• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برطانیہ کی معیشت 2007کے بعد تاحال کسادبازاری) (Recessionمیں ہے۔ بے روزگاری میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، عام آدمی کی قوت خرید کم ہوتی جارہی ہے۔کیمرون اور کلیگ مخلوط حکومت عوام کو طفل تسلیاں دینے کے لیے نت نئے افسانے تراشتی رہتی ہے۔ لیکن ان کی کوئی تدبیر حالات سنوارنے میں ممدومعاون ثابت نہیں ہورہی۔ اب اس مخلوط حکومت کا خیال ہے کہ برطانیہ میں مینوفیکچرنگ انڈسٹری میں بہتری آجائے گی جس سے بڑھتی ہوئی بے روزگاری رک جائے گی۔ اس ضمن میں انہوں نے March of the Makersکا نعرہ بھی لگایا۔ لیکن بدقسمتی سے بہتری کی طرف جانے کے بجائے مینو فیکچرنگ انڈسٹری کی کارکردگی پچھلے کوارئر میں گزشتہ برس سے بھی نیچے گر گئی۔ کیونکہ اس بری حالت میں مزید پھنسی معیشت میں بہت سے سرمایہ کار تیزی سے اپنا سرمایہ ملک سے باہر ٹیکس سے محفوظ زون میں لے جارہے ہیں۔ یا پھر سرمایہ کاری کے بجائے اپنے قرضے واپس لوٹارہے ہیں، یہاں افراط زر ابھی 4فیصد سے اوپر جارہی ہے گو کہ چھوٹے ٹریڈرز اور دکاندار قیمتوں میں کمی کر کے اپنے سرمائے کا سر کولیشن برقرار رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ مارکیٹ میں اس بدلے وقت میں اپناوجود قائم رکھ سکیں۔ دوسرے جانب تیزی سے اوپر کی جانب بڑھتے ہوئے سفر کے کرائے گیس، بجلی اور پانی کے نرخ کم آمدنی والے اور بے روزگار افراد اور خاندانوں کو بری طرح متاثر کررہے ہیں۔ یہ بڑھتا ہوا مہنگائی اور بے روزگاری کا سیلاب سوشل سکوت میں بڑے اضطراب اور طوفان کا خطرہ محسوس ہورہا ہے۔ خصوصی طور پر ایسے وقت میں جب ایک طرف عوام مہنگائی سے تنگ ہوتے جارہے ہیں۔ دوسری جانب ان کے سوشل بینفٹس اور الاؤنسز پر حکومتی پالیسیاں کاری ضرب لگارہی ہیں۔ جس کی وجہ سے ٹریڈ یونینز اور دوسرے گروہ سڑکوں پر آنے کے منصوبے بنارہے ہیں۔ موجودہ حکومت کی پالیساں معیشت کو بحران سے نکالنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہیں۔ خدشہ یہ ہے کہ جس طریقے سے حکومتی حکمت عملی سے برطانیہ کی معیشت سکڑتی جارہی ہے اس میں ماہرین کا خیال ہے کہ 2020ء میں لوگوں کی انکم اور وسائل 2007ء کے لیول پر یا اس سے بھی کم ہوجائیں گے جو کہ پریشان کن صورتحال ہے۔دوسری جانب اعداد شمار یہ بھی بتارہے ہیں کہ موجودہ حکومتی پالیسی سے برطانیہ کی امیر ترین کلاس اور کمپنیاں کافی مال بنارہی ہیں۔ اس وقت اس ایک فیصد امیر لوگوں کے پاس برطانیہ کی دولت کا 21فیصد ہے۔ لیکن حکومت بضد ہے کہ غریب طبقے کی سہولیات اور مراعات کو کم کرنے (CUTS)کی پالیسی سے حالات بہتر ہوجائیں گے۔ دراصل یہ موجودہ حکومت امیر ترین کلاس روم(Bankocracy) کی فطری اتحادی ہے جو حکومت پر مسلسل خسارہ کم کرنے پر دباؤ ڈال رہے ہیں اور یہ تمام خسارہ صرف نچلے طبقے پر بوجھ میں اضافہ کر کے پورا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اس حکومتی حکمت عملی کے خطرناک اور دوردس اثرات مرتب ہوں گے لیکن حکومت پبلک سیکٹر کو سیکٹر نا یا ختم کرنا چاہتی ہے اور ویلفےئر سٹیٹ کی بنیاد کو ہلاناچاہتی ہے۔ جس میں ٹریڈ یونین کی حوصلہ شکنی اور خاتمہ بھی مقصود ہے اورفرد کا ریاست اور اداروں پر فلاحی ریاستوں والا انحصار بھی ختم کرنا چاہتی ہے تاکہ سرمایہ دارانہ نظام صرف منافع کی بنیاد پر استوار ہو۔ اس کے لیے پبلک سیکٹر میں ورکروں کی تنخواہوں میں اضافے کو کئی سال کے لیے منجمد کیاجارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریل، ٹرانسپورٹ اور تعلیمی اداروں میں آئے دن ہڑتالیں ہورہی ہیں اور حکومت کھل کر صرف امیر طبقے کی خدمت میں مصروف ہے اور اس معاشی بحران کا پورا بوجھ صرف نچلے طبقے پر ڈال رہی ہے۔ ابھی گزشتہ روز اپنے چھ بچوں کو گھر میں جلانے والے فل پوٹ Philpotکی سزا پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیراعظم کیمرون نے وزیر خزانہ اوزبورن کے بیان کی بھرپور تائید میں پورے ویلفےئر سسٹم کا ازسر نو جائزہ لینے کے لئے کہا ہے جس میں وہ فلاحی ریاست Welfarestateکے پورے تصور کو زیر بحث لانا چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ فل پوٹ Mick Philpotنے ڈربی میں اس لیے اپنے مکان کو (جس میں اس کے اپنے چھ بچے سورہے تھے) آگ لگادی تھی کہ وہ اپنی گزشتہ بیوی اور گرل فرینڈ کے بچوں کی نگہداشت کے عدالت میں کئے جانے والے دعوے کو جھوٹا ثابت کرنا چاہتا تھا۔ تاکہ وہ اس آگ کے واقعے کاالزام ان پر لگا کر بچوں کی Custodyاپنے پاس رکھے اور اس کی سوشل سیکورٹی لینے کا سلسلہ بند نہ ہو۔ معاملہ اس کے ہاتھ سے نکل گیا اور وہ اپنے ہی چھ بچوں کو اپنے ہاتھوں سے جلا بیٹھا۔ اس مجرمانہ فعل کو وزیراعظم اور وزیر خزانہ نے پورے ویلفیئر سسٹم پر حملہ قرار دیا ہے۔ اب وہ اس ایک کیس کو لے کر پورے ویلفےئر سسٹم کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اس نقطہ نظر کے مخالفین اسے وزیرخزانہ کی مخصوص دماغی کیفیت قرار دے رہے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں ایک مثال کو پوری سوسائٹی پر لاگو نہیں کیاجاسکتا۔دراصل کیمرون اور اوزبون کا نقطہ نظر ویلفےئر سسٹم کے خلاف بد نیتی کا اظہار ہے۔ فل پوٹ کا طرز عمل پوری سوسائٹی کا عمومی رجحان قرارنہیں دیاجاسکتا۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ فل پوٹ اپنے تمام بچوں کے بینفٹ ملا کر مجموعی طورپر 55ہزار پونڈ سالانہ وصول کررہا تھا… اب حکومت نے اسی حالات میں رہنے والے کے لیے اس رقم کو گھٹا کر 26000ہزار پونڈ کردیا ہے۔ حکومت کے اس اقدام کو بھی عوام کے خلاف انتقامی کارروائی قرار دیا جارہا ہے۔ کیونکہ ایسے اقدامات سے حکومت کو بے روزگار لوگوں کے زیادہ بے گھر ہونے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کم از کم آمدنی Minimum Income Standardکی حدود کا تعین کرتے ہوئے کیا گیا ہے کہ ان CUSTبینفٹس میں 1/3کی کمی ہوجائے گی۔ مثلاً 100پونڈ ہفتہ لینے والا اب70پونڈ ہفتے پر آجائے گا۔ پہلے ہی بے روزگار خاندان کساد بازاری کی وجہ سے بڑھنے والی مہنگائی میں 16سے 20فیصد تک گزشتہ برسوں کے مقابلے میں کم بینفٹ لے رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی کوالٹی آف لائف میں کمی واقع ہوتی ہے۔ برطانیہ میں اس وقت ایک سنگل فرد کو کم ازکم معیار برقرار رکھنے کے لیے بارہ ہزارپونڈ سالانہ درکار ہیں۔ دو چھوٹے بچوں کے ساتھ ایک جوڑے کو کم ازکم18ہزار پونڈ کمانے یا بینفٹ سے حاصل کرنے ضروری ہیں۔ اس انکم میں کمی نے لوگوں کو بہت غریبی کی حالت میں زندہ رہنے پر مجبور کردیا ہے۔ میں نے خود کئی ایسے خاندان اور افراد دیکھے ہیں جو سردیوں میں گھروں کو گرم کرنے کی ہمت نہیں رکھتے اور گھروں کے اندر گرم کپڑے پہن کے گزارہ کرتے ہیں کمپیوٹر وغیرہ اسکول جانے والے بچوں کی بنیادی ضرورت بن چکے ہیں۔ جو زن رونٹری فاؤنڈیشن نے 2008ء میں اس نوعیت کے اعداد وشمار جاری کیے تھے جس میں کم ازکم آمدنی کے معیار Minimum Income Standardکا تعین کیا گیا تھا۔ اس کے بعد 2012ء میں اس طرح کے اعداد وشمار جاری کیے گئے ہیں۔ جس کی بنیاد پر پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے انتہائی زیادہ ہونے کے باعث ایک چھوٹی فیملی کے لیے کار بنیادی ضرورت کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ لیکن آمدنی کے مقابلے میں مہنگائی کے بڑھتے تناسب نے فیملی کی لائف کوالٹی کو سیکٹر دیا ہے۔ تفریحی سرگرمیاں معمولات زندگی میں سے خارج ہوچکی ہیں۔ یونیورسل کریڈٹ کے نظام نے نوجوانوں کی بے چینی میں اضافہ کیا ہے جس وجہ سے جرائم کے رحجان میں اضافہ ہورہا ہے۔ دوسری جانب مکانوں کے کرائے CAPکرنے سے بے روزگار خاندانوں کے لیے اوپن مارکیٹ میں مکانوں کی دستیابی ناممکن ہوچکی ہے۔ موجودہ حکومتی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے سوسائٹی مزید پیچھے کی طرف جارہی ہے۔ جس طرح سے کہا جارہا ہے کہ آج کل مکانوں کی قیمتیں تقریباً2005 کے برابر ہیں۔ گویا گزشتہ آٹھ برسوں میں مارکیٹ وہیں کھڑی ہے یا دوسرے لفظوں میں وہاں تک پیچھے جاچکی ہے۔ ہماری کمیونٹی بھی اس بحران سے مستشنیٰ نہیں ہے۔ لوگ اپنے رہن سہن میں ایک خاص مقام تک تو لچک پیدا کرسکتے ہیں لیکن اس نچلی سطح سے مزید نیچے جانا ممکن نہیں رہے گا۔ گارڈین کی رپورٹ کے مطابق عوام حکومت کی موجودہ پالیسیوں سے کافی خوفزدہ ہیں اور وہ وقت دور نہیں ہے جب دوسرے یورپی ممالک کی طرح یہاں بھی لوگ سڑکوں پر نکل آئیں گے اور اس گرتے ہوئے معیار زندگی کے خلاف ہنگامے شروع ہوجائیں گے۔ تاہم ابھی آئندہ چند برسوں میں برطانوی معیشت میں بہتری کے امکانات نظر نہیں آتے۔
تازہ ترین