• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس: افواہیں، غلط اطلاعات ڈیپریشن کا سبب بن رہی ہیں

گزشتہ برس کے آخر میں چین سےپھیلنے والے کورونا وائرس نے مختصر سی مدّت میں دُنیا بَھرکو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔پاکستان میں اس وبا کا آغازفروری کے مہینے میں ہوا، جب ایران سے واپس آنے والےکراچی کے نوجوان نے طبیعت ناساز ہونے پر ایک نجی اسپتال سے اپنا ٹیسٹ کروایا، توپتا چلا کہ وہ کورونا پازیٹیو اور پاکستان کا پہلا تشخیص شدہ مریض ہے۔ اس کے بعد مُلک کے دیگر شہروں سے بھی کیسز رپورٹ ہونے لگےاور اب تو صُورتِ حال دن بدن بگڑتی ہی چلی جارہی ہےکہ مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس نئے وائرس سے متعلق جامع معلومات دست یاب نہ ہونے کےنتیجے میں کئی افواہیں اورغلط اطلاعات بھی زیرِگردش ہیں،جو ڈیپریشن، اینزائٹی اور خوف کا سبب بن رہی ہیں۔ 

مثلاً ’’ٹیسٹ کے نتائج درست نہیں آتے،مریض کوگھر میں رکھیں کہ اسپتال میں داخلے کی صُورت میں وہ اہلِ خانہ سے بالکل کٹ کر رہ جاتا ہے،خواہ کسی دوسرےمرض سے مریض کا انتقال ہو، مگر ڈیتھ سرٹیفکیٹ میں موت کی وجہ کووڈ-19لکھی جارہی ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ،لہٰذا ذیل میں اہم درست معلومات طبّی ماہرین کی آراء کی روشنی میں سوالاً جواباً شایع کی جارہی ہیں تاکہ افواہوں اور غلط اطلاعات کی بیخ کنی ہوسکے۔

س:کووڈ-19کی درست تشخیص کے لیے پی سی آر اور اینٹی باڈی اسکریننگ میں سے کون سا ٹیسٹ مستند ہے؟

ج:اس وقت کوروناوائرس کی تشخیص کے لیے دو اقسام کے ٹیسٹ کیے جارہےہیں۔ ایک اینٹی باڈی اسکریننگ اور دوسرا پی سی آر(Polymerase Chain Reaction)۔ہمارے جسم میں جب کوئی وائرس یا بیکٹیریا داخل ہوتا ہے، تو قدرتی طور پرہمارا امیون سسٹم اس وائرس سے دفاع کے لیے اینٹی باڈیز بنانا شروع کردیتا ہے۔اسی لیے کورونا وائرس کی تشخیص کے لیے مشتبہ فرد کے خون کا نمونہ لے کراینٹی باڈی ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔لازم نہیں کہ اگر کسی کی رپورٹ مثبت آجائے، تو وہ کورونا وائرس ہی کا شکار ہو،کیوںکہ یہ ٹیسٹ دیگرکئی متعدّی امراض کی تشخیص کے لیے بھی مستعمل ہے۔

علاوہ ازیں، یہ ٹیسٹ صرف یہ بتاتا ہے کہ کیا آپ کا جسم وائرس کا شکار ہوا اور اس نے اس وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز بنائیں،جب کہ پی سی آر ٹیسٹ کے لیے منہ یا ناک سے رطوبت لے کر وائرس کی جانچ کی جاتی ہے۔یہ ٹیسٹ 99.9 فی صد درست نتائج دیتا ہے۔چوں کہ اینٹی باڈی اسکریننگ ،پی سی آر کی نسبت آسان اور سستا ٹیسٹ ہے، اس لیے زیادہ تر افراد یہ ٹیسٹ کروا رہے ہیں۔

س:اگر کسی فرد میں کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہوں یا وہ کسی مریض سے رابطے میں ہو، تو اس کے لیے ٹیسٹ کروانا کتنا ضروری ہے؟

ج:دونوں صُورتوں میں ٹیسٹ ناگزیر ہے۔عمومی طور پرپی سی آر کی رپورٹ آنے تک مریض کو آئیسولیٹ کر دیا جاتا ہے، تاکہ پازیٹو ہونے کی صُورت میں اہلِ خانہ اور دیگر افراد محفوظ رہ سکیں۔لیکن اگر کوئی فرد ٹیسٹ نہیں کرواتا ، تو خود کوکم از کم تقریباً 10سے14روز کے لیے ایک الگ تھلگ کمرے میں آئیسولیٹ کرلے۔

س:علامات کے باوجود اگر کسی کی ٹیسٹ رپورٹ نیگیٹو آجائے،تو کیا یہ فرد کسی دوسرے صحت مند فرد کو متاثر کرسکتا ہے؟

ج:بعض کیسز میں مریض کےکورونا پازیٹیو ہونے کے باوجود پی سی آر ٹیسٹ نیگیٹیو آسکتا ہے،کیوں کہ ہر ٹیسٹ کی طرح اس میںبھی غلط مثبت یا غلط منفی آنے کا امکان پایا جاتا ہے۔ تاہم، اینٹی باڈی اسکریننگ کے مقابلے میں پی سی آر کے غلط مثبت آنے کا امکان نہ ہونے کے برابرہے،البتہ غلط منفی آنے کا امکان 30فی صد تک ہو سکتا ہے۔یعنی اگر ٹیسٹ منفی آجائے، تو بھی ایسے ایک سو مریضوں میں سے 30کو کورونا وائرس ہوسکتا ہے۔ اس صُورت میں علامات اور مختلف ٹیسٹس خصوصاً ایکسرے اور سی ٹی اسکین دیکھ کر حتمی تشخیص کی جاتی ہے۔

س:اگر کوئی فرد کسی اور مرض میں مبتلا ہو، تو کیا اس کا بھی کورونا وائرس ٹیسٹ کیا جاتا ہے؟

ج:اس وائرس کی علامات خاصی مختلف ہیں، جیسے خشک کھانسی، نزلہ، گلاخراب ہونا، سَر درد اور پیٹ کی خرابی وغیرہ،نیز اس کی وجہ سے فالج یا ہارٹ اٹیک بھی ہوسکتا ہے، لہٰذا ان تمام علامات بشمول فالج اور ہارٹ اٹیک کے ساتھ جو مریض اسپتال آرہاہے، اس کا کوروناٹیسٹ لازمی کیا جاتا ہے۔

س:اگر پی سی آر میں کوروناوائرس کی تشخیص ہوجائے، علامات ختم ہونے یا بغیر علامات کے آئسولیشن کی مدّت مکمل ہونے کے بعد دوبارہ ٹیسٹ ضروری ہے؟

ج:نہیں۔سوائے مخصوص افراد کےعمومی طور پر ایک خاص مدّت کے بعد یہ ٹیسٹ کروائے بغیر آئسولیشن ختم کی جاسکتی ہے۔

س:آئسولیشن اختیار کرنے کا درست طریقۂ کار کیا ہے؟

ج:کسی بھی متعدّی مرض کی تشخیص کے بعد مریض کو دیگر افراد سے الگ تھلگ رکھنا آئسولیشن ہے۔اورآئسولیٹ ہونے کا درست طریقہ یہ ہے کہ مریض ایک مخصوص مدّت تک کمرے میں(جس میں باتھ روم بھی موجودہو) رہے اوردروازہ بند رکھے۔مریض کے کپڑے، ادویہ، ضروری استعمال کی اشیاء بھی کمرے کے اندر ہی رکھ دی جائیں۔نیز،اس کے پاس تھرمامیٹر،پلس آکسی میٹر( Pulse Oximeter )موجود ہو اور اسے استعمال کا طریقہ بھی معلوم ہو۔ کھانا،پانی یا کوئی اور چیز کھڑکی کے ذریعے دیںیا پھردروازے کے آگے رکھ دیں، تاکہ مریض دروازہ کھول کے اُٹھالے۔ 

علاوہ ازیں، مریض کھانے پینے کے برتن کمرے کے اندر ہی دھولے،تو زیادہ بہتر ہے۔لیکن اگر مریض دروازے کے باہرکوئی چیز رکھے، تو اسےکم از کم 10گھنٹے بعد اُٹھائیں۔ مریض سےمستقل فون پر رابطے میں رہیں، جب کہ مریض خود بھی ایسی علامات سے آگاہ ہو، جن کے ظاہر ہونے پر اسپتال جانا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ ایمرجینسی کی حالت میں اگر کسی کو کمرے کے اندر جانا پڑ جائے، تواپنے حواس قابو میں رکھ کر ماسک اور دستانے پہن کر جائیں۔

س:پلس آکسی میٹرکیا ہے؟

ج:یہ سیل کے ذریعے چلنے والا ایک آلہ ہے، جو خون میں آکسیجن کا تناسب جانچنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ آلہ انگلی پر لگایا جاتا ہے، جس کے چند سیکنڈ بعد اس پر ایک ہندسہ نمایاں ہوتا ہے، جو خون میں آکسیجن کی فی صد مقدار یاOxygen Saturation ظاہر کرتا ہے۔ اگر یہ تناسب94فی صد سے کم ہو، تو اس کا مطلب ہے کہ مریض کوآکسیجن کی ضرورت ہے۔ اس صُورت میں فوری طور پر ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔واضح رہے کہ نیل پالش، منہدی لگی ہونے یا تیز روشنی میں اس کی ریڈنگ میں فرق آ سکتا ہے۔

س:آئسولیشن کب ختم کرسکتے ہیں؟

ج:جب علامات شروع ہوئے کم از کم10دِن گزر جائیں یا علامات ختم ہونے کے 3دِن بعد۔ بعض کیسز میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں، لہٰذا اس صُورت میں وائرس تشخیص ہونے کے 10 دِن بعد آئسولیشن ختم کی جاسکتی ہے۔

س:کیا آئسولیشن ختم ہونے کے بعد بھی مریض کو معالج سے رابطے میں رہنا چاہیے؟

ج:اگر چار ہفتے بعد بھی سانس پھولے اور سینے میںدرد محسوس ہو ، تو معالج سے لازماً رجوع کیا جائے، تاکہMicrothrombosisکی جانچ کی جاسکے۔ اِسی طرح جن مریضوں میں پہلے ایکس رے میں نمونیا یا پھیپھڑوں کی بیماری تشخیص ہوئی ہو، انہیں6سے8ہفتے بعد ایک بار پھر ایکس رے کروا کے معالج کو دکھانا چاہیے۔ علاوہ ازیں، بیماری کے دوران مریض اپنی پُرانی بیماریوں مثلاً ذیابطیس، بُلند فشارِ خون اور کولیسٹرول کو قابو میں رکھے،جس کے لیے معالج سے رابطے میں رہنا ضروری ہے۔

س:کن مریضوں کے لیےآئسولیشن کے بعد دوبارہ پی سی آر کروانا ضروری ہے؟

ج:سرطان سے متاثرہ مریض، جو کیموتھراپی کروارہے ہوں، اسٹرائڈز استعمال کرتے ہوں، طبّی عملہ اور وہ افراد جو ہجوم والی جگہ میں رہتے ہوں(جیسے جیل خانہ یا ہاسٹل) مقررہ مدّت کے بعد 12گھنٹے کے وقفے سے دوبار پی سی آر کروائیں۔اگر رپورٹ منفی آئےتو آئسولیشن ختم کردیں ۔

س:یہ تاثر عام ہے کہ اگرکورونا وائرس سے متاثرہ مریض کو اسپتال لے جائیں، تو مریض اہلِ خانہ سے بالکل کٹ کر رہ جاتا ہے، تو کیا گھر میں علاج کروایا ممکن ہے؟

ج:گھر میں جس حد تک علاج ممکن ہو، ضرور کیا جائے، لیکن بعض علامات مثلاًسانس پھولنے لگے، کھانسی کی شدّت بڑھ جائے، سانس کی رفتار تیز ہو جائے، سینے میں درد محسوس ہو، جسم نیلا پڑجائے، غنودگی طاری ہونے لگے،پیشاب کم آئے،زبان خشک اور آنکھیں اندر دھنس جائیں تو بنا کسی تاخیر کے، مریض کو اسپتال لے جائیں۔

س:مریض کو گھر پر آکسیجن کیسے لگائی جائے؟

ج:اس کےدو طریقے ہیں۔ ایک تو یہ کہ گھر میں دو آکسیجن سلینڈررکھے جائیں، تاکہ جب ایک استعمال کیا جارہا ہو، تو دوسرا آکسیجن بَھرنے کے لیے دے دیا جائے۔ سلینڈر میں ایک نلکی لگائی جاتی ہے، جس کے دوسرے سَرے پر ناک میں لگانے والی نلکیاں یا پھر ماسک ہوتا ہے،لہٰذا یہ لازمی چیک کرتے رہیں کہ کہیں آکسیجن لیک تونہیں ہورہی ۔ نیز،اس کے قریب کوئی آگ والی چیز مثلاً ماچس، سگریٹ، الکوحل، لائٹر یا تیل وغیرہ ہرگز نہ رکھیں۔آکسیجن سلینڈر زبجلی کے بغیر کام کرتے ہیں۔ 

دوسرےطریقۂ کار میں آکسیجن کنسنٹریٹر استعمال ہوتا ہے،جو سلینڈر کی نسبت زیادہ منہگا ہے اوربجلی کے ذریعے چلتا ہے۔یہ خود کار طریقے سے اردگرد کےماحول کی ہوا سے آکسیجن خودالگ کرتاہے۔ آکسیجن سلینڈر اور کنسنٹریٹر دونوں کے ساتھ ڈائل فلو نصب ہوتا ہے،جو یہ بتاتا ہے کہ جسم کے اندر آکسیجن کتنی مقدار میں جا رہی ہے۔ اسے کوئی بھی فرد خود سیٹ کر سکتا ہے۔ عموماً مریض کو آکسیجن دو لیٹرفی منٹ کے حساب سے فراہم کی جاتی ہے۔ اگر آکسیجن سیچوریشن گر رہی ہو، تو اسےایک یا دو لیٹر کرکے بڑھاتے جائیں۔

س:وینٹی لیٹر کی ضرورت کب پیش آتی ہے؟

ج:وینٹی لیٹر ایک پیچیدہ مشین ہے، جس کے تین بڑے حصّے آکسیجن سلینڈر، کمپریسر اور کمپیوٹرہیں۔ایک نلکی مریض کے ناک یا منہ کے ذریعے پھیپھڑوں تک پہنچائی جاتی ہے، جس کے بعد کمپریسر کے ذریعے آکسیجن سلینڈر سے آکسیجن براہِ راست مریض کے پھیپھڑوں تک فراہم کی جاتی ہے۔ ایک اور نلکی پھیپھڑوں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ نکال کر باہر خارج کرتی ہے۔ اگر سانس لینے کا عمل مکمل طور پر معطل ہوجائے، تو وینٹی لیٹر کے ذریعے پریشر کے ساتھ آکسیجن فراہم کی جاتی ہے۔

وینٹی لیٹر لگانے کے لیے سانس کی دُشواری، خون میں آکسیجن کاتناسب اور دیگر علامات کی جانچ کی جاتی ہے۔ عام طور پر اگر سانس لینے میں دشواری محسوس ہورہی ہو،تو پہلے سادہ طریقے سے آکسیجن فراہم کی جاتی ہے، آرام نہ آنے کی صُورت میں Non Invasive Ventilation کے ذریعے کوشش کی جاتی ہے۔ اس سے بھی سانس لینے میں دشواری ہو،تب وینٹی لیٹر لگایا جاتا ہے۔ وینٹی لیٹر کبھی بھی بلاوجہ یا شوقیہ طور پر نہیں لگایا جاتا کہ یہ ایک انتہائی ذمّے داری کا کام ہے۔

س:کیا وینٹی لیٹر کے ذریعے پریشر دینے کے باعث پسلیاں ٹوٹ جانے کا خطرہ ہوتا ہے؟

ج:وینٹی لیٹر کے ذریعے پریشر کے ساتھ آکسیجن فراہم کی جاتی ہے،لیکن یہ پریشر تجربہ کار طبّی عملہ بہت جانچ پڑتال کے بعدسیٹ کرتاہے،لہٰذا پسلیاں ٹوٹنے کاکوئی خطرہ نہیں ہوتا،البتہ وینٹی لیٹر کے سائیڈ ایفیکٹس ضرور ہوتےہیں۔جیسے کوئی انفیکشن وغیرہ ہوجانا۔ اس لیے وینٹی لیٹر لگانے کا فیصلہ مریض کی جان بچانے کے لیے حتی الامکان بہت آخر میں کیا جاتا ہے۔

س:کیا پہلے سے بیمار اور ساٹھ برس سے زائد عُمر کے افرادمیں کورونا وائرس سےہلاکت کی شرح بُلند ہے؟

ج:اگرچہ زیادہ شرح بیمار اور بڑی عُمر کے افراد ہی کی ہے، لیکن اس بیماری سے جوانوں کی بھی اموات بھی ہو رہی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ جن افراد کو بھی بچایا جا سکتا ہے، ان کے لیےحتی الامکان احتیاطی تدابیر اختیارکرنی چاہئیں، اس ایمان کے ساتھ کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے اوربہرحال ہر تدبیر کرنے کا حکم ہمیں اللہ اور رسولﷺ نے دیا ہے۔

س:ہمارےیہاں یہ تصوّر عام ہورہا ہے کہ کسی بھی مرض میں مبتلا مریض کو اسپتال لے جائیں ، اُسے کورونا وارڈ ہی میں داخل کرلیا جاتا ہے اور یہ کہ مریض کا انتقال کسی بھی وجہ سےہو ،ڈیتھ سرٹیفکیٹ میں موت کی وجہ کووڈ-19ی لکھی جارہی ہے،کیا ایسا ہی ہے؟

ج:جب کوئی وبا پھوٹتی ہے، تو ہر مریض کو اس وبائی مرض کے لیے مشتبہ سمجھا جاتا ہے،لہٰذا اگر کسی اور مرض میں مبتلا مریض کا کووڈ-19ٹیسٹ بھی مثبت آجائے، توبہرحال اُسے کورونا وارڈ ہی میں داخل کیا جائے گا، تاکہ احتیاط کے تمام تقاضے پورے ہوں اور پھر وبا کے دوران اس کی وجۂ موت بھی یہی لکھی جاتی ہے۔

س:کیااس وبائی آفت میں اسپتالوں کی فنڈنگ میں بہت اضافہ ہوا ہے اور ڈاکٹرز کو اضافی پیسے مل رہے ہیں؟

ج:حکومت نے اسپتالوں کو اضافی فنڈز ضرورفراہم کیے ہیں، تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد کے کورونا ٹیسٹس کیے جائیں،علاج معالجے کی سہولت فراہم کی جاسکے اورمتعدّد اسپتالوں میں زیادہ ٹیسٹس ہورہے ہیںاور علاج معالجہ بھی کیا جارہا ہے۔تاہم جو اسپتال زیادہ ٹیسٹنگ اور علاج معالجےکی سہولت فراہم نہیں کررہے ہیں، اُن پر یہ ذمّے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ جلد انتظامات مکمل کر کے کام شروع کردیں۔مگر مریضوں کو بھی اطمینان رکھنا چاہیے کہ بہرکیف معالجین کی پہلی ترجیح مریضوں کی جان بچانا ہے، لہٰذا ان پر اعتماد کیا جائے۔

س:کورونا وائرس سے اموات کی شرح صرف دو فی صد ہے،تو پھر مُلک کو معاشی، تعلیمی اور معاشرتی نقصان میں کیوں ڈالاجارہا ہے؟

ج:یہ بات درست ہے کہ ہمارے مُلک میں کورونا وائرس کی شرحِ اموات کم ہے۔ لیکن اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ کیسز میں اضافے کے ساتھ شرحِ اموات بھی بڑھ رہی ہے۔پھریہ اموات جن گھرانوںمیں ہوئی ہیں، ان کے عزیزوں کے لیے یہ معمولی شرح بھی اہم ہے۔ نیز،جو مریض گھر وںپرہیں، ان کے اہلِ خانہ کی مصروفیات، اسپتال میں داخلے کی صُورت میں مالی اخراجات اور خود مریض کی تکالیف نظر انداز نہیں کی جاسکتیں۔ اس لیے جو اقدامات کیے جارہے ہیں، وہ وقت کا تقاضا ہیں۔

س:کورونا وائرس سے متاثرہ مریض ڈیپریشن اور ذہنی تناؤ میں مبتلا نہ ہوں، اس کے لیے کیا کیا جائے؟

ج:مریض کی حوصلہ افزائی کریں۔ آئسولیشن کے دوران کمرے سے باہر کی ضروریات پوری کریں۔ وقفے وقفے سےمریض کا حال پوچھتے رہیں اور رہنمائی کریں۔کسی بھی مریض کو مجرم سمجھیں،نہ حقارت اور تضحیک کی نگاہ سے دیکھیں۔ دس دِن گزرجانے کے بعد وہ بھی ایک عام فردکی طرح ہیں، جن سے آپ معمول کی احتیاط برتیں گے اور وہ آپ سے۔

تازہ ترین