یو توپاکستان کی افسرِ شاہی سے وابستہ کئی لوگ ایسے گزرےہیں، جنہیں مسندِ شعر و ادب نے عزّت و اکرام کی خلعتِ اَن مول عطا کی۔ تاہم، بالخصوص جن دو ادیبوں نےاپنی تحریروں سے اُردو دنیا میں غیر معمولی شہرت و مقبولیت حاصل کی، اُن میں مختار مسعود اور قدرت اللہ شہاب شامل ہیں۔اوّل الذّکر اُردو ادب میں اپنے جداگانہ اسلوب کے باعث اس حد تک منفرد حیثیت کے حامل قرار پائےکہ ’’آوازِ دوست‘‘ اور دیگر تخلیقات میں تحریر کیے گئے جملے کے جملے ’’اقوالِ زرّیں‘‘ کی حیثیت حاصل کر گئے،جب کہ ثانی الذکر کی خودنوشت’’ شہاب نامہ‘‘ نے ایک عہد کی جادو بھری داستان ہوتے ہوئے ادب و سیاست کے قارئین کی دنیا میں مقبولیت کے جھنڈے گاڑدئیے۔
گرچہ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود رہی کہ خودنوشت کے متن کو بہت سے مقامات پر ناقدین نے افسانوی قرار دیا کہ جس میں موقع محل کی مناسبت سے رنگ آمیزی نہ صرف یہ کہ ہرگز باعثِ تعجب نہیں ہوتی،بلکہ بعض مواقع پر مبالغہ آرائی زیبِ داستاں کے لیے ایک کارِمستحسن قرارپاتی ہے۔خود قدرت اللہ شہاب کی حیثیت یہ بن گئی کہ تقسیمِ ہند کے بعد جب نئی مملکت، پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو کارِ حکومت چلانے کے لیے جن لوگوں کی خدمات کی اشد ضرورت پیش آئی ،اُن میں سے ایک قدرت اللہ شہاب بھی تھے۔ پچاس کے عشرے کے آخر سے اُنہیں افسرِ شاہی کاانتہائی اثر و رسوخ کا حامل افسر گردانا جانے لگا ۔ہندوستان کی سینٹرل یونی وَرسٹی، مدھیہ پردیش سے ڈاکٹر محمّد نوشاد عالم نے ’’اُردو خودنوشت سوانح حیات : آزادی کے بعد‘‘ کے عنوان سے مقالہ تحریر کیا،جس میں ایک مقام پرمصنّف نے ’’شہاب نامہ‘‘ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا ہے ’’قیامِ پاکستان کے بعد مصنّف ،اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے اور پاکستان کے تین سربراہان ،جنرل غلام محمّد،اسکندر مرزا اور ایوب خان کے پرنسپل سیکریٹری رہنے کا موقع ملا۔اس آپ بیتی میں ان سربراہان کی ذاتی زندگی سے ایسے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ تاریخ کی کسی دوسری کتاب میں اس کی مثالیں ملنی مشکل ہیں۔ ‘‘ یہی نہیں ، بلکہ یہاں تک ہوا کہ ایّوب خاں سے قدرت اللہ شہاب کی ذہنی قُربت اس حد تک بڑھی کہ نام وَر شاعر ،حفیظ ؔ جالندھری نے کہہ دیا؎ ’’جب کہیں انقلاب ہوتا ہے …قدرت اللہ شہاب ہوتا ہے۔‘‘یہ شاعرانہ کلام مُلک کے اوّلین مارشل لا کے پسِ منظر میں کہا گیا۔
یہ تاثّر صرف حفیظؔ جالندھری ہی تک محدود نہیں رہا،بلکہ پاکستان کے ایک اور قد آور شاعر، سیّد محمد جعفری ؔ نے بھی مذکورہ مارشل لا کے سلسلے میں کہا تھا؎’’یہ سوال و جواب کیا کہنا…صدرِ عالی جناب کیا کہنا … کیا سکھایا ہے، کیا پڑھایا ہے… قدرت اللہ شہاب کیا کہنا۔‘‘تابوت میں آخری کیل کے مصداق عہد ساز مزاح نگار،ابنِ انشاء نے ایک کالم کا عنوان ہی یوں رکھا’’قدرت اللہ شہاب کی باتیں ایسی ہیں ،جیسے خواب کی باتیں۔‘‘کہے گئے اشعار میںچاہے کسی حد تک مبالغہ آرائی کا عُنصر ہی کیوں نہ شامل ہو،سچّی بات وہی ہے کہ جسے خواجہ حیدر علی آتشؔ نے بیان کیا تھا؎’’سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا…کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا‘‘۔بات یہیں تک ہی رہتی ،تب بھی غنیمت تھا، پاکستان کے تیسرے فوجی حکمراں، جنرل ضیاء الحق کی بھی یہی خواہش تھی کہ قدرت اللہ شہاب کی وسیع خدمات اور تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اُن کو حکومت میں اہم ذمّے داری سونپی جائے،مگر قدرت اللہ شہاب کی ضعیفی اور انتہا درجے کی عدم دل چسپی کی وجہ سے یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔
با اثر اور مختلف حکمرانوں کو متاثّر کرنے والے، قدرت اللہ شہاب 26 فروری 1917 ءکو گلگت میں پیدا ہوئے۔والدہ کا نام کریماں بی بی اور والد کا نام عبداللہ تھا،جو کم سِنی میں یتیم ہوگئےتھے ،مگر ایک ستم اور ہوا کہ دورِ یتیمی میں داخل ہوتے ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ بال بال نہ صرف قرض میں جکڑاہوا ہے، بلکہ جو کچھ بھی زمین ہے اور جس مکان میں قیام ہے، وہ مہاجن کے پاس گِروی ہے۔ اُسی دن سے عبداللہ نے ارادہ کر لیا کہ اپنے زورِ بازو سے آگے بڑھنا ہے ۔چمکور میں اسکول ہی نہ تھا۔وہاں سے میلوں دور واقع، ضلع انبالہ کے اسکول میں داخلہ لیا اور یہ سچّی لگن اور محنت ہی تھی کہ پورے انبالہ میں میٹرک کے امتحان میں اوّل آئے۔
اُن دنوں سرسیّدکی علی گڑھ تحریک کا اثر پورے ہندوستان پر تھا۔ لدھیانہ، مشرقی پنجاب کی ’’انجمن مفید عام‘‘ بھی ایک ایسی ہی تنظیم تھی، جو پیغامِ سر سیّد کی ترویج میں منہمک تھی۔ اُس تنظیم کا ایک رکن چمکور آیا اور جب اسے علم ہوا کہ ایک مسلمان نے پورے ضلعے میں میٹرک میں اوّل پوزیشن حاصل کی ہے ،تو وہ عبداللہ کو اپنے ساتھ لے کر سر سیّد کی خدمت میں حاضر ہوا۔سر سیّد کے دماغ میں صرف قوم کے لوگوں کی تعلیم کا سودا سمایا ہوا تھا۔جب اُنہیں ایک ہونہار اور ذہین طالب ِ علم کے بارے میں اطلاع ملی تو بے حد خوش ہوئے ۔
دراصل وہ ذہین اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو قوم کی قسمت سنوارنے کا سب سے بڑا ہتھیار سمجھتے تھے اور علی گڑھ یونی وَرسٹی کا مقصدِ اعلیٰ و اُولیٰ بھی یہی تھا کہ زیادہ سے زیادہ نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے ہندوستان کے مسلمانوں کی طاقت میں اضافے کا سبب بنیں۔ مولانا ظفر علی خاں نے اسی لیے کہا تھا؎’’سوادِ اعظمِ اسلام کی نگاہِ اُمید …لگی ہوئی ہے علی گڑھ کے نوجوانوں پر‘‘۔ سر سیّد احمد خاں نے نوجوان عبداللہ کی صرف ہمّت افزائی ہی نہیں،بلکہ رہنمائی بھی کی ۔ علی گڑھ ہی میں رہتے ہوئے عبداللہ نے انگریزی، عربی،فارسی،ریاضی،فلسفےجیسے مضامین میں مہارت بہم پہنچائی اور وہیں سے بی اے کی تعلیم امتیازی عنوان سے مکمّل کی ۔سر سیّد نے ہم دردی اور عنایت کا سلسلہ اس طرح دراز کیا کہ اُن کی وساطت سے برطانیہ جا کر آئی سی ایس کرنے کے لیے وظیفہ بھی مل گیا۔
اُن کی عنایتیں اپنی جگہ،عبداللہ کی والدہ نے بیٹے کو ولایت بھیجنے سے صاف انکار کر دیا کہ بیٹے کی طویل جدائی اُنہیں حد سے زیادہ شاق تھی۔مزید براں، ولایت بھیجنے کے سلسلے میں بدشگونی یا توہمّات اُن کی راہ دیکھنے پر مُصر تھیں،سو عبداللہ نے سرسیّد کو نہ جانے کے فیصلے سے آگاہ کر دیا۔ وہ ایک ذہین نوجوان کی تیز رفتار ترقّی کے توسّط سے قوم کی ترقّی کی باتیں سوچ رہے تھے،سو انکار سے نہ صرف کبیدہ خاطر ہوئے،بلکہ عبداللہ سے یہ تک کہہ دیا کہ’’ میری نظروں ہی سے دُور نہ ہو جاؤ، بلکہ علی گڑھ ہی سے اپنا بوریا بستر اس طرح گول کر جاؤ کہ میں آئندہ کبھی تمہاری شکل بھی نہ دیکھ سکوں۔‘‘عبداللہ وہاں سے چلے اور گلگت کا سفر اختیار کیا،جہاں کلرکی سے ایک نئے مستقبل کا آغاز کیا۔یہی وہ جگہ بھی قرار پائی کہ جہاں کچھ عرصے کے بعد انتظامی طور پر اُن کی تعلیم،لیاقت اور مستقل مزاجی کے باعث کشمیر راج کی طرف سے اُنہیں گورنر بنا دیا گیا۔برسوں اس عہدے پر کام کیا اور سبکدوشی کے بعد ’’انجمن اسلامیہ، جمّوں‘‘ کے اعزازی سیکریٹری کے طور پر خدمات انجام دینے لگے۔
یہی وہ دن بھی تھے کہ تین بیٹے اور تین بیٹیوں کے باپ عبداللہ، اپنے بیٹے قدرت اللہ پر سب سے زیادہ بھروسا کرنے لگے اور اُن کی صحبت میںرہ کر قدرت اللہ بھی بہت سے اُمور میں غیر معمولی طور پر طاق ہو چلے۔ قدرت اللہ شہاب کی عُمر کے ابتدائی چند سال گلگت میں گزرے، پھر والد کو جمّوں و کشمیر جانا پڑا،سو تعلیم کا بنیادی سلسلہ جموں میں واقع، اکبر اسلامیہ ہائی اسکول میں طے کیا۔چوتھا ہی درجہ تھا کہ پلیگ یا طاعون کی بھیانک وبا پھیل گئی،کوئی دن ایسا نہ ہوتا، جب دس، پندرہ لوگ لقمۂ اجل نہ بنتے۔گھر والوں نے طاعون کی وبا کے تیزی سے پھیلنے اور اُس سے ہونے والی پے در پے اموات کے باعث فیصلہ کیا کہ بچّوں کو وہاں سے سری نگر روانہ کر دیا جائے،سو جمّوں سے سری نگر آمد ہو ئی۔
عنفوانِ شباب آتے آتے اُس زمانے کی دو بھیانک بیماریاں طاعون اور ہیضہ اُن کے مشاہدے سے نہ صرف گزر چکی تھیں،بلکہ یہ بھی معلوم ہوا کہ بحران یا آفت کے زمانے میں کس طرح اعصاب مضبوط رکھتے ہوئے کام کرنا چاہیے۔سری نگر میں بھی کچھ ہی وقت گزارا جا سکا اور وہاں سے ریاستِ مشرقی پنجاب میں واقع، ضلع رپناگرکی تحصیل چمکور جائے قیام قرار پائی،جہاں زیادہ ترآبادی سکھوں پر مشتمل تھی۔چمکور میں ٹھکانہ ،ایک سو چار برس بوڑھی دادی کا گھر تھا۔محلّے میں زیادہ تر سکھوں کے گردوارے تھے،مگرمسلمانوں کی ایک خانقاہ بھی موجود تھی۔ اسی کے ساتھ مقامی طور پر اقتدار کی رسّہ کشی بھی اپنا رنگ دکھانے پر آمادہ رہتی ۔یہاں بی اے ایس جے ایچ خالصہ ہائی اسکول میں داخل کروایا گیا۔ اسکول کے اساتذہ میں ہیڈ ماسٹر سوراج سنگھ کے علاوہ فارسی کے پنڈت سری رام ، انگریزی کے پنڈت جگن ناتھ، جغرافیہ و تاریخ کے ماسٹر تارا سنگھ،اُردو کے ماسٹر منگل سنگھ تھے،جو ریاضی بھی پڑھایا کرتے۔
تمام دیگر طلبہ کی طرح قدرت اللہ شہاب بھی اُن سے بےحد ڈرتے تھےکہ وہ ذرا ذرا سی بات پر طلبہ کی اس طرح دُھنائی کرتے کہ اُن کی جان خشک ہو جاتی۔ایک دن تو یوں بھی ہوا کہ قدرت اللہ شہاب بھی اُن کے خوف سے اسکول کے بجائے کھیتوں کی طرف نکل گئے۔وہاں اُن کی دادی کا وفادار ملازم ستّر برس کا کرم دین موجود تھا،جس نے تنبیہ کی کہ آئندہ کبھی اسکول سے غائب نہ ہونا۔مگر اگلی بار بھی ایساہی ہوا،جس کےنتیجے میںکرم دین سے مار بھی کھانی پڑی۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ کرم دین اور چمکور کے ایک ہندو بنیے کے درمیان طے پانے والے سودے کی تکمیل کے نتیجے میں قدرت اللہ شہاب کو اُردو ادب کی چند شاہ کار کتابیں پڑھنے کا یوں موقع ملا کہ اُنہوں نے چاچا کرم دین کی اسلام دوستی پر مبنی جذبے کو خالصہ اسکول کے غیر اسلامی ماحول کے خلاف اُکسا کر کچھ وقت کے لیے اسکول سے غیر حاضر رہنے کی اجازت لے کر’’آبِ حیات‘‘،’’مراۃ العروس‘‘، ’’ایامیٰ‘‘، ’’رویائے صادقہ‘‘، ’’فتح اندلس‘‘، ’’فسانۂ آزاد‘‘ اور اسی پائے کی چند اور کتابیں پڑھ ڈالیں اور جب اسکول جانا شروع کیا ،تو وہاں منعقد ہونے والے سکھوں کے سالانہ تہوار’’سنگھ سبھا‘‘میں ’’بابا گورو نانک ‘‘ پر مذکورہ کتابوں کی مدد سے ایسا شان دار مضمون پڑھا کہ سب ہی حیران رہ گئے۔
یہی نہیں مضمون کے اختتام پر بابا گورونانک کے لیے ایک منظوم قصیدہ بھی پڑھا۔بس پھر کیا تھا، پورے اسکول میں اُن کے نام کا ڈنکا بج گیا۔ ’’شاباش شاباش‘‘اور ’’جواب نہیں‘‘ کے شور میں مہاراجہ پٹیالہ نے خوش ہو کراپنی جیب سے ملکۂ وکٹوریہ کی مورت والا چاندی کا ایک روپیا عطا کر دیا۔اس کام یابی نے حوصلے اس طرح بلند کیے کہ دل خود شاعری کی دیوی پر قربان ہو اٹھا۔
اوّل رونق جمویؔ اور پھر جعفر چمکوریؔ تخلّص رکھ کر طبع آزمائی بھی شروع کر دی۔اسکول میں ایک شعر اتنا مشہور ہوا کہ کیا استاد، کیا شاگرد سب ہی کی زبانوں پر چڑھ گیا؎’’یہ ایسا عجب شہر چمکور ہے… کہ ثانی نہیں، جس کا لاہور ہے‘‘۔ کلام میں غزلیں بھی شامل ہونے لگیں؎ ’’مِرے منہ پہ زلفیں گرانے کو آ جا… مِری بات بگڑی بنانے کو آ جا… تِری یاد کی گھنٹیاں بج رہی ہیں… مِرے دل کی دنیا بسانے کو آ جا ۔ ‘‘اسکول ہی کے زمانے سےقدرت اللہ شہاب لکھنے پڑھنے میں طاق تھے۔
اُردو، انگریزی دونوں ہی زبانیں متاثّر کرتیں اور وہ کچھ نہ کچھ لکھنے کی دُھن میں لگے رہتے۔1932-33ء میں میٹرک کا امتحان دیا اور اگلی تعلیمی منازل میں قدم رکھا۔پرنس آف ویلز کالج،جمّوں میں بھی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں برابر حصّہ لیتے رہے۔ذہانت کی کمی نہ تھی،سو اساتذہ اور طلبہ دونوں ہی کے پسندیدہ قرار پاتے۔کچھ ہی وقت میں کالج کی لائبریری میں شیکسپیئر سے لے کر برنارڈ شا تک سب ہی کچھ پڑھ ڈالا۔ تاہم، جس نے سب سے زیادہ متاثّر کیا وہ’’ Sir Pelham Grenville Wodehouse ‘‘ تھے۔ دوستیاں بھی خوب خوب اور جلد جلد ہو جاتیں۔
1934-35ءمیں ایف ایس سی کے امتحان میں بھی کام یابی حاصل کر لی۔ اُنہی دنوں لندن میںایک عالمی تحریری مقابلہ منعقد ہورہا تھا، توکسی کو بتائے بغیر ہی مقابلے میں حصّہ لینے کا ارادہ بھی کر لیا۔ لکھنے کا شوق تو تھا ہی،سو اپنی صلاحیت اور قسمت آزماتے ہوئے اپنی ایک تحریر روانہ کر دی اور اُس وقت خوشی کی انتہا نہ رہی، جب اُن کی تحریر کو اوّل انعام کا مستحق گردانا گیا۔جگہ جگہ اس کا چرچا ہونے لگا۔مختلف علاقوں سے اہم لوگوں نے تہنیتی پیغامات بھیجے۔
خود کالج نے بھی اس انداز میں سراہا کہ ایک بڑی تقریب کا انعقاد کیا گیا، اساتذہ اور طلبہ نے تعریفی کلمات ادا کیے اور کالج کے ہال میں اُن کی ایک بڑی تصویر آویزاں کر دی گئی۔حیدرآباد کے وزیرِاعظم ،سر اکبر حیدری کی جانب سے بھی توصیفی خط موصول ہوا۔ اس مقابلے نے اُن کے اعتماد میں بے پناہ اضافہ کیا۔ 1936-37ء میں گریجویشن بھی کر لیا۔گرچہ ریاستِ کشمیر کی طرف سے اُن کے لیے برطانیہ میں فاریسٹری کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے وظیفے کی پیش کش بھی کی گئی تھی۔
تاہم ، مہاراجا کشمیر کے بارے میں اچھا تاثّر نہ رکھنے والے قدرت اللہ شہاب نے اپنا مستقبل بہتر بنانے کی غرض سے گورنمنٹ کالج،لاہور میں ایم اے انگریزی کے لیے داخلہ لے لیا۔ خیال یہی تھا کہ اُس کے بعد کسی بھی کالج میں لیکچرار کے طور پر ملازمت مل جائے گی اور یوں مستقبل درخشاں ہو جائے گا۔تعلیم کی اتنی منازل طے کرنے اور ارد گرد کے حالات پر نظر رکھنے سے قدرت اللہ شہاب کو یہ بات تواچھی طرح معلوم ہو چُکی تھی کہ آگے بڑھنے کے لیے مسلمانوں کا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔مُلک میں سیاسی محاذ پر ایک بھونچال کی سی کیفیت تھی۔
کانگریس،مسلم لیگ اور انگریزسرکار ایک دوسرے کے مقابلے پر تھیں۔ اوّل الذّکر دو بڑی جماعتیں آخر الذکر کو کسی بھی قیمت اپنے دیس سے باہر نکالنے کے لیے سیاسی حکمتِ عملی مرتّب کرنے میں مگن تھیں،چناںچہ کبھی کبھی وہ ایک دوسرے کی حمایت اور کبھی ایک دوسرے کی مخالفت کر کے اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتیں۔ سیاسی سطح پر ایک سے ایک رہنما موجود تھا اور یہ صورت ہندو اور مسلمان دونوں قیادتوں میں موجود تھی۔یہی صُورتِ حال ادبی سطح پر بھی دیکھی جا سکتی تھی کہ اُفقِ ادب، ستاروں سے مسلسل جگمگاتا نظر آتا ۔
کوئی یہ گمان بھی نہ کرتا کہ یہ کواکب جیسے نظر آتے ہیں، اُس کے علاوہ بھی کچھ اور ہو سکتے ہیں۔ یہی وہ زمانہ بھی تھا یعنی 1938 ءکا ،جب زیرک اور معاملہ فہم، قدرت اللہ شہاب نے مختصر نویسی کی صورت میں بہ اندازِ روزنامچہ اہم واقعات پر مبنی ڈائری لکھنا شروع کی۔اب قلم انگریزی اور اُردو میں بہت رواں ہو چُکا تھا۔1939ءمیں مشہور بین الاقوامی شاعر،کیٹس کی کئی نظموں کو اُردو کا پیرہن عطا کیا۔ترجمہ اس حد تک تخلیق کا رنگ رکھتا تھا کہ مولانا صلاح الدین احمد کے ’’ادبی دنیا‘‘ کی زینت بھی بنا۔کیٹس کے علاوہ شیلے کی نظمیں بھی ترجمہ کی گئیں۔
شاید پہلی محبت پر مبنی اوّلین افسانہ ’’چندراوتی‘‘ بھی اُنہی دنوں کی یادگار تھا،جسے اختر شیرانی کے پرچے ’’رومان‘‘ میں شایع بھی کروایا۔1939-40 ءمیں گورنمنٹ کالج، لاہور سے ایم اے انگریزی کا امتحان بھی کام یابی سے پاس کر لیا۔اسی اثنا خیال آیا کہ کیوں نہ انڈین سوِل سروس کے امتحان میں قسمت آزمائی جائے۔ اگر کام یاب ہو گئے، تو وارے نیارے،وگرنہ ایم اے انگریزی کی سند بھی مستقبل بہتر بنانے کے لحاظ سے کچھ کم نہ تھی۔ لیاقت اور ذہانت کے ساتھ محنت بھی کی اور اللہ نے یہ نتیجہ دیا کہ آئی سی ایس کے امتحان میں سُرخ روئی حاصل کی۔
قدرت اللہ شہاب جب 1941 ء میں انڈین سوِل سروس کے لیے منتخب ہوئے ، تو جمّوں و کشمیر کی تاریخ کے وہ پہلے مسلمان تھے،جواُس اعلیٰ سول سروس کا حصّہ بننے جا رہے تھے۔خود آئی سی ایس یا انڈین سوِل سروس کے بارے میں قدرت اللہ شہاب نے ’’شہاب نامہ ‘‘ میں ’’صاحب،بنیا اور مَیں‘‘ کے عنوان سے بہت مختصر،پُر اثر اور پُر ازمعنی تبصرہ کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں’’آئی سی ایس نے لوٹ کھسوٹ میں جنم لیا۔مار دھاڑ میںپروان چڑھی۔ سلطنت آرائی میں عروج پایااور برّ ِصغیر میں آزادی کے نزول کے ساتھ ہی دَم توڑدیا۔‘‘ سروس میں پہنچنے کے بعد جس جگہ تعینات کیا گیا ، اُس میں اوّل ہندوستان کی ریاست ، بہارکا ضلع بھاگل پور تھا کہ جہاں 1942 ء میں خاصے فسادات بھی ہوئے۔ 1943ءمیں اُنہیں بنگال بھیج دیا گیا۔
اگلے چار برس ہندوستان کی سیاسی زندگی میں گویابھونچال کی حیثیت رکھتے تھے۔ قدرت اللہ شہاب کو ایک ذمّے دار اعلیٰ افسر ہونے کے ناتے تقریباً تمام ہی بڑے سیاسی رہنماؤں کو قریب سے دیکھنے اور جاننے کا موقع ملا۔ان میں سرِ فہرست تو قائداعظم اور گاندھی جی تھے۔اُڑیسہ میں ڈپٹی ہوم سیکریٹری کے طورپر کام کرتے ہوئے اُن کے ہاتھ چند ایسی سرکاری دستاویزات لگیں، جن کی رُو سے کانگریس حکمراں ، مسلمانوں کواعلیٰ عُہدوں سےمحروم کرنے کے ایک منصوبے پر عمل کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ وہ یہ دستاویز لے کر دہلی پہنچے ، قائدِاعظم سے ملاقات کی اوراُن کو پیش کر کے واپس چلے آئے۔ایک سرکاری افسر ہوتے ہوئے دُور دراز کا سفر اختیار کر کے قائداعظم سے محض اس بِنا پر ملاقات کرنا کہ اُنہیں مسلمانانِ ہند کے سلسلے میں کانگریس کے ممکنہ مسلم زیادتی کےرویّے سے باخبر کیا جائے،اس بات کا بیّن ثبوت تھا کہ قدرت اللہ شہاب میں کسی خطرے کو بھانپ کر اُس کے مطابق فیصلہ کرنے کی غیر معمولی قوّت بدرجۂ اتم موجود تھی۔
قائداعظم اور گاندھی جی کے علاوہ جن سیاست دانوںکو دیکھااُن میں لیاقت علی خاں،جواہر لال نہرو کے ساتھ مسلم لیگ اور کانگریس کے لگ بھگ سارے ہی سربرآوردہ رہنماشامل تھے۔یہی نہیں، اعلیٰ انگریز افسران اور حکومتِ برطانیہ کی ہدایت پر لندن سے آنے والے سفارتی اہل کاروں سے بھی ہر وقت کا ساتھ رہا۔پاکستان کا قیام عمل میں آیا، تواگست 1947ءمیں قدرت اللہ شہاب کو نئی دہلی سے آغاہلالی کی جانب سے ایک خط موصول ہوا جس کے مطابق اُنہیں پاکستان کی وزارتِ تجارت میں انڈر سیکریٹری مقرّر کیے جانے کی اطلاع کے ساتھ ہی کراچی پہنچ کر عہدہ سنبھالنے کا حکم دیا گیا تھا۔
یہ حکم نامہ یوں محسوس ہوا ،گویا پاکستان نے اُنہیں کوئی عہدہ نہیں ،سلطنت تھما دی ہو۔پاکستان کے اوّلین دارالحکومت، کراچی میں پہلی پوسٹنگ انڈر سیکریٹری امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ کے طور پر ہوئی۔قدرت اللہ شہاب نے کوشش کی کہ عُہدے کی مناسبت سے کام کی سوجھ بوجھ پیدا کی جائے اور یہ کوشش کام یاب بھی رہی۔وزارت، آئی آئی چندریگرکی تھی ، جواُن کی صلاحیت سے بہت متاثّر تھے۔پاکستان کے قیام کے اوّلین دنوں ہی میں ایک دل چسپ واقعہ یہ بھی پیش آیا کہ قدرت اللہ شہاب نے اپنی بیمہ پالیسی ختم کر کے پیسے لیے اور اُسی رقم سے ایک پرانی گاڑی خریدلی۔
مگر گاڑی کے سودے میں وہ دھوکا کھا گئے اور خریدی جانے والی گاڑی نے پریشان کرنا شروع کر دیا۔یہ بھی اتفاق ہوا کہ کشمیر ی رہنما چوہدری غلام عبّاس قائدِاعظم سے ملنے کراچی آئے اور قدرت اللہ شہاب کی ناکارہ گاڑی ہی میں بیٹھ کر اُن سے ملاقات کو پہنچے۔ گاڑی نے مہمانوں کو کسی نہ کسی طرح گورنر جنرل ہاؤس تک پہنچا ہی دیا۔ اُنہی دنوں، جب ہندوستان سے لُٹے پِٹے مہاجرین کی آمد کا سلسلہ جاری تھا،قدرت اللہ شہاب کے ایک عزیز دوست کو بھی کراچی آنا تھا،سو اپنے دوست کی تلاش میں مہاجرین کیمپس کو کھنگالنا بھی ایک مستقل کام بن گیا۔
دوست تو نہ مل سکا،البتہ مہاجرین کی دُکھ بھری زندگی اور کہانیاں سن سن کر اس قدر متاثر ہوئے کہ ’’یا خدا‘‘ کے عنوان سے ایک طویل افسانہ ’’نیا دَور‘‘ کے ’’فسادات نمبر‘‘ کی زینت بنا اور شہرت کی بلندیاں طے کر گیا۔اگلے ہی برس 1948 ءمیں کراچی سے اس کو کتابی شکل میں شایع کر دیا گیا اور اُسے بھی ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔پٹنہ یونی وَرسٹی، بہار (ہندوستان ) سے ظفر سعید نے 1989ءمیں’’تقسیمِ ہند اور اُردو افسانہ ‘‘کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔
انہوں نے اپنے مقالے میں’’یاخدا‘‘ پر تفصیلی اظہارِ خیال کیا ہے۔ ڈاکٹر ظفر سعید ایک مقام پر تحریر کرتے ہیں ’’بظاہر فساد کا موضوع ایک ہے اور اکہرا ہے، مگر اس کے متعدّد پہلو ہیں اور مجموعی طور پر ایک سنگین المیہ ہے، جس سے ایک پوری نسل دو چار ہوئی اوراس کے اثرات بعد کی نسل پر بھی برابر مرتّب ہوتے رہے۔ فسادات کے وہی افسانے دامنِ دل کو کھینچتے ہیں ،جن میں انسان کی انفرادی اور تہذیبی زندگی کا یہی زبردست المیہ پیش ہو ا ہے۔ وہ افسانے جن میں ماحول کا جبر در و کرب کاایک لامتناہی سلسلہ چھوڑ گیا ہے، اردو افسانوی ادب میں قابلِ قدر اضافہ ہیں۔ جن کی اہمیت و افادیت سے ہم کبھی پہلو تہی نہیں کر سکتے۔ایسی ہی ایک کہانی قدرت اللہ شہاب کی تصنیف ’’یا خدا‘‘ ہے ،جو فسادات پر اردو کی چند بہترین کہانیوں میں شمار ہونے کے لائق ہے‘‘۔
1948 ءمیں حکومتِ پاکستان کی جانب سے آزاد کشمیرکی نو منتخب کابینہ کا نظم و نسق سنبھالنے کی ذمّےداری تفویض کی گئی ۔ وہ آزاد کشمیر کے پہلے سیکریٹری جنرل مقرّر ہوئے۔ اُن کے بعد سیکریٹری جنرل کی جگہ چیف سیکریٹری کے عہدے نے لے لی۔ 1951ءمیں پاکستان کے اوّلین وزیراعظم، لیاقت علی خاں کی شہادت ہوئی تو قدرت اللہ شہاب پشاور میں ن۔ م۔ راشد کے یہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ پورا مُلک اس خبر سے دم بخود رہ گیا۔جب غلام محمّد گورنر جنرل ہوئے، تو قدرت اللہ شہاب کو1954 ءکے آخر میں اُن کا سیکریٹری مقرّر کردیا گیا۔کچھ عرصے بعد اُنہیں وزارتِ اطلاعات و نشریات میں فارن پبلسٹی کا انچارج ڈپٹی سیکریٹری تعینات کر دیا گیا۔چند برس اسی عہدے پر کام کیا۔ مشتاق گورمانی وزیرِداخلہ و اطلاعات بنائے گئے۔ دو ماہ کے اندر ہی قدرت اللہ شہاب کو اطلاعات سے حکومت پنجاب میں ضلع جھنگ کا ڈپٹی کمشنر مقرّر کر دیا گیا۔ یہ اسی تعیناتی کا زمانہ تھا ، جب اُردو کے ممتاز ترین افسانہ نگار،سعادت حسن منٹو کو قدرت اللہ شہاب تبدیلیِ آب و ہوا کی غرض سے لاہور سے جھنگ لے کر آئے۔
اُن کی منٹو سے پرانی یاد اللہ تھی۔ تاہم ،منٹو وہاں زیادہ نہ رُک سکے۔ جھنگ سے وہ ایک تربیتی کورس کےسلسلےمیں چھے ماہ کے لیےہالینڈ بھیج دئیے گئے۔ جب اسکندر مرزانے عنانِ اقتدار سنبھالی،تو اپنے سیکریٹری کے طورپر قدرت اللہ شہاب ہی کو خدمات جاری رکھنے کا حکم دیا۔یوں قدرت اللہ شہاب کو ایک اور حکومتی سربراہ کے ساتھ براہِ راست کام کرنے کا موقع ملا۔ایسا ہی کچھ فیلڈ مارشل ایوّب خاں نے بھی کیا کہ جب 1958 ءمیں اسکندر مرزا کو چلتا کر کے خود اقتدار سنبھالا ،تو سیکریٹری کے طور پر قدرت اللہ شہاب سے یہ کہہ کر کام جاری رکھنے کا کہا گیا’’ہم فوجی لوگ ہر بات کی تحقیق کر لینے کے عادی ہیں۔ ہم نے انکوائری کر لی ہے۔ تم کسی چیز میں ملوث نہیں ہو۔ اس لیے مَیںنے تم کو اپنا سیکریٹری مقرّر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘یوں دن گزرتے گئے اورقدرت اللہ شہاب فوجی حکمراں کے نزدیک ہوتے گئے۔ نِت نئے مارشل لا قوانین اب ہر طرح کی آزادیوں کو سلب کرنے کے درپے نظر آنے لگے۔
اُنہی دنوں ادیبوں کا ایک وفد قدرت اللہ شہاب سے ملاقات کے لیے آیا۔ ملنے والوں میں اُن کے دوست زیادہ تھے۔ وہاںتجویز پیش کی گئی کہ پورے پاکستان سے ادیبوں کوجمع کیا جائے اور ایک کنونشن منعقد کر کے ادب اور ادیبوں کی فلاح کے لیے کام کیا جائے۔ چناںچہ 8 دسمبر 1958 ءکو آٹھ کنوینرز (قدرت اللہ شہاب ، قراۃ العین حیدر،جمیل الدین عالی،ابن الحسن،ابنِ سعید،غلام عبّاس،عبّاس احمد عبّاسی،ضمیر الدین احمد ) کے دستخطوں سے ایک بیان جاری کیا گیا۔اور 29،30اور 31جنوری 1959 ء ء کو کراچی میں ’’آل پاکستان رائٹرزکنونشن‘‘ کا انعقاد ہوا۔ اپنی نوعیت کے اس اوّلین کنونشن میں مشرقی و مغربی پاکستان سے چوٹی کے212 ادیب اور شاعر مثبت اور منفی احساسات کے ساتھ شریک ہوئے۔
کنونشن کا کچھ اور نتیجہ نکلا ہو یا نہ نکلا ہو،یہ ضرور ہوا کہ ’’پاکستان رائٹرز گلڈ‘‘ کی بنیاد پڑگئی۔ اتفاقِ رائے سے قدرت اللہ شہاب کو سیکریٹری جنرل منتخب کیا گیا اور اُن پر ذمّے داری عائد کی گئی کہ وہ کنونشن کے تیسرے اور آخری روز صدرِ مملکت ایّوب خاں کو لے کر آئیں گے۔ گرچہ ا یّوب خاں یا دیگر اعلیٰ حکومتی ارکان ،جن میں غالب تعداد فوجی افسران پر مشتمل تھی،ادب کو سُود و زیاں کی میزان میں گھاٹے کا سودا سمجھتے تھے،مگر قدرت اللہ شہاب نے اُس بھاری پتھر کو محض چوم کر چھوڑ ہی نہیں دیا،بلکہ کمالِ ہنر مندی سے مُلک کے اوّلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو نہ صرف تقریب میں شرکت کرنے پر آمادہ کیا،بلکہ اُنہیں سامعین کی صفوں لا بٹھایا ۔ جب بابائے اُردومولوی عبدالحق ،ڈاکٹر جاوید اقبال اور دیگر ادیبوں کی تقاریر ختم ہو گئیں، تو صدر کو تقریر کرنے پر بھی راضی کر لیا۔
اُسی دورِ ایّوبی میں جب میاں افتخار الدین کے ادارے ’’پروگریسیو پیپرز لمیٹیڈ ‘‘ کو مارشل لا حکم کے تحت سرکاری تحویل میں لیا گیا ،تو اُس ساری کارروائی کو جواز بخشنے کے لیے اُسی اخبار کے اداریے کا سہارا لیا گیا اور وہ اداریہ تحریر کرنے والے قدرت اللہ شہاب تھے۔تجزیہ نگاروں نے اس قسم کی آرا کا بھی اظہار کیا کہ اس عنوان سے ایسے کئی کام ،جن میں مُلک کے دارالحکومت کے طور پر اسلام آباد کا انتخاب،مُلک کو ’’اسلامک ریپبلک پاکستان‘‘ قرار دِلوانا،1962ءکے آئین کے پسِ پشت اصل قوّتِ محرّکہ ہونا،’’ناپسندیدہ پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس‘‘کا نفاذوغیرہ قدرت اللہ شہاب ہی کے ذہنِ زرخیز و شاداب کا شاخسانہ تھے ۔
وزارتِ اطلاعات میں تواتر سے اگلے کئی برس کام کرنے کے بعد 1963ء میں ہالینڈ میں سفیر بنا کر بھیج دئیے گئے۔1968 ءمیں قدرت اللہ شہاب ’’یونیسکو ایگزیکٹو بورڈ‘‘ کے رکن کے طور پر وابستہ ہوئے۔ غرض اُن کی ذاتی ترقّی کا سفر استقامت اورمستقل مزاجی سے جاری رہا۔ اُن کی زندگی کا ایک رُخ’’ روحانیات‘‘ بھی تھا۔اُردو کے ایک نام وَر محقق،مشفق خواجہ کا تحریر کردہ ’’خامہ بگوش کے قلم سے‘‘ اسّی اور نوّے کے عشرے میں شایع ہونے والابہت مقبول اخباری کالم کا ایک سلسلہ تھا،جس میں ادبی معاملات پر اُن کے قلم سے بہت تیکھی تحریریں سامنے آتیں ۔
اسی ذیل میں اُنہوں نے ’’شخصی خاکے یا دوستوں کے غلط نامے‘‘ کے عنوان سے قدرت اللہ شہاب کی زندگی کے اُس رُخ کے بارے میں ،جو روحانیات سے تعلق رکھتا ہے، کچھ یوں اظہارِ خیال کیا’’قدرت اللہ شہاب میں بے شمار خوبیاںتھیں،مگر خامیاںصرف تین تھیں۔ ابنِ انشاء،اشفاق احمد اور ممتاز مفتی۔ قدرت اللہ شہاب گرچہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے ،مگر اپنے مخصوص مزاج کی وجہ سے اُن میں عہدے داروں والی خُو بُو پیدا نہ ہو سکی۔ سوِل سروس کے اراکین اُنہیں ہمیشہ آؤٹ سائڈر سمجھتے رہے۔ اس صورتِ حال کی وجہ سے ان کی زندگی میں جو مجلسی خلاپیدا ہوا، اُسے انہوں نے ادب سے پُر کرنے کی کوشش کی ۔
ادب اُن کی زندگی میں آیا تو اہلِ ادب سے بھی شناسائی ہوئی، یوں تو متعدّد ادیبوں سے اُن کے تعلقات تھے ،لیکن ممتاز مفتی،اشفاق احمد اورابنِ انشاء ادب کے راستے ان کی ذاتی زندگی میں بھی داخل ہو گئے۔ ان تینوں کی وجہ سے قدرت اللہ شہاب کی تنہائی ختم ہوئی اور شہاب کی وجہ سے ان تینوں کی بہت سی محرومیوں کا ازالہ ہوا۔ یہ تینوں شہاب صاحب سے ملنے سے پہلے بے روزگار یا کم روزگار تھے ، بعد میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے۔ اس کے جواب میں ان تینوں نے شہاب کو وہ منصب عطا کیا ،جو صرف برگزیدہ نفوس ہی کو حاصل ہوتا ہے ۔
یعنی اچھے خاصے بیوروکریٹ قدرت اللہ شہاب کو’’ ولی اللہ‘‘ بنا دیا اور اُن سے ایسے ایسے واقعات منسوب کیے ،جو صوفیا اور اولیاء ہی کے تذکروں میں پڑھنے میں آتے ہیں۔ ‘‘مشفق خواجہ کی اس بات کا کچھ ثبوت ممتاز مفتی کی کتاب ’’لبّیک ‘‘ کے مطالعے سے ملتا ہے۔ ’’قدرت کا تبادلہ‘‘ کی سُرخی کے تحت ممتاز مفتی ایک مقام پر اپنے حجِ بیت اللہ کے لیے جانے کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں’’انہی دنوں اتفاق سے ایک درویش آ گئے ۔ انہوں نے قدرت کو مشورہ دیا کہ کیوں نہ آپ سفیر بن کر کچھ عرصے کے لیے مُلک سے باہر چلے جائیں،قدرت اللہ کو یہ بات قابلِ قبول نظر آئی۔ ان کی خواہش تھی کہ کوئی دور کی جگہ ہو، چھوٹا سا مُلک۔
اتفاق سے ہالینڈ کی سفارت خالی تھی، لہٰذا صدر(ایّوب)نے انہیں ہالینڈ کا سفیر بنا کر بھیج دیا۔ قدرت کے جانے کے بعد میرے نزدیک حج کا سارا منصوبہ ہی ڈھیر ہو کر رہ گیا، ایک سنّاٹا چھا گیا۔ خواب آنے بند ہو گئے۔ مستوں نے مجھے سرِ راہ ٹوکنا چھوڑ دیا۔ فقیر خاموش ہو گئے اور میں گویا ایک خلا میں ٹانگ دیا گیا۔ ‘‘ کہانی کہنے کا ڈھنگ قدرت اللہ شہاب کو خوب معلوم تھا۔اسی لیے حقیقت اور افسانے کے درمیان رنگ آمیزی اس کمال کی ہوتی کہ قاری کو یہ گمان ہی نہ ہو پاتا کہ کب حقیقت نے افسانے کا رُوپ دھارا اور کب اور کیسے افسانہ حقیقت میں ڈھل گیا۔
یہ بات اُن کی لازوال خودنوشت ’’شہاب نامہ‘‘ پر بھی صادق آتی ہے کہ جس میں مصنّف نے تقسیم سے پہلے کے ہندوستان اور تقسیم کے بعد کی نئی مملکت پاکستان کے اوّلین دو عشروں کا آنکھوں دیکھا احوال مقتدر حلقوں کے ایک طاقت وَر کردار کی حیثیت سے کچھ اس خوبی سے بیان کیا کہ اُسے پڑھ کر یہ رائے قائم کرنا مشکل محسوس ہوتا ہے کہ مصنّف نے واقعات کے بیان میں کمال دکھایا ہے یا کردار نگاری کی عکّاسی میں اپنے ہُنر کا غیر معمولی اظہار کیا ہے۔
اُردو کی ایک نام وَر مصنّفہ، ممتاز شیریں نے قدرت اللہ شہاب کے افسانوں کا بہت گہرائی سے تجزیہ کیا ہے۔ وہ ’’معیار‘‘ میں اس ضمن میں یوں رقم طراز ہیںکہ’’شہاب کا فن خاموش فن ہے۔ فن میں مقصد اس طرح ڈھکا رہتا ہے کہ ہم اُسے دیکھے بغیر محسوس کر سکتے ہیں، اس سے اثر لے سکتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں ہمیشہ ایک اخلاقی نظریہ ہوتا ہے ،جو وعظ اور نصیحت نہیں بنتا بلکہ افسانے کے جسم میں پنہاں ہوتا ہے ،لیکن جسے ہم محسوس کر لیتے ہیں۔ ’’تلاش‘‘،’’غریب خانہ‘‘،’’جگ جگ ‘‘،’’سب کا مالک‘‘ اور ’’اسٹینو گرافر‘‘میں یہ احساس موجود ہے۔ شہاب میں سماجی شعور پہلے بھی تھا اور اب یہ شعور بڑھتا جا رہا ہے۔ اس موقعے پر ’’یا خدا‘‘ کی تخلیق کوئی معمولی کام یابی نہیں۔ ’’یا خدا‘‘ فسادات پر اب تک چھپے افسانوں میں بلاشبہ بہترین ہے۔ یہ ان افسانوں میں سے ہے، جن کا موضوع وقتی ہونے کے باوجود، دیر پااثر کرتا ہے۔
اگر ایسے افسانے بھی کچھ اصلاح نہ کر سکیں، تو پھر افادی ادب کی باتیں کرنا بے کارہے۔ ‘‘احمد بشیر نے اپنے تحریر کردہ خاکوں ’’جو ملے تھے راستے میں‘‘ قدرت اللہ شہاب پر تحریر کیے گئے طویل اور دل چسپ خاکے’’پیر و مرشد ،قدرت اللہ شہاب‘‘ کا اختتام ان جملوں پر کیا ہے’’مَیں نے غلط کہا کہ کتاب مجھے پسند نہیں آئی۔ یہ میں نے جل کر کہا تھا،کیوں کہ یہ ایک کتاب مجھ پر حاوی ہو گئی تھی، حالاں کہ مَیں نے اس سے پہلے بہت سی اچھی کتابیں پڑھی ہیں۔ ‘‘
کم عُمری ہی سے کام یابیاں سمیٹنے والے، نمایاں کار کردگی دِکھانے والے قدرت اللہ شہاب، 24 جولائی 1986 ءکو اسلام آباد میں ابدی سفر پر روانہ ہوگئے۔ قدرت اللہ شہاب کی اہلیہ ،عفّت شہاب نے اپنے شوہر کا ہر پَل ساتھ دیا۔ اُن کی ایک ہی اولاد ،ثاقب شہاب شعبۂ طِب سے وابستہ ہیں۔ راول پنڈی میڈیکل کالج،یونی وَرسٹی آف پنجاب سے فارغ التّحصیل ڈاکٹر ثاقب شہاب نے اپنے نام وَر باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے شعبۂ طب میں نہ صرف نام پیدا کیا،بلکہ اپنے والد اور اپنی دھرتی کی نیک نامی کا بھی باعث قرار پائے۔ وہ 2012 ءمیں کینیڈا کی ریاست، Saskatchewan کے چیف میڈیکل آفیسر بنائے گئےاور تا حال اِسی عہدے پر فائز ہیں۔قبل ازیں، و2009ء سے 2012ء تک ڈپٹی چیف میڈیکل ہیلتھ آفیسر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ ’’رائل کالج آف فزیشنز ،کینیڈا کے Public Health and Preventive Medicineکے فیلو ہونے کے علاوہ Royal College of Physicians, UKکے ممبر بھی رہے۔
دنیا بھر میں تباہی پھیلانے والا COVID-19جو ’’کورونا وائرس‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور جس نے جدید تاریخ میں ہلاکتوں کی نئی تاریخ رقم کر دی ہے،کینیڈا کو بھی بری طرح متاثر کر گیا۔ تاہم،مصیبت کی اس گھڑی میں ڈاکٹر ثاقب شہاب کینیڈین شہریوں کے لیے اُمید اور حوصلے کی روشن ترین کرن بن کر سامنے آئےہیں۔ اُنہوں نے مصیبت زدہ کینیڈین کے لیے ایسی بے مثال خدمات انجام دیں کہ اُن کا نام کینیڈا میں گھر گھر لیا جا رہا ہے، وہ ایک سلیبریٹی کا درجہ حاصل کر چُکے ہیں۔ لوگوں نے اُن کی محبت میں نہ صرف اُن کے انداز و اطوار کو اپنانا شروع کردیا ہے، بلکہ اپنے آپ کو فخریہ ’’شہاب اسکواڈ‘‘ کے طور پر متعارف کروانے لگےہیں۔
ایک شخص نے ٹوئیٹ کیاکہ’’ایک دن آئے گا، جب ہم پہلے کی طرح جینا شروع کردیں گے اور اُس دن میںڈاکٹر شہاب سے مصافحہ کرنا اپنے لیے باعثِ فخر سمجھوںگا۔ ‘‘ عبداللہ صاحب کی اَن تھک محنت سے قدرت اللہ شہاب کی غیر معمولی ذہانت اور وہاں سے ثاقب شہاب کی انسانیت کے لیے دی جانے والی بے لوث خدمات نے نسل در نسل روشن چراغوں کا ایک سلسلہ قائم کررکھا ہے۔