھا ہے۔ تھوڑا سا عرض کردوں جب سید منور حسن بائیں سے دائیں بازو کی سیاست کے شہسوار بنے ٹھیک اسی وقت نفیس صدیقی دائیں سے بائیں میں منتقل ہوئے۔ تاہم صرف راہیں بدلیں تنظیمی اور سوشل دوستیاں اپنی اپنی جگہ پکی رہیں۔ جب معراج محمد خان کی طرف نظر جاتی ہے تو ان کی ابتدائی گود تو مذہبی ہی تھی تاہم لیفٹسٹ کا استعارہ بنے جن کا احترام بائیں بازو میں بھی تھا۔ سید منور حسن کے دنیا سے رخصت کرنے کے بعد آج جناح، بھٹو، بےنظیر بھٹو، نوابزادہ نصراللہ، قاضی حسین احمد، خان عبدالغفار، مولانا نورانی، مفتی محمود اور ڈاکٹر خان بھی بطور مضمون یاد آ رہے ہیں۔ یہ سب لوگ شائستگی، بحث و تمحیص کی علمبرداری، صبر، ہنر اور وضع داری کا نصاب اور اسباق تھے جس کی کمی رفتہ رفتہ شدت اختیار کئے ہوئے ہے۔

سید منور حسن کے ہاں دوستیوں میں مزاج میں ریشم سی نرمی اور نظریات میں فولاد سی سختی اپنی اپنی راہ پر رہیں اور منزل کی جانب بڑھنا اور سعی نہیں چھوڑی۔ سید منور حسن کی تقریر میں موجود خوش الحانی اور لحن داؤدی کی ایک چاشنی کا میں بھی قائل تھا وہ جہاں اس سے دل موہ لیتے وہاں اپنے نظریاتی سیاق و سباق سے حیران و پریشان اور ناراض بھی کرلیتے۔ میں نے بھی کبھی ان کو پڑھا، جماعت اسلامی کے دو اجتماع عام میں ان کے موقف اور تقریروں قریب سے سمجھنے کی کوشش کی، ان سے کئی اختلاف رکھنے کے باوجود راقم کہے گا کہ بہرحال وہ تنگ نظر نہ تھے لیکن بیک وقت اُپی تلوار جو غمِ دوراں و غمِ جاناں سے آشنا بھی۔ لیڈران کے خیالات و نظریات سے اختلاف ممکن ہے مگر منور حسن کے ہاں قلب اور زبان کی رفاقت کا ہم رنگ ہونا وہ چیز تھی کہ چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے۔۔۔ معلوم ہے کہ وہ بطور امیر جماعت اسلامی بھی ایک سیاسی موڑ پر ترش اور تلخ بات کہہ گئے جس سے ناصرف بحث کے دریچے کھلے ان کی ذات پر قومی و بین الاقوامی سطح پر تنقید ہوئی، ضروری نہ تھا کہ وہ دہشت گردی اور دہشتگردوں کے حوالے سے اپنوں کو موردالزام ٹھہراتے۔ سیاست ہو کہ عبادت، راحت ہو کہ چبھن یا چاہت کچھ مقام اور ذمہ داریاں بہرحال حکمت اور مفاہمت کا درست تقاضا رکھتی اور کرتی ہیں۔ خیر:

جا بجا میلے لگے ہیں لال ہونٹوں کے منیرؔ

تیرگی میں دیکھنے کو چشمِ بینا چاہیے

تازہ ترین