ترقیاتی بجٹ ایسے منصوبوں پر خرچ ہو جن میں بڑی تعداد میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔ زرعی شعبہ اس کے لیے بہترین ہے ہم زرعی ملک ہیں خوراک کی خود کفالت بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ زراعت کو پانی کی قلت کا مسئلہ درپیش ہے۔ نہروں کی صفائی اور پختگی پر توجہ دی جائے۔ دیہی علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر کی جائے، چھوٹے چھوٹے راستے بنائے جائیں۔ شہروں میں صفائی اور درخت لگانے کی مہم شروع کی جائے
ڈاکٹر حفیظ پاشا
عالمی منڈی میں تیل کی کمی کا فائدہ صنعتوں کو نہیں ملا۔ نہ ہی بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کمی کی گئی۔ اب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا لازمی اَثر بجلی، گیس کے نرخوں میں بھی آئے گا اور ان میں مزید اضافہ ہوگا۔ انڈسٹری پہلے ہی عالمی مارکیٹ کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ مزید اضافہ ہماری برآمدی انڈسٹری کی تباہی کا سبب بنے گا
زبیر طفیل
بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں ہے۔ وصولیوں کا ہدف زیادہ رکھا ہے لیکن وہ اس مفروضے پر ہے کہ کورونا وبا پر قابو پانے کی صورت میں معیشت بحال ہوگی تو ٹیکس آمدنی میں بہتری آئے گی۔ ابھی لاک ڈائون کا زور ہے ملک میں اسمارٹ لاک ڈائون کیا جا رہا ہے۔ یہ بھی حکمت عملی بہتر ہے تا کہ معاشی سرگرمیاں جاری رہیں
عارف حبیب
بجٹ میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ حکومت کے اخراجات صرف 2فی صد بڑھیں گے جب کہ موجودہ حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ بہت مشکل اور غیر حقیقی دکھائی دیتا ہے، کیوں کہ بے روزگاری میں اضافہ ہو گا۔ اسی طرح ایس ایم ایز کی ترقی کے لیے اضافی مراعات نہیں دی گئیں۔ پھر انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ اور صحت کے حوالے سے بھی بجٹ بہت معمولی ہے ، حکومت کو معیشت کو توانا بنانے کے لیے اس مد میں ہونے والے اخراجات میں اضافہ کرنا ہو گا
عبدالقادر میمن
پاکستان کے نئے مالی سال کا بجٹ قومی اسمبلی سے پاس ہو چکا ہے۔ بجٹ تجاویز کے بعد حکومتی اراکین اور حزب اختلاف نےکھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ تاہم بجٹ میں کوئی بڑی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔ حزب اختلاف نے بجٹ کو مایوس کن، عوام دُشمن اور ناکام پالیسی قرار دیا ہے ان کا مؤقف ہے کہ بجٹ میں عوام اور کاروباری طبقے کو ریلیف مہیا نہیں کیا گیا ہے۔ کورونا وبا کی صورت حال میں صحت عامہ کو بہتر کرنے پر بھی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ بجٹ اعداد و شمار کا گورکھ دھندا سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
جس کا ثبوت یہ ہے کہ حکومت نئے بجٹ کو ٹیکس فری قرار دے رہی تھی اور ابھی بجٹ پاس بھی نہیں ہوا تھا کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا اور اس میں ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس حکومت کا کہنا ہےکہ بجٹ متوازن ہے کورونا وبا کے پیش نظر ریلیف کے اقدامات کئے گئے ہیں۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ عالمی منڈی کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔
بجٹ موجودہ معاشی صورت حال سے نمٹنے کی کتنی صلاحیت رکھتا ہے یہ جاننے کے لیے ایک ٹیلی فونک جنگ فورم کا انعقاد کیا گیا۔ فورم میں سابق وفاقی وزیر خزانہ اور سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر حفیظ پاشا، ایف پی سی سی آئی کے سابق صدر زبیر طفیل، عارف حبیب گروپ کے چیئرمین عارف حبیب اور پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے صدر عبدالقادر میمن نے اظہار خیال کیا۔ جنگ فورم کی تفصیلی رپورٹ پیش خدمت ہے۔
عبدالقادر میمن
صدر پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن
ہم سب جانتے ہیں کہ وفاقی بجٹ 2020-21ء غیر معمولی حالات میں پیش کیا گیا۔ عالمگیر وبا کووڈ 19کے دور میں اقتصادی طور پر بے یقینی پائی جاتی ہے۔ موجودہ صورت حال میں ان ڈائریکٹ ٹیکسز پر انحصار کم کرنے، جن کا تناسب اب 59فی صد ہے، اور آمدن پر ڈائریکٹ ٹیکس کا دائرہ وسیع کرنے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ ٹیکس کے نظام میں برابری لائی جا سکے۔ اگر آئندہ مالی سال کے بجٹ پر نظر ڈالی جائے، تو پتا چلتا ہے کہ اب ٹیکس نیٹ میں اضافے کے لیے بینکنگ کمپنیز کو ان تمام ٹیکس دہندگان کی فہرست فراہم کرنا ہو گی، جو قرض پر منافع حاصل کرتے ہیں۔ ’’انٹی گریٹڈ انٹرپرائز‘‘ کی تعریف متعارف کروا دی گئی ہے۔ غیر منافع بخش تنظیموں، ٹرسٹس اور رفاہی اداروں کو چندے اور امداد سے متعلق ایک اسٹیٹمنٹ جمع کروانا ہو گی ، جو پچھلے برس حاصل کیے گئے ہیں۔ سی آئی آر کی ابتدائی منظوری کے بغیر ٹیکس ایئر کے لیے کسی بھی فرد کو اپنی ویلتھ اسٹیٹمنٹ اور ویلتھ ری کنسلی ایشن پر نظر ثانی کی اجازت نہیں ہو گی۔
اگر کاروبار میں آسانی کے حوالے سے بات کی جائے، تو ٹیکس پیئرز کی جانب سے درخواست جمع کروانے کے 15روز کے اندر اندر کمشنر کو استثنیٰ کا سرٹیفکیٹ جاری کرنا ہو گا، بہ صورت دیگر آئی آر آئی ایس خود بخود یہ سرٹیفکیٹ جاری کر دے گی۔ افراد اور ایسوسی ایشنز کے لیے نقطۂ آغاز 5کروڑ سے بڑھا کر 10 کروڑ کر دیا گیا ہے، تاکہ انہیں ود ہولڈنگ ایجنٹ بنایا جا سکے۔ کمشنر کی جانب سے جاری کیا گیا سرٹیفکیٹ پیش کرنے کی صورت میں کمرشل یا انڈسٹریل کنزیومر کے بجلی کے بل پر ایڈوانس ٹیکس کا اطلاق نہیں ہو گا۔ اے ٹی ایل میں سامنے آنے والے افراد سے تعلیمی اداروں کو جمع کروائی جانے والی فیس پر ایڈوانس ٹیکس نہیں لیا جائے گا۔ اخراجات کی حد میں اضافے بھول چوک اور غلط اسٹیٹمنٹ پر نظر ثانی کے لیے کمشنر درخواست کی منظوری دے گا۔ اگر ٹیکس قوانین کو منطقی بنانے کی بات کی جائے، تو افراد اور اے او پیز جائیداد سے آمدن کے حوالے سے انکم ٹیکیشن کے لیے انتخاب کر سکتے ہیں۔
کاروبار سے آمدن کے تحت مخفی مصنوعات یا خدمات اور دوسری اقسام کی مخفی اشیا ٹیکس کے لیے چارچ ایبل ہوں گی۔ نان ریذیڈنٹ کو تیکنیکی خدمات اور انشورنس اور ری انشورنس پریمیم کے لیے منافع، رائلٹی اور فیس کی مد میں کی گئی ادائیگی آرڈیننس کے دسویں شیڈول کی شقوں کی جانب رجوع نہیں کرے گی۔ اسی طرح اگر مقدمہ بازی میں کمی کے حوالے سے بات کی جائے، تو آلٹرنیٹیو ڈسپیوٹ ریزولوشن کا انتخاب کرنے والے ٹیکس گزار اپیل واپس لینے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ حکومت نے اس بجٹ میں آئندہ مالی سال کے لیے بڑے جرات مندانہ اہداف متعین کیے ہیں۔ حکومت نے جی ڈی پی کی نمو 2.1فی صد رکھی ہے، جس کا اصول مشکل دکھائی دیتا ہے، کیوں کہ پاکستان کی معیشت میں 0.4فی صد کی منفی نمو کی توقع ہے۔ حکومت نے ایک مرتبہ پھر ایف بی آر کے لیے ایک بہت بڑا ہدف رکھا ہے، جو 4963ارب روپے ہے۔ یہ ہدف موجودہ متوقع ہدف 3906 کا 27فی صد ہے۔
اس کا حصول مشکل دکھائی دیتا ہے، کیوں کہ بجٹ میں نئے ٹیکسز کا اطلاق نہیں کیا اور افراط زر اور سال 2021ء میں نمو صفر فی صد سے 12فی صد سے نیچے رہے گی، تو اس اعتبار سے باقی 15 سے 17فی صد پیدا کرنا ایک چیلنج ہو گا۔ بجٹ میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ حکومت کے اخراجات صرف 2فی صد بڑھیں گے جب کہ موجودہ حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ بہت مشکل اور غیر حقیقی دکھائی دیتا ہے، کیوں کہ بے روزگاری میں اضافہ ہو گا۔ اسی طرح ایس ایم ایز کی ترقی کے لیے اضافی مراعات نہیں دی گئیں۔ پھر انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ اور صحت کے حوالے سے بھی بجٹ بہت معمولی ہے اور حکومت کو معیشت کو توانا بنانے کے لیے اس مد میں ہونے والے اخراجات میں اضافہ کرنا ہو گا۔ مزید برآں، حکومت نے نئے مالی سال کے لیے مالی خسارے کا ہدف جی ڈی پی کا 9.1فی صد رکھا ہے، جو مختلف وجوہ کی بنیاد پر مشکل دکھائی دیتا ہے۔ ایف بی آر کی جانب سے ریونیو کلیکشن کی رفتار دھیمی رہے گی۔
سرکاری اخراجات میں یقینی طور پر اضافہ ہو گا۔ 450پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی کا حصول مشکل ہو گا۔ پھر ایس بی پی اور پی ٹی اے کے منافع میں متوقع کمی کے باعث نان ٹیکس انکم میں کمی واقع ہو گی۔ بینک کے اونچے قرضوں کی وجہ سے مارک اپ کے اخراجات میں اضافے کا تخمینہ لگایا گیا ہے اور میرا اندازہ ہے کہ یہ جی ڈی پی کے 9.7فی صد سے 10.2فی صد تک ہوں گے۔ اگر کنسٹرکشن انڈسٹری کی بات کی جائے، تو حکومت کی جانب سے اپریل 2020ء میں بہت پر کشش پیکیج کا اعلان کیا گیا تھا۔ کیپیٹل گین ٹیکس ریٹ کی مقدار میں بتدریج کمی کے نتیجے میں اگر ملکیت کا عرصہ چار برس تک بڑھ جاتا ہے، تو کیپٹل گین ٹیکس صرف ہو جائے گا، جب کہ غیر منقولہ جائیداد پر کیپیٹل گین ٹیکس 50فی صد تک کم ہو گیا ہے۔ اگر فارما صنعت کی بات کی جائے، تو کووڈ 19 سے متعلقہ اشیا اور زندگی بچانے والی ادویہ کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹیز سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔
سمینٹ پر ایف ای ڈی میں دو روپے فی کلو سے 175 روپے فی کلو کمی گئی ہے۔ لوکل امپورٹ پر دو فیصد تک ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹیز کو ختم کیا گیا ہے، جب کہ کوئلے کی درآمد پر انکم ٹیکس ریٹ دو فی صد تک کم کر دیا گیا ہے۔ اگر اسٹیل کی بات کی جائے، تو ہاٹ رولڈ کوائلز پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں بالترتیب 12.5فی صد سے 17.5فی صد سے 6فی صد سے 11فی صد کمی کر دی گئی ہے، جب کہ مختلف اسکریپ آئٹمز پر عائد ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی کو ہٹا دیا گیا ہے۔ اسی طرح اسٹیل میلٹرز اور کمپوزٹ یونٹس کے لیے سیکشن 235بی کے تحت ڈبلیو ایچ ڈی ختم کر دیا گیا ہے۔ اگر خوراک اور صارفین کی بات کی جائے، تو اس بجٹ میں خوردنی تیل اور تیل کے بیجوں کی درآمد پر پی ایم کووڈ 19ریلیف پیکیج کے تحت 2فی صد اے سی ڈی سے استثنیٰ میں اضافہ کیا گیا ہے۔
پام اسٹیرن پر ایڈیشنل کمسٹز ڈیوٹی کے ریٹ میں کمی کر کے صابن بنانے والی صنعت کو ترغیب دی گئی ہے۔ اسکمڈ ملک پائوڈر اور دوسرے سپلیمنٹری فوڈ تیار کرنے والوں کے لیے ڈیوٹیز میں کمی کی گئی ہے۔ پی ایم کووڈ ریلیف پیکیج کے تحت خوردنی تیل اور تیل کے بیجوں پر درآمد پر اے سی ڈی میں دو فی صد چھوٹ میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اگر تمباکو کی صنعت پر روشنی ڈالی جائے، تو سگار، چُرٹ، پتلے سگار اور سگریٹ کی خوردہ قیمت پر ایف ای ڈی کے ریٹ میں 65فی صد سے 100فی صد اضافہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح فلٹر راڈز پر بھی ایف ای ڈی میں فی فلٹر راڈ 0.75روپے 1روپے تک اضافہ کیا گیا ہے۔ اگر بجٹ میں بینکنگ کمپنیز کا جائزہ لیا جائے، تو تمام بینکنگ کمپنیز کو ان تمام ٹیکس گزاروں کی فہرست مہیا کرنا ہو گی، جو قرض پر منافع حاصل کرتے ہیں۔ بینکنگ کمپنیز پر عائد سپر ٹیکس میں سال 2021ء تک کے لیے اضافہ کر دیا گیا ہے۔
غیر ملکی ترسیلاتِ زر کے لیے کیش نکالنے پر ود ہولڈنگ ٹیکس سے استثنیٰ دیا گیا ہے، جب کہ حکومت کی جانب سے بینکوں سے قرضوں کا ہدف مالی سال 2021ء کے لیے 916ارب روپے تجویز کیا گیا ہے اور اجارہ قرضوں کا ہدف حکومت نے 450ارب مختص کیا ہے۔ اگر انشورنس کی بات کی جائے، تو ایڈوانس ٹیکس پروویژن انشورنس پریمیمز کے انتخاب کی تجویز دی گئی ہے۔ انشورنس اور ری انشورنس کی مد میں کی گئی کوئی ادائیگی، جو نان ریذیڈنٹ کو ادا کی گئی ہو، آرڈیننس کے دسویں شیڈول کی شقوں کو متوجہ نہیں کرے گی۔
اگر کوئی کمپنی آمدن میں استثنیٰ یا کاروبار میں نقصان کی وجہ سے کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتی یا ٹیکس کریڈیٹس کے لیے دعویٰ کرتی ہے، تو ایسی کمپنی کے لیے منافع کی ادائیگی پر ود ہولڈنگ ٹیکس کا ریٹ 25فی صد ہو گا۔ کم سے کم ٹیکس کے استثنیٰ کا ترک دعویٰ مینو فیکچرنگ مضاربہ کو دیا گیا ہے۔ اگر آٹو موبل انڈسٹری کو دیکھا جائے، تو 200سی سی بائیکس اور آٹو رکشوں پر کوئی ایڈوانس ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح ریٹیل سیکٹر کو دستاویزی شکل دینے کے لیے اس آرگنائزڈ ری ٹیل سیکٹر کو ریلیف دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ جو پوائنٹ آٖف سیل سسٹم کے ذریعے ایف بی آر سے مربوط ہے۔
اس سیکٹر کا سیلز ٹیکس ریٹ 14فی صد سے 12فی صد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اگر سیاحت کی بات کی جائے، تو حج آپریٹرز کو نان ریذیڈنٹس کی ادائیگیوں پر وی ڈہولڈنگ ٹیکس سے اشثنیٰ حاصل ہو گا۔ ہوٹلز کے لیے کم سے کم 0.5فی صد سے 1.5فی صد ٹیکس میں کمی کی گئی ہے۔اسی طرح آئل اور گیس مارکیٹنگ کمپنیز کے لیے واپڈا سبسڈی میں 200ارب روپے سے 124ارب روپے کمی کی تجویز دی گئی ہے جب کہ کم ریٹس پر انڈسٹری کو گیس فراہم کرنے کے لیے ایل این جی سیکٹر کو دی گئی سبسڈی میں مالی سال 2020ء میں 10ارب روپے تک کمی کی تجویز ہے۔ انجینئرنگ بشمول ٹیلی کمیونیکیشن میں انجینئرنگ سروسز ٹیکس کے موجودہ ریٹ 3فی صد کے مقابلے میں 8 فی صد کے تابع ہیں۔ کیفین والی انرجی ڈرنکس کے لیے ایف ای ڈی کی لیوی 25ہے۔
کیمیکلز کی بات کی جائے، تو حکومت نے مصنوعات پر سی ڈی صٖفر فی صد یا 3فی صد کم کرنے کی تجویز دی ہے، جب کہ اس وقت 11فی صد ٹیکس عاید ہے۔ بیوٹیل/ ایسی ٹیٹ پر ڈیوٹیز میں 20سے 5 فی صد کمی کی گئی ہے۔ ٹائر مینو فیکچرنگ کے لیے کاربن بلیک پر ڈیوٹیز میں 20فی صد سے 16 فی صد کمی کی گئی ہے۔ تجارتی پیمانے پر مصنوعات کی درآمد پر ٹیکس ریٹ ایک سے دو فی صد ہے، جب کہ سامان کی درجہ بندی کی بنیاد پر 5.5فی صد ہے۔ اگر لسٹڈ کمپنیز کی بات کی جائے، تو ان کے ٹیکس ریٹ (29فی صد)، ٹرن اوور (1.5فی صد)، منافع ٹیکس (15فی صد) اور سیلز ٹیکس (17 فی صد) میں کوئی رد و بدل نہیں کیا گیا۔ بجٹ میں ترامیم کے لیے میںؓ یہ تجاویز دینا چاہوں گا کہ ٹیکس ڈیمانڈ کا 10فی صد اے ٹی آئی ار میں اپیل فائل کرنے کے لیے ضرور ادا کیا جائے۔ انجینئرنگ سروسز کے ٹیکس کے حوالے سے کیا جانے والا فیصلہ ’’انجینئرنگ سروسز‘‘ کے اندراج کے ساتھ واپس لیا جائے۔
اسی طرح میں یہ تجویز بھی دینا چاہوں گا کہ بینکنگ کمپنیز کے لیے سپر ٹیکس میں توسیع کی شق بھی ختم کی جانی چاہیے۔ حتمی متفقہ تخمینے کے لیے مدت دینی چاہیے۔ اسی طرح رضا کارانہ چندے اور عطیات کی اسٹیٹمنٹ فراہم کرنے کی شرط بھی ختم کی جائے۔ میں یہ تجویز بھی دینا چاہوں گا کہ ٹیکس گزاروں کے پروفائل نہ مہیا کرنے والوں 2500روپے یومیہ جرمانے کی سزا 10ہزار روپے ہونی چاہیے۔ یوٹیلیٹی بلز کی مد میں اخراجات کے حوالے سے کسی قسم کا ابہام نہیں ہونا چاہیے۔ سیلز ٹیکس ایکٹ میں سپلائی ترمیم کے طور ٹول مینوفیکچرنگ کو منطقی بنایا جائے۔ علاوہ ازیں، سیکشن 156(اے)(1) کے تحت جیسا کہ لسٹڈ کمپنیز کے معاملے میں کیا گیا ہے، تمام مقررہ کردہ ٹیکس گزاروں کے لیے استثنیٰ سرٹیفکیٹ کا اجرا 15روز کی ٹائم لائن میں کیا جائے۔
زبیر طفیل
سابق صدر، ایف پی سی سی آئی
پاکستان کا نیا بجٹ کورونا وبا کے مشکل حالات میں تیار کیا گیا ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ عوام اور کاروباری طبقے پر زیادہ بوجھ نہ پڑے اور ریلیف کے اقدامات جاری رہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے بجٹ میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ ڈائریکٹ ٹیکسوں میں اضافہ نہیں ہے، کوئی نیا ٹیکس بھی نہیں ہے تاہم اِن ڈائریکٹ ٹیکس عائد کیے گئے ہیں جن کا بوجھ عوام پر پڑے گا۔ چار ماہ سے کورونا وبا کے باعث عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ بڑی تعداد بے روزگاری بھگت رہی ہے۔
نئے روزگار کے ذرائع پیدا نہیں ہو رہے، غربت کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ روزانہ اُجرت پر کام کرنے والے سنگین حالات سے دوچار ہیں۔ بدقسمتی سے ملک میں ایسا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں ہے جس کے ذریعے ان افراد یا خاندانوں کی امداد کی جا سکے۔ احساس یا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے ماہانہ تین ہزار روپے دیئے گئے ہیں لیکن یہ ناکافی ہیں۔ چار ماہ کے لیے بارہ ہزار روپے بہت قلیل رقم ہے۔ اس کےبرعکس چار ماہ تک بارہ ہزار روپے ماہانہ دیئے جانا چاہئے تھا۔
ملک میں مہنگائی میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے خاص کر خوراک کی اشیاء کی قیمتوں میں زیادہ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ چینی، آٹا، دالیں، دُودھ، گھی کی قیمتیں اُوپر کی جانب گامزن ہیں۔ افراطِ زر پہلے ہی بلند تھی۔ ایسے میں حکومت نے پٹرول بم دے مارا ہے جس کا لازمی اَثر افراطِ زر میں تیزی سے اضافہ کی شکل میں سامنے آئے گا۔ پچیس روپے فی لٹر اضافہ کا کوئی جواز نہیں ہے۔ عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمتیں اتنی زیادہ اُوپر نہیں گئی ہیں۔ حکومت نے ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا ہے جس کو واپس لیا جانا چاہیے۔ حکومت چالیس روپے فی لیٹر کا پٹرول سو روپے میں فروخت کر رہی ہے جو موجودہ حالات میں دُرست نہیں ہے۔ حکومت پٹرولیم لیوی میں کمی کرے۔
پاکستانی صنعت بھی شدید مشکلات کا شکار ہے۔ حکومتی پالیسیاں کاروبار کو مشکل بنا رہی ہیں۔ کاروباری لاگت میں کمی کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ کورونا وبا کی سبب انڈسٹری پہلے ہی بندش کا شکار تھی اب حکومت کی پالیسیاں اس پر مرے پر سو دُرّے کے مصداق مزید رُکاوٹیں پیدا کر رہی ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی کمی کا فائدہ صنعتوں کو نہیں ملا۔ نہ ہی بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کمی کی گئی۔ اب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا لازمی اَثر بجلی، گیس کے نرخوں میں بھی آئے گا اور ان میں مزید اضافہ ہوگا۔
انڈسٹری پہلے ہی عالمی مارکیٹ کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ مزید اضافہ ہماری برآمدی انڈسٹری کی تباہی کا سبب بنے گا۔ حکومت کرنٹ اکائونٹ خسارے میں کمی کا کریڈٹ لیتی ہے۔ بلاشبہ اس میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن ہماری معیشت نے اس کی بڑی قیمت ادا کی ہے۔ بہتر ہوتا کہ برآمدات میں اضافہ کر کے کرنٹ اکائونٹ خسارے پر قابو پایا جاتا۔ اس کےبرعکس برآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے اور اب کورونا وبا کے سبب عالمی کساد بازاری میں ہماری برآمدات مزید کم ہوں گی۔
حکومت ایک کروڑ نوکریاں دینے کے وعدے پر برسراقتدار آئی تھی۔ نئی نوکریاں تو کیا ملیں گی دو برسوں میں ساٹھ لاکھ لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں اوریہ صورت حل مزید اَبتر ہوگی کیوں کہ کاروباری اور صنعت پر مزید اثرات سامنے آنے والے ہیں۔ ہماری برآمدات کا بڑا حصہ ٹیکسٹائل پر مبنی ہے اور کورونا کے سبب آئندہ چھ ماہ تک اس کے امکانات نہیں ہیں جس کے سبب نہ صرف انڈسٹری بند ہونے کی طرف جائیں گی بلکہ بے روزگاری کا عفریت بھی سامنے آئے گا۔ بیرون ملک پاکستانی بھی کورونا وبا سے متاثر ہو کر بے روزگار ہو رہے ہیں اور پاکستان واپسی کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ صورت حال ایک جانب ملک میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ کرے گی اور دُوسری طرف آئندہ مہینوں میں ترسیلاتِ زر میں کمی کا سبب بنے گی۔ خطرہ ہے کہ ترسیلاتِ زر تیئس ارب ڈالر سے اٹھارہ ارب ڈالر تک گر جائے گی جس سے پاکستان کے روپے پر ڈالر کی شرح مبادلہ پر دبائو بڑھے گا۔
حکومت کو چاہیے کہ ایسی پالیسیاں اور مراعات کا اعلان کرے جس سے لوگ نئی صنعت کاری اور نئی سرمایہ کاری کی طرف جائیں تا کہ ملکی معیشت میں استحکام پیدا ہو۔ روزگار اور ٹیکس کے ذرائع میں اضافہ ہو۔ بدقسمتی سے زرعی شعبہ کی پیداوار بھی منفی رہی ہے۔ اب ہمیں گندم بھی درآمد کرنی پڑ رہی ہے۔ کپاس کی پیداوار بھی بہت کم رہی ہے۔ حکومت اپنی زرعی پالیسی پر توجہ دے تا کہ چینی، کپاس، گندم، چاول اور دالیں وافر مقدار میں ملک میں موجود رہیں اور ان کی برآمدات بھی ہو سکے۔ حکومت نے تین ہائیڈرل ڈیموں کی تعمیر کا آغاز کر دیا ہے۔ حکومت انہیں تیزی سے بروقت مکمل کرے تاکہ ملک سے پانی اور بجلی کا بحران ختم ہو سکے۔
عارف حبیب
چیئرمین، عارف حبیب گروپ
پری بجٹ میں اس بات کا اظہار کیا گیا تھا کہ حکومت اپنے ٹیکس اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے اس میں بڑی وجہ کورونا وبا کی صورت حال بھی ہے تقریباً پندرہ کھرب روپوں کا شارٹ فال سامنے آیا ہے اس کو ایسے دیکھا جائے کہ یہ پندرہ کھرب نہیں آٹھ کھرب ہے یعنی اگر کورونا وبا کا سامنا نہیں ہوتا تو حکومت سینتالیس اڑتالیس ارب وصول کر سکتی تھی۔ کورونا سے تقریباً سات آٹھ کھرب کا شارٹ فال ہوا ہے۔ نئے بجٹ میں ریلیف کے لئے اقدامات نہیں اُٹھائے گئے ہیں اس کا سبب شاید یہ ہے کہ حکومت بجٹ سے پہلے ہی عوام اور کاروباری طبقے کے لیے ریلیف مہیا کر چکی ہے۔
حکومت کے پاس اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں ہے جس کا اظہار وزیراعظم اپنے بیان میں کر بھی چکے ہیں۔ بجٹ سے قبل ہماری جانب سے یہ بھی تجویز گئی تھی کہ موجودہ صورت حال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ نئے ٹیکس عائد نہ کئے جائیں۔ مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے اس پالیسی کا عندیہ بھی دیا تھا۔ انہوں نے اپنے وعدے کا پاس کیا ہے اور ٹیکس فری بجٹ پیش کیا گیا ہے۔ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں ہے۔ وصولیوں کا ہدف زیادہ رکھا ہے لیکن وہ اس مفروضے پر ہے کہ کورونا وبا پر قابو پانے کی صورت میں معیشت بحال ہوگی تو ٹیکس آمدنی میں بہتری آئے گی۔ ابھی لاک ڈائون کا زور ہے ملک میں اسمارٹ لاک ڈائون کیا جا رہا ہے۔ یہ بھی حکمت عملی بہتر ہے تا کہ معاشی سرگرمیاں جاری رہیں۔
بجٹ خسارہ نو فیصد سے زیادہ ہے اس صورت حال میں ریلیف کے اقدامات کی توقع بھی نہیں تھی۔ پاکستان اس وقت آئی ایم ایف پروگرام میں ہے۔ ایسے میں ٹیکس فری بجٹ پیش کرنا بڑی کامیابی ہے۔ کورونا وبا کے پیش نظر آئی ایم ایف کی جانب سے سختی دکھائی نہیں دے رہی۔ اسمارٹ لاک ڈائون کے ساتھ چلیں گے تو حکومت اپنے اہداف حاصل کرسکتی ہے۔ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ سخت لاک ڈائون کےبعد اسمارٹ لاک ڈائون میں معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا، کمپنیوں کی سیل بڑھی، مصنوعات کی فروخت میں چار گنا تک اضافہ دیکھا گیا۔ حکومت نے کنسٹرکشن اور زراعت کے لیے پیکیج اور مراعات کا اعلان کیا ہے۔ معاشی سرگرمیاں جاری رہیں تو یہ شعبے ترقّی کریں گے جس سے معیشت میں استحکام آئے گا۔ کنسٹرکشن انڈسٹری میں تیزی کے سبب اس سے وابستہ شعبے بھی کام کریں گے اور ملکی معیشت کا پہیہ تیزی سے چلنے لگے گا۔
رئیل اسٹیٹ کو بھی سپورٹ کیا گیا ہے اس شعبے میں بھی مراعات کا اعلان اس کی بحالی میں مددگار ثابت ہوگا، ٹیکسوں میں کمی سے رئیل اسٹیٹ کی بحالی میں مدد ملے گی۔ شرح سود میں کافی کمی کی گئی ہے جو کہ کاورباری طبقے کا بڑا مطالبہ تھا۔ شرح سود میں کمی سے حکومت کو بھی قرضوں کی ادائی میں ریلیف ملے گا اور صرف اس اقدام سے اسے آٹھ سے دس کھرب کا فائدہ ہوگا جسے وہ بجٹ میں استعمال کر سکے گی۔ بینکوں کے پاس لیکوڈیٹی ہے جس کے استعمال سے معیشت کو فائدہ پہنچے گا۔ حکومت سیکورٹیز، ٹی بلز کے مدد سے خسارے میں کمی لا سکتی ہے۔
اسٹیٹ بینک بھی اب غیرملکی پاکستانیوں کو عمدہ ترغیبات کے ساتھ کوئی اسکیم سامنے لا سکتا ہے۔ حکومت نے کرنٹ اکائونٹ خسارے پر قابو پایا ہے یہ اس کی کامیابی ہے کیوں کہ ہم ڈالر نہیں چھاپ سکتے۔ ڈالر کے معقول ذخائر برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔ اس پر دُرست توجہ دی گئی ہے اور کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔ بجٹ خسارہ کم یا زیادہ ہونا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ اسے ہم مینج کر سکتے ہیں۔ حکومت کے لیے اس وقت بڑا چیلنج روزگار اور معاشی سرگرمیوں کا جاری رہنا ہے۔ جس کی جانب توجہ ضروری ہے۔ عمران خان کے اسمارٹ لاک ڈائون کی حکمت عملی سے یہ دونوں چیلنج میں کامیابی ہو سکتی ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ کورونا وبا کی ایس او پیز پر پوری طرح عمل پیرا ہوں تا کہ یہ وبا زیادہ نہ پھیلے اور ان کی اپنی اور ملک کی بھی معیشت چلتی رہے اور جانیں بھی محفوظ رہیں۔
ڈاکٹر حفیظ پاشا
سابق وفاقی وزیر خزانہ
حکومت کا نیا بجٹ سمجھ سے باہر ہے۔ حقائق کے برعکس پیش کیا گیا ہے، یہ ادھورا محسوس ہوتا ہے۔ معاشی کساد بازاری کے دور میں سرگرمیوں میں اضافے کی پالیسی اور ریلیف بجٹ کی ضرورت تھی لیکن ایسا دکھائی نہیں دیتا۔ بجٹ کو ٹیکس فری کہا جا رہا ہے۔ پالیسی کی حد تک تو یہ ٹھیک ہے اس سے صنعتوں کو سانس ملے گا لیکن صاف معلوم ہوتا ہے کہ کورونا وبا کے پیش نظر بجٹ ہلکا رکھا گیا ہے جیسے ہی کورونا پیکس میں کمی واقع ہوگی تو بھاری بجٹ پیش کیا جائے گا۔
یہ بجٹ حکومت کا نہیں آئی ایم ایف کا بجٹ ہے اس میں حکومت کا کوئی دخل نہیں ہے آئی ایم ایف سے کوئی پوچھ لے کہ ایف بی آر نے نئے مالی سال میں ٹیکس ہدف چھبیس فی صد زیادہ رکھا ہے تو ٹیکس فری بجٹ کے نتیجے میں یہ اضافہ کیسے ہوگا! گزشتہ برس بھی حکومت نے غیرحقیقت پسندانہ ٹیکس ہدف رکھا تھا جو کہ ساڑھے پچپن کھرب سے زائد تھا اور وصول قریباً اکتالیس کھرب ہوا ہے اب بھی نیا ہدف غیرحقیقت پسند ہے۔ خاص کر کورونا وبا کے دور میں تو یہ ناممکن ہوگا۔
کورونا وبا کے سبب کساد بازاری کے دور میں سپلائی سائیڈ اکنامکس کی ضرورت ہے۔ کساد بازاری میں ٹیکس کی شرح میں کمی کریں گے تو ٹیکس بیس میں اضافہ ہوگا اور وصولیوں میں بھی اضافہ ہو سکے گا۔ بجٹ میں انکم ٹیکس کی مد میں دس کھرب سے زائد مراعات امیر طبقے کو دی گئی ہیں جب کہ ایسے وقت میں امیر طبقے کو ملک اور عوام کا ساتھ دینا چاہیے۔ بہتر ہوگا کہ امیر طبقے سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جائے تا کہ وہ غریب طبقے کو ٹرانسفر کیا جا سکے اور ان کے لیے مزید ریلیف مہیا کیا جا سکے۔ حکومت زراعت سے صرف دو ارب وصول کرتی ہے جب کہ وہاں سے پچاس ارب روپے وصول کیے جا سکتے ہیں۔
آٹھ ہزار ارب روپے کی آمدنی سے کچھ تو وصول کیا جائے۔ اسی طرح پراپرٹی سے بڑے گھروں سے پچھتر ارب روپے وصول کیے جا سکتے ہیں۔ حکومت کو ٹیکس پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ اِن ڈائریکٹ کی بجائے ڈائریکٹ ٹیکسیشن کی جانب جانا ہوگا۔ اس وقت ضرورت ہے کہ روزگار کے نئے ذرائع پیدا کیے جائیں۔ ترقیاتی بجٹ ایسے منصوبوں پر خرچ ہو جن میں بڑی تعداد میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔ زرعی شعبہ اس کے لیے بہترین ہے ہم زرعی ملک ہیں خوراک کی خود کفالت بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ زراعت کو پانی کی قلت کا مسئلہ درپیش ہے۔ نہروں کی صفائی اور پختگی پر توجہ دی جائے۔ دیہی علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر کی جائے، چھوٹے چھوٹے راستے بنائے جائیں۔ شہروں میں صفائی اور درخت لگانے کی مہم شروع کی جائے، بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے ایسے منصوبے روزگار کے ذرائع پیدا کریں گے۔
چھوٹی صنعتوں کو مراعات اور سہولتیں مہیا کریں۔ مقامی صنعتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ برآمدی شعبے کو زیرو ریٹڈ بحال کیا جائے مقامی سیلز ٹیکس ختم کیا جائے۔ سرجیکل، اسپورٹس اور لیدر سیکٹر کی طرف توجہ نہیں ہے۔ یہ ہمارے برآمدی شعبے ہیں۔ ان کو ترغیبات دیں ایکسپورٹ کے بدلے ان کے دو سال کے بل معاف کر دیں۔ شرح سود کو چھ فی صد پر لائیں۔ حکومت کی قرضوں کو مینج کرنے کی پالیسی درست نہیں بلند شرح سود پر بانڈز جاری کرنا مفید نہیں ہے۔ عالمی اداروں سے بات کریں ایک سال کی پے منٹس کو ڈیفر کرائیں۔ بڑے گھروں میں بجلی کے بل کے ذریعے فکسڈ ٹیکس متعارف کرایا جا سکتا ہے۔ لاکھوں ٹیکس پیئر مل سکتے ہیں۔