محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
گزشتہ سال موسم کی شدت نے زور پکڑا ۔ گرمی بھی حددرجہ ہوئی جبکہ سردی نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی اور پھر سب سے بڑھ کر جو طوفانی بارش ہوئی اس نے مضبوط اور پکے گھروں کو بھی ہلا کر رکھ دیایہ تو پھر اپنے گرے ہوئے مکان کی اینٹوں پر ہی بیٹھے تھے ۔ہنگامی انتظام میں انہوں نے صرف پلاسٹک کی چادر تان لی تھی وہ بھی ان لوگوں نے جنہیںیہ میسر تھی ورنہ تو اسی طرح سردی میں ،بارش میں ٹھٹھرتے رہے۔اور پھر اب اسی ایک سال کے اندر کرونا وائرس جیسی عالمی وباء بھی پھیل گئی ۔جس کا نشانہ خاص یہ کچی آبادیاں ہیں جن میں فاصلہ برائے نام ہی ہے ۔
اب یہ لوگ ریل کی پٹری پر نہیں خطرہ کی لکیر پر بیٹھے ہیں ۔ایسے میں حکومت کا یہ بیان خاصا مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے کہ ’’ گھر پر رہیں ،محفوظ رہیں‘‘ کیا حکومت کونہیںیاد کہ سپریم کورٹ کے ایک سال کے اندر متبادل رہائش دینے کے انتظار میں ان بے بس لوگوں نے ایک سال گزار دیا ہے لیکن آپ تو آرڈر دیکر بھول گئے
سپریم کورٹ نے واضح الفاظ میں اپنا فیصلہ دیا کہ کراچی سرکلر ریلوے کو جلد ازجلد بحال کیا جائے ۔اس کی زد میں آنے والی آبادیوں کو 15دن کے اندرصاف یا بے دخل کردیا جائے ،ایک ماہ میں کراچی سرکلر ریلوے چلائی جائے گی ۔جبکہ ان بے دخل ہونے والی بستیوں کو ایک سال کے اندر ڈیسینٹ متبادل رہائش کے تحت بسایا جائے گا تاکہ ایک نئی کچی آبادی کا وجودنہ ہو۔اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ ایک ماہ میں ٹرین چلنا ناممکن ہے جبکہ جگہ جگہ ریلوے ٹریک ہی غائب ہیں۔
ریلوے اسٹیشن اپنی شناخت کھو چکے ہیں ۔کئی جگہوں پر تو ٹریک اکھاڑ کر ٹرانسپورٹ کی آمدورفت کورواں رکھنے کے لیے پل یا سڑک بنادی گئی ہے۔یہ سب تو نظر آنے والے زمینی حقائق ہیں ۔اب ریل کی اپنی حالت کس حالت میں ہے وہ ایک الگ بحث ہے ۔
بجائے ان سب کو یقینی بنایاجاتا متعلقہ اداروں نے اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے ضلع وسطی میں قائم قائد اعظم کالونی اور غریب آباد اور دیگر بستیاں مسمار کردیں ۔ صرف ایک حصہ یعنی بے دخلی پر عمل درآمد ہوا ان کی بحالی کے فیصلے پرکوئی بات کرتا نظر نہیں آتا۔اور اب جبکہ ایک سال سے زائد عرصہ گزرگیا لیکن کسی نے آکر ان سے موسم کی سختی اور تہواروں کے موقعے پر بے گھری کا دکھ جاننے کی کوشش نہیں کی ۔انسانی حقوق کے عالمی منشور کے آرٹیکل 25(i)کے مطابق ’’ہر شخص ایک معقول معیارِ زندگی کا حق رکھتاہے۔جو اس کے خاندان کی صحت اور فلاح و بہبود کی ضمانت فراہم کرسکے۔جس میں رہائش کی سہولتیں بھی شامل ہیں‘‘
اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسوں رواں تھے، اور کیوں نہ ہوتے۔ پیسا پیسا جوڑ کر پچاس برسوں میں تعمیر کیا گیا گھر پل بھر میں زمیں بوس کردیا گیا۔ متاعِ حیات مٹی میں ملادی گئی، اس کی پوری ’’زندگی‘‘ لمحے بھر میں ملبے کا ڈھیر بن گئی۔ اسی ملبے پر بیٹھ کر وہ اس ترقی کو دہائی دے رہی تھی جس کے نام پر اسے بے سر و سامان اور بے گھر کردیا گیا۔ اسے وعدے دلاسے دیے گئے لیکن ایک برس گزر گیا، سرکلر ریلوے چلی نہ اس کی زندگی پٹری پر چڑھی۔
یہ بی پاشا ہیں، یہاں کی 80سالہ بیوہ بزرگ خاتون ہیں،1970ء سے پہلے سے ہی یہاںآباد ہیں اس وقت کرائے کی جھگی میں رہتی تھیں۔ان کے شوہر صبح گھروں میں اخبار ڈالتے اور ساتھ ہی کسی فیکٹری میں کام کرتے ۔بی پاشا بھی گھر پرہی آرڈرکامال تیار کرتیں۔ کپڑے کے تھیلے کی سلائی کرتیں ۔اس طرح ان میاں بیوی نے محنت کرتے ہوئے جھگی کی جگہ خریدی ۔تھوڑا تھوڑا کرکے اس کی تعمیر کرتے گئے ۔ساتھ ہی تینوں بچوں کو تعلیم بھی دلوائی۔
اب یہی بی پاشااس بیدخلی کو ایک عظیم سانحہ قراردیتی ہیں۔جس نے ا ن کا سب کچھ چھین لیا ۔بقول بی پاشاایسالگتاہے کہ وقت مجھے پھر سے پیچھے کی جانب لے چلا ہے۔فرق صرف یہی ہے کہ اب یہی محنت میرے بچوں کو نئے سرے سے کرنی ہوگی۔
یہ صرف ایک بی پاشا کی کہانی نہیں ۔بلکہ ہر اس شخص کی کہانی ہے جس نے مکان کو گھر کرنے میں کیا کیا صعوبتیں نہیں اٹھائی ہیں ۔ایسے میں خواتین کا حصہ زیادہ ہی نظر آتا ہے اور اب بے دخلی کے بعد بھی خواتین ہی زیادہ متاثر ہیں۔قائداعظم کالونی کی مسماری میں بھی ان خواتین کااحوال سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اربن ریسورس سینٹر کی سیما لیاقت نے اپنے مضمون ’’بے گھر ، بے پردہ اور بےچارگی کا کھلے آسمان تلے…ایک سال‘‘ میں تحریر کرتی ہیں کہ11مئی 2019ء جب رمضان میں گرمی کی لہر چلی تھی اس وقت ہر کوئی سایہ ،چھائوں تلاش کرتا پھررہاتھا ایسے میں عصر کے وقت جبکہ مکین کی اکثریت روزہ سے تھی ۔
مرد ملازمت سے آکر کچھ دم کے لیے سستارہے ہیں تو خواتین افطار کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور بچے باہر پٹری پر کھیل رہے ہیں کہ ایک دم سے بلڈوزر کا شورسنائی دیتا ہے ۔بچے سہم کر گھر کی طرف لپکے ۔خواتین گھبراگئیں پورا گھر باہرنکل آیا۔اس افتاد پر التجا کی، سوال جواب کئے ،مہلت مانگی لیکن کچھ بھی کارآمد نہ رہا ۔اسی اثناء میں ایک اور بلڈوزرآگیا۔ اوردیکھتے ہی دیکھتے قائداعظم کالونی کی مکمل آبادی اور غریب آباد کی جزوی آبادی کھنڈر بن گئی جیسا کہ کاغذ کے گھر تھے۔
کراچی سرکلر ریلوے منصوبے کے نام پر وہ آبادی ختم کردی گئی جو1999ٗ ء میں اس وقت بھی آباد تھی جب یہاں سے لوکل ٹرین گزرتی تھی۔اور یہ لوگ اسی طرح ریل کی پٹری کے ساتھ ہی اپنے خاندان کے ہمراہ کہیں جھگی اور کہیں مکان کی صورت زندگی کی گاڑی گھسیٹ ہی رہے تھے ۔
گھر اور گرہستی یہ الفاظ خواتین کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں جس میں چادر اور چہار دیواری کا تقدس لازمی ہے ۔ مکانات توڑ دیئے گئے ۔پورے ایک سال یہ اپنے ہی گھر کے ملبہ پر بیٹھی ہیں۔ان مزدور پیشہ طبقہ کا دوسرا ٹھکانہ کوئی نہیں۔80مکانات پر مشتمل جو آبادی مکمل طور پر توڑدی گئی ۔ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ کھلے میدان میں بلکہ کسی گزرگاہ میں بیٹھے ہوئے ہیں ۔پہلے تو لوگوں کو سمجھ ہی نہ آئی ۔پھر چونکہ اپنے گھر کی خواتین کے ساتھ رہنے کے کچھ انتظام توکرنے ہی تھے لہٰذا ملبہ پر ہی آڑھی ترچھی چادر تان کر اتنی جگہ نکلی کہ دوتین لوگ آڑھ میں بیٹھ سکیں ۔رات سونے کے لیے کہیں ٹوٹی ہوئی اینٹیں ،لکڑی کا تختہ بچھایا گیا ،کچھ گھروں میں پلنگ بھی تھا لیکن ان خواتین کے مطابق چونکہ یہ ریل کی پٹری ایک راستہ بھی ہے لہٰذا آس پاس کے کارخانوں میں کام کرنے والے مزدور اور دیگر لوگ یہیں سے گزرتے ہیں تو اس آہٹ میں ہم اپنی بچیوں کو ساتھ لیکر کس طرح سوئیں یہ ہماری سب سے بڑی بے چارگی ہے۔
خواتین مستقل طور پر گھر ہی کاحصہ ہوتی ہیں ۔مردحضرات اپنا وقت گھر سے باہر بھی گزارلیتے ہیں لیکن ان خواتین کی سوچ کا محور صوف اور صرف گھر ہی رہ جاتا ہے ۔کبھی یہ ٹوٹی ہوئی چہار دیواری کو حسرت سے دیکھتی ہیں ۔پھر اپنے سامان کے نقصان کا افسوس کررہی ہوتی ہیں جو بڑی محنت اور چاہ سے جمع کیا ہوتا ہے۔گھر والوں کی صحت ،انکی ضرورت کی فکر اس بے گھر ی کی صورتحال میں اور بڑھ جاتی ہے ۔ہر طرف سے ان کی تشویش میںاضافہ ہی ہورہا ہوتاہے۔بیک وقت ان میں مایوسی ،ناامیدی اور غیر یقینی کی اکھاڑ پچھاڑ ہورہی ہوتی ہے جوان کی بھی جسمانی و ذہنی صحت متاثر کرتی ہے۔
کچھ ضروریات تو انسان کے ساتھ جڑی ہی ہوئی ہیں جنہیں کسی اور موقع یا وقت کے لیے نہیں ٹالا جاسکتا۔اسی لیے اپنی حاجت پوری کرنے کے لیے وہاں ملبہ کے ڈھیر کے نیچے ٹوٹے پھوٹے فلیش کے آثار ملنے پر وہیں لکڑی کے پٹھے ،چادر ،اینٹ ،پلنگ رکھ کر اسے ٹوائلٹ کا نام دیدیا گیا۔کہیں تو پردہ کے لیے چادر بھی نہیں ایک عورت دوسری عورت کی چوکیداری کرتی ہے ۔80مکانات میں80ٹوائلٹ تو رہیں ہونگے لیکن اب اس کی جگہ صرف یہ چار پانچ ٹوائلٹ کے نام پر رہ گئے۔کیسا پردہ کیسی آڑ ،یہ تو ویسے بھی عوامی گزرگاہ ہے مرد حضرات تو ہوٹل ،مسجد یا اپنے کام کی جگہ چلے جاتے لیکن مسئلہ ان خواتین کا تھا ۔کسی دوسرے کے گھر کب تک جاتے ۔
ایک بزرگ شگر کی مریضہ خاتون ٹوائلٹ جاتے ہوئے ملبہ پر گر گئیں جس سے ان کا چہرہ شدید زخمی ہوا ،ٹانکے آئے اور چنددنوں کے لیے کسی رشتہ دار کے گھر بھیج دیا گیا۔وہ خواتین جو اس طرح باہر نہیں آتی تھیں اب وہ مجبور ہیں لیکن ان کا حاجت روا کوئی بھی نہیں۔کسی کی بیٹی کسی کی بہو حاملہ رہیں ۔جب ایک صحت مند آدمی کے رہنے کی جگہ نہیں بچی تو یہ کہاں جائیں ۔مجبوراً انہیں اپنے رشتہ داروں کے گھر بھیج دیا گیا ۔کیا یہ باتیں انسانی وقار کے منافی نہیں۔انسانیت کا یہی معیار رہ گیا ہے کیا۔
بچوں اور خواتین کا زیادہ وقت گھر پر ہی گزرتا ہے ،بلکہ ماں ہی ہوتی ہے جو اپنے بچے کے لیے راہیں ہموار کرتی ہے لیکن یہاں تو سب ختم ہوگیا ۔ایسی ناگہانی آئی کہ کتابیں ،یونیفارم اپنی حالت میں نہ رہے۔ او ر اگر کتابیں، یونیفارم باقی بچ گئے تو والدین کے پاس فیس کے پیسے نہ رہے۔فوری طور پر روزگار ،اسکول سب ہی متاثر ہوا۔کہیں غیر حاضری کی بناء پر نام کاٹ دیا گیاتو کہیں مسماری کے دیگر مسائل میں ایسے الجھے کہ اس طرف توجہ دینے کا موقع ہی ملا۔دونوںصورتوں میں بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی۔اس سے زیادہ متاثر خاتون ہی ٹھہریں کیونکہ اب وہی بچے بے مقصد سارا دن انہی کے سامنے کھیل کود میں گزارہے ہیں اور وہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرسکتیں۔
خواتین کا محلہ داری ،آس پڑوس اور ہمسائیگی کے ساتھ بڑا ہی گہرارشتہ ہے ۔یہ پاس پڑوس کے تعلقات اتنے دیر پا ہوجاتے ہیں کہ اسی بناء پر کہاجاتا ہے کہ ’’ رشتہ دار بعد میں پہلے ہمسایہ ہی مشکل میں پہنچتا ہے‘‘ اب ایسی حالت میں بھی کالونی کے مرد عورت ایک بیٹھک کی صورت بیٹھے ہوتے ہیں۔جب دھوپ ہوتی ہے تو یہ الگ الگ کونے میں بکھر جاتے ہیں یا پھر ایک دو نیم کے پیڑ کے نیچے چارپائی ڈال لیتے ہیں ۔دھوپ کے سائے کے ساتھ ساتھ ان کی بیٹھک بھی سرکتی رہتی ہے اب یہ تعلقات دوسری شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ جوپہلے سے مضبوط بھی ہوسکتے ہیں۔اور یہ خاتون کے برتنے پر ہی ہوتا ہے کہ اسے ہی سارادن وہاں گزارنا ہوتا ہے لہٰذا وہ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ کسی بھی حال میں محلہ داری کا بھرم نہ ختم ہو۔
ہر خاندان کی ایک سوچ ایک مستقبل ہوتا ہے بالخصوص عورتوں نے ہی کچھ معاملات طے کیے ہوتے ہیں کہ ہماری کمیٹی کھلے گی تو ہم یہ کام کریں گے۔مکان کی مرمت ، بچوں کی شادیاں، مستقبل میں رہائش یہ سب سوچا ہواہوتا ہے لیکن اس مسماری کی بدولت بے گھر ہونے کی نوبت آئی اورخاندان کا مستقبل کہیں نہ رہا۔سب ملبہ کے ڈھیر کے ساتھ ڈھے جاتا ہے جسے اٹھنے میں، سنبھلنے میں ایک خاصا وقت درکار ہوتا ہے۔لوگ کسی کے احسان تلے دبے تو کسی کے مقروض بھی ہوئے۔
قائداعظم کالونی کی رہائشی خواتین ملازمت بھی کرتی تھیں کوئی اسکول میں پڑھاتا ،کوئی اسکول میں ماسی کاکام کرتیں،کچھ خواتین نزدیکی بنگلوں میں گھریلوملازمہ کے طور پر کام کرتیں۔لیکن اب بے گھر ی کی صورت میں ان کا روزگار متاثر ہواہے ۔مرد تو روزگار پر چلے ہی جاتے ہیں ،انہیں اپنے ملبے پر پڑے سامان کی حفاظت بھی کرنی ہوتی ہے۔ پہلے تو تالا کنڈی لگاکر چلے جاتے لیکن اب ایسا نہیں ہے ۔اس بات نے ان کی ملازمت متاثر کی ہے ۔یا توکسی کو ذمہ داری دینے کے انتظار میںدیر سے جاتی ہیں،یاپھر آئے دن چھٹیاں کی جاتی ہیں ۔نتیجہ میں روزگار بھی ہاتھ سے جاتا ہے اور غربت مزید غربت پیدا ہوتی ہے۔
بدقسمتی یہ بھی رہی کہ پچھلے سال موسم کی شدت نے زور پکڑا ۔گرمی بھی حددرجہ ہوئی جبکہ سردی نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی اور پھر سب سے بڑھ کر جو طوفانی بارش ہوئی اس نے مضبوط اور پکے گھروں کو بھی ہلا کر رکھدیایہ تو پھر اپنے گرے ہوئے مکان کی اینٹوں پر ہی بیٹھے تھے ۔ہنگامی انتظام میں انہوں نے صرف پلاسٹک کی چادر تان لی تھی وہ بھی ان لوگوں نے جنہیں یہ میسر تھی ورنہ تو اسی طرح سردی میں ،بارش میں ٹھٹھرتے رہے۔اورپھر اب اسی ایک سال کے اندر کرونا وائرس جیسی عالمی وباء بھی پھیل گئی ۔جس کا نشانہ خاص یہ کچی آبادیاں ہیں جن میں فاصلہ برائے نام ہی ہے ۔اب یہ لوگ ریل کی پٹری پر نہیں خطرہ کی لکیر پر بیٹھے ہیں ۔ایسے میں حکومت کا یہ بیان خاصا مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے کہ ’’ گھر پر رہیں ،محفوظ رہیں‘‘ کیا حکومت کونہیںیاد کہ سپریم کورٹ کے ایک سال کے اندر متبادل رہائش دینے کے انتظار میں ان بے بس لوگوں نے ایک سال گزار دیا ہے لیکن آپ تو آرڈر دیکر بھول گئے ۔
قانون میں انسانی وقار کو تسلیم کیا گیا ہے۔کچی آبادی کے رہائشی جس جگہ بیٹھے ہیں وہ اگر حکومت کوعوامی مفاد کے لیے درکار ہے تو بھی لازمی ہے کہ پہلے ان مکینوں کوتحریری نوٹس دے ،ان کے متبادل کاانتظام کرے اور اگر تمام کاروائی کے بعد بھی موسم نامناسب ہے تو ایسی صورت میں بے دخلی آپریشن نہیں ہوسکتا ۔لیکن یہاں تو معاملہ برعکس ہی ہوا ہے ۔ صرف لائوڈاسپیکر پر اعلان کرتے چلے گئے ۔نہ ہی انہیں اعتماد میں لیا گیا اور نہ ہی ان کے متبادل رہائش کی کوئی بات ہوئی۔
اربن ریسورس سینٹر کے کوآرڈینیٹر زاہد فاروق جو متاثرین کی ایکشن کمیٹی کے ساتھ رابطے میں بھی ہیں، کہتے ہیں کہ 11مئی کو جب سپریم کورٹ کے سرکلر ریلوے کی بحالی کے فیصلہ کی آڑ میں پاکستان ریلوے کی پولیس کی نگرانی میں ریلوے ٹریک کی اطراف کی آبادیوں گیلانی ریلوے اسٹیشن کے اطراف ضلع شرقی کی آبادی اور پھر قائداعظم کالونی ،غریب آباد ،موسیٰ کالونی،موسیٰ گوٹھ ،پنجاب کالونی ،واحد کالونی ،مجاہد کالونی میں آپریشن مسماری کیا گیا اوربغیر کسی تحریری پیشگی نوٹس کے 1,100خاندان بے گھر کردیئے گئے ۔متاثرین کا کہنا یہ تھا کہ پاکستان ریلوے جاپانی ایجنسی (جائیکا)سے متاثرین کا سروے کروایا۔ متوقع متاثرین کی کمپیوٹرائزڈ فہرست تیار کروائی۔کے سی آر منصوبہ کی عوامی سماعت(EIA)کروائی گئی۔ان سب کے باوجود جب متاثرین کو بے گھر کیا گیا تو انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔حالانکہ اسی دوران کمیشن برائے انسانی حقوق کے جسٹس نوازچوہان نے کئی بار بلدیہ عظمیٰ کراچی ،سندھ ماس ٹرانزٹ اتھارٹی ،کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی،سندھ کچی آبادیز اتھارٹی،محکمہ پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ سندھ اور سماجی تنظیم اربن ریسورس سینٹر (URC)کے نمائندوں کے ساتھ متاثرین کی درخواست کی سماعت کی ۔حکومتی اداروں کے ذمہ داران نے ہمیشہ متاثرین کی جمعہ گوٹھ ملیریاپھر متاثرین کی آبادیوں کے نزدیکی مقامات پر آبادکاری کامنصوبہ بنانے کی ہدایت کی۔پھر جب سپریم کورٹ پاکستان نے سرکلر ریلوے منصوبے کی تین ماہ میں بحالی کا فیصلہ کیا اور پندرہ دن میں سرکلر ریلوے کے اطراف کی آبادیوں کو مسمار کرنے کاحکم دیا اور اسی حکم کو بنیاد بناکر سرکلر ریلوے کی اطراف کی آبادیوں کے ایک بڑے حصہ کو مسمار کردیا گیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے یہ حکم بھی دیا تھا کہ متاثرین کو ایک سال کے اندر اندر دوسرے مقام پر تمام سہولیات کے ساتھ آبادکیا جائے لیکن جب آپریشن مسماری شروع ہوا تو متاثرین کے احتجاج کے باوجود کوئی بھی ادارہ متاثرین کی داد رسی نہیں کررہاتھا۔اس موقع پر سول سوسائٹی کی نمائندہ تنظیم نے جوائنٹ ایکشن کمیٹی (JAC)کے پلیٹ فارم سے اربن ریسورس سینٹر (URC)کی درخواست پر اکٹھی ہوئیں۔سول سوسائٹی کی تنظیموںعارف حسن ، کرامت علی ،آئی اے رحمان ،اسد اقبال بٹ ،قاضی خضر (ادارہ برائے انسانی حقوق)،شیما کرمانی (تحریکِ نسواں)،فرحت پروین (نائوکمیونٹیز)، ناصر منصور (نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن )،زہرا خان (ہو م بیسڈ ورکر فیڈریشن)، مہناز رحمان ،ملکہ خان (عورت فائونڈیشن )،نغمہ شیخ (ڈیموکریسی رپورٹنگ انٹرنیشنل )،ماہم مہر، اونیب اعظم ،ضیاء الرحمن ضیاء،سعید بلوچ (پاکستان فشر فوک فورم)،حاجی خان بادشاہ ،رانا صادق ،ایڈوکیٹ محمد علی شاہ ،معظم شاہ ،صغیر احمد انصاری ،چودھری طارق (کراچی سرکلر ریلوے متاثرین ایکشن کمیٹی )ڈاکٹر نوشین ،ڈاکٹر گلناز ،محمد توحید (کراچی اربن لیب )،سماجی رہنما فیصل ایدھی ،یوآرسی عملہ محمد یونس ،سیما لیاقت اور زاہدفاروق کی معاونت حاصل رہی ۔ قانونی مشاورت کے لیے فیصل صدیقی ایڈوکیٹ،شعیب اشرف ایڈوکیٹ،طارق منصور ایڈوکیٹ، محترمہ انیس ہارون کی رہنمائی شامل رہی۔
متاثرین نے جب حکومتی اداروں کی طرف سے نظراندازکئے جانے پر سڑکوں پر احتجاج کافیصلہ کیااور ریگل چوک تا کراچی پریس کلب ہزاروں متاثرین سمیت سول سوسائٹی کی نمائندہ تنظیموں کے کارکنان نے ریلی نکالی تو سندھ گورنمنٹ کی طرف سے صوبائی وزراء سعیدغنی ،امتیازشیخ نے کراچی پریس کلب پر آکر متاثرین کو یقین دہانی کروائی کہ سندھ گورنمنٹ متاثرین کی وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر بحالی کے لیے اقدامات کریگی۔اور آئندہ صوبائی حکومت کسی آبادی کو مسمار نہیں کریگی۔جب تک متاثرین کی بحالی کا کوئی حتمی منصوبہ حتمی شکل اختیار نہیں کرلیتا ۔
صوبائی حکومتی نمائندوں کی یقین دہانی بھی محض یقین دہانی ہی رہی۔ایک سال کے عرصہ میں نہ تو وفاق ،نہ صوبائی حکومت اور نہ ہی بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ذمہ داران نے متاثرین سے کوئی رابطہ کیا اور نہ ہی بحالی کا کوئی منصوبہ بن سکا۔متاثرین کایہ خیال ہے کہ سرکلر ریلوے کی بحالی کے منصوبے کے نام پر ہمارے گھروں کو مسمار کرکے ہماری زمین ہتھیانے کا یہ منصوبہ ہے۔نہ سرکلر ریلوے چلی اور نہ ہی ٹریک درست ہوا،نہ ہی اسٹیشن بنے اور وہ ایک برس سے اپنے گھروں کے ملبے پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
کراچی سرکلر ریلوے متاثرین ایکشن کمیٹی کے چیئرمین حاجی خان بادشاہ کا کہنا ہے کہ ہم نے کراچی سرکلر ریلوے پروجیکٹ کا خیر مقدم کیا اور اسے شہر کی تعمیروترقی کے لیے مفید قراردیتے ہوئے کراچی اربن ٹرانسپور ٹ کارپوریشن(K.U.T.C)حکام کے ساتھ سروے کے دوران اور تمام مشاورتی اجلاس اور مذاکروں کے موقع پر بھرپور تعاون کیا۔تمام متعلقہ اعلیٰ مجاز حکام کے ساتھ کچی آبادیوں کے نمائندگان سے مرحلہ وار ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا اور تمام حکام نے متاثرین کو یقین دلایا کہ متبادل فراہم کئے بغیر کوئی بھی کچی آبادی مسمارنہیں کی جائے گی۔قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے روبرو کے سی آرمتاثرین ایکشن کمیٹی نے پٹیشن فائل کی۔
جس کی تمام سماعتوں کے موقع پر مجاز حکام متاثرین کے حقوق کے تحفظ کی یقین دہانیاں کرواتے رہے۔معزز عدالت نے جب ریلوے کی زمینیں واگزار کرنے کاحکم جاری کیاتو ساتھ ہی اپنے حکم نامہ میں تاکید کی کہ متاثرین کومتبادل بستیوں میں آباد کیا جائے جو کہ تمام سہولیات سے آراستہ ہوںلیکن صد افسوس کہ گزشتہ سال رمضان المبارک میں یعنی11مئی 2019ء میں قائد اعظم کالونی اور غریب آباد کی بستیوں کو مسمار کردیا گیاجوکہ تاحال متبادل اور معاوضہ کے منتظر ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ معزز عدالتیں ،قابلِ احترام سیاسی قیادت ،بااختیار حکام اور وسائل سے لبریزمحکمے کچی آبادیوں کی مستقلی ،منتقلی ،مسماری اور آبادکاری کے حوالے سے گومگواور مخمصے کے شکار نظر آتے ہیں ۔کچی آبادیاں معاشرتی جبراور طبقاتی کشمکش کے سامنے مزاحمت کی زندہ علامت ہیں۔ ہمارا مطالبہ ان غریب بستیوں کے لیے متبادل رہائش ہے جو سپریم کورٹ کا حکم بھی ہے۔
گھروں کی بے دخلی اور فرد کا نفسیاتی ردعمل
ہم اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرسکتے کہ جبری بے دخلی اور بے گھر ہونے کے اثرات صرف جسمانی تکالیف یا تشدد کی حد تک ہیں بلکہ اس کے دیرپااثرات نفسیات پر بھی ہوتے ہیں ۔جو فرد کی ذاتی زندگی پر بری طرح دخل اندازی کرتے ہیں۔کراچی اربن لیب کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر گل ناز انجم کا کہنا ہے کہ حال ہی میں کراچی اربن لیب نے ان رویوں کوجاننے کے لیے ایک اسٹڈی کی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے سے ملحقہ آبادیوں سے جمع کردہ اعدادو شمار میں نفسیاتی تشدداور تنائو شدت کے ساتھ سامنے آرہا ہے۔
ان آبادیوں کے مکین اور مطالعہ کے شرکاء کے ذریعہ یہ واضح طور ظاہر ہوا کہ خواتین اس نفسیاتی تشدد سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں وہ اپنے آپ کو زیادہ غیر یقینی خطرے میں تصور کرتی ہیں جس کے سبب اضطراب اور خوف ان کے اندر پایا جارہا ہے۔خواتین میں یہ مسائل اور تنائو مردوں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے۔خاندان کے ساتھ خواتین کا تعلق مضبوط ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ خواتین میں ذہنی تنائو کے اثرات پورے خاندان پر پڑتے ہیں مایوسی اوریاسیت عام ہوتی ہے جو آہستہ آہستہ معاشرہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
کراچی اربن لیب کے محقیقن نے یہ بھی دیکھا ہے کہ کئی گھرانوں میں متعدد افراد کے بیمار ہونے ، ان کی جسمانی صحت خراب ہونے کے سبب خواتین میں زیادہ تشویش پائی جاتی ہے۔خاص کر اس وجہ سے کہ دائمی یا جسمانی طور پر بیمار خاندان کی دیکھ بھال ،نگہداشت ان خواتین ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
لہٰذا بے گھر ہونے کے بعد بیمار کنبے کے افراد کو سنبھالنے کااضافی بوجھ خواتین کو بے حد پریشان کرتا ہے ۔اس طرح بیک وقت کئی مسائل جنم لیتے ہیں چہار دیواری نہ ہونے ،گرہستی کا سامان سنبھالنے ،مالی نقصان کا صدمہ اور پھر بیمار فرد کو سنبھالنا خواتین کو لاچار کردیتا ہے جس سے ان کی اپنی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے ۔خواتین ایک جذباتی رویہ رکھتی ہیں بہت جلدی مایوس ،پر امید اور پریشان ہوجاتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ کراچی میں ان کمزور برادریوںکے ساتھ مل کر کام کرنے اور ان کی حمایت کرنے کی ضرورت ہے ۔خاص طور پر ان خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے جنہیں بے دخلی کے خراب اثرات کا سامنا ہے ۔
ٹرین چلی نہ گھر بسے
کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ جس کے تحت کراچی میں ریلوے کا نظام بحال ہونے جارہا ہے ۔یہ بازگشت ایک عرصہ سے سنتے آرہے ہیں ۔جائیکا نے بھی میں ایک سروے کیا تھا جس کے تحت4,653مکانوںکی مسماری متوقع تھی۔ 9 مئی2019ء کو سپریم کورٹ نے واضح الفاظ میں اپنا فیصلہ دیا کہ کراچی سرکلر ریلوے کو جلد ازجلد بحال کیا جائے ۔اس کی زد میں آنے والی آبادیوں کو 15دن کے اندرصاف یا بے دخل کردیا جائے ،ایک ماہ میں کراچی سرکلر ریلوے چلائی جائے گی ۔جبکہ ان بے دخل ہونے والی بستیوں کو ایک سال کے اندر ڈیسینٹ متبادل رہائش کے تحت بسایا جائے گا تاکہ ایک نئی کچی آبادی کا وجودنہ ہو۔اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ ایک ماہ میں ٹرین چلنا ناممکن ہے جبکہ جگہ جگہ ریلوے ٹریک ہی غائب ہیں۔ ریلوے اسٹیشن اپنی شناخت کھو چکے ہیں ۔کئی جگہوں پر تو ٹریک اکھاڑ کر ٹرانسپورٹ کی آمدورفت کورواں رکھنے کے لیے پل یا سڑک بنادی گئی ہے۔یہ سب تو نظر آنے والے زمینی حقائق ہیں ۔
اب ریل کی اپنی حالت کس حالت میں ہے وہ ایک الگ بحث ہے ۔ بجائے ان سب کو یقینی بنایاجاتا متعلقہ اداروں نے اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے ضلع وسطی میں قائم قائد اعظم کالونی اور غریب آباد اور دیگر بستیاں مسمار کردیں ۔ صرف ایک حصہ یعنی بے دخلی پر عمل درآمد ہوا ان کی بحالی کے فیصلے پرکوئی بات کرتا نظر نہیں آتا۔اور اب جبکہ ایک سال سے زائد عرصہ گزرگیا لیکن کسی نے آکر ان سے موسم کی سختی اور تہواروں کے موقعے پر بے گھری کا دکھ جاننے کی کوشش نہیں کی ۔انسانی حقوق کے عالمی منشور کے آرٹیکل 25(i)کے مطابق ’’ہر شخص ایک معقول معیارِ زندگی کا حق رکھتاہے۔جو اس کے خاندان کی صحت اور فلاح و بہبود کی ضمانت فراہم کرسکے۔جس میں رہائش کی سہولتیں بھی شامل ہیں ۔‘‘
کراچی سر کلر ریلوے ضروری کیوں؟
این ای ڈی یونی ورسٹی کی فیکلٹی آف آرکیٹیکچر و مینجمنٹ سائنس کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر نعمان احمد کا کہنا ہے کہ کراچی سرکلر ریلو یزپچھلے کئی سالوں سے ہمارے سماجی اور پیشہ ورانہ حلقوں میں زیرِ بحث رہی ہے – کئی حلقوں کی طرف سےکراچی ریلویز کو جلد از جلد فعال بنانے پر زور دیا جا رہا ہے- سپریم کورٹ نے کئی دفعہ احکامات جاری کئے کہ کراچی ریلویز کو جلد از جلد چلایا جائے-سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا کراچی سرکلر ریلو یز کو چلانا کراچی کے حوالے سے کیوں ضروری ہے۔
اس سے شہریوں کی آمدورفت میں کیا فوائد حاصل ہوں گے اور اس نوعیت کے منصوبوں کی بڑے اور گنجان آباد شہریوں میں کیا اہمیت ہے، اس حوالے سے ہمارے شہر کا پھیلاؤایک وسیع علاقے پر پھلا ہوا ہے- پچھلے تیس سالوں کے دوران مجموعی طور پبلک ٹرانسپورٹ میں کمی آئی – بڑی بسیں تعداد اور کارکردگی کے لحاظ سے کم ہوئی ہیں- ایک بڑی تعداد میں عوام پرائیوٹ ٹرانسپورٹ خصوصا موٹر سائکل اور کا ر کی طرف آچکے ہیں- جس کی وجہ سے سڑکوں میں گنجائش کم ہو گئی ہے- یہ سائنسی اصولوں کے عین مطابق معاملہ ہے کہ مستقل بنیاد پر چلنے والی پبلک ٹرانسپوڑٹ زمین کے استعمال اور اس سے متعلق سرگرمیامیوں کو استحکام بخشا ہے۔ کراچی سرکلر ریلو یز کی افادیت موجودہ وقت میں اور زیادو ہے- اگر سادہ ٹیکنالوجی پر مبنی ٹرین سروس چلائی جائے ، جیسا کہ کراچی سرکلر ریلو یز 1999تک چلاکر تی تھی ، تو اس عمل سے شہریوں کو بے پناہ فائدہ ہوگا – دوردراز مقیم شہری اپنے کام اور تعلیم کی جگہوں پر کم کرائے اور کم وقت میں سہولت کے ساتھ پہنچ سکیں گے- خواتین اور بزرگ جو موٹر سائکل نہیں چلا سکتے ، ان کی آمدو رفت آسان ہو جائے گی-
ایک اہم معاملہ شہر کے مرکزی علاقوں میں غیر معمولی گنجان آبادکاری ہے- اس صورت حال کی ایک بڑی وجہ پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم ہوجودگی ہے- اگر کراچی سرکلر ریلو یزجیسے منصوبے شہر کی گنجانیت کو کنٹرول کرنے کے لئے اہم کردار ادا کر سکتی ہے- کراچی جیسے بڑے اورپھیلاؤوالے شہر مختلف علاقو ں میں توازن قائم کر سکتے ہیں- اگر شہریوں کو یہ یقین ہوگا کہ شہر کی مفا فاتی بستیوں میں بھی پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت موجو د ہے تو شہر کی مرکزی بستیوں پر آباد کاری کا دباو ُکم ہو جائے گا-
ہمار رے پڑوسی ملک بھارت میں ممبئی شہر کی مثال ہمارے سامنے ہے- اس شہر کی ٹرین سروس شہر کی آمدورفت کی سہولت میں ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے- اس اہم سروس کے ذریعے تقریباً80 لاکھ مسافر روزانہ سفر کرتے ہیں – موجودہ حالات میں یہ ٹرین سروس بجلی سے چلتی ہےاور عوام میں خاصی مقبول ہے- دوسرے بھارتی بڑے شہریوں میں بھی مقامی طریقوں کا نظام موجود اور خاصا مقبول ہے- انڈونیشیا کے بڑے شہر جکارتا میں بھی ایک مسافر ٹرین کا نظام موجود ہے جو مفافات کے علاقوں کو جکارتا کے اہم مقامات سے مسنلک کرتا ہے- اسی طرح تھائی لینڈ کے شہر بنکاک میں بھی ٹرین سروس موجود ہے عام طور پر یہ سروس جہاں مختلف مقامات کو شہر کے وسطی علاقو ں سے جو ڑتی ہے وہا ں صبح اور شام کے اوقات میں شدید رش کے اوقات میں یہ عوام کو خاص سہولت فراہم کرتی ہے- جب سڑکوں پر ٹریک جام ہونا ایک عام عمل ہو جاتا ہے-
ٹرین سروس عام حالت میں بڑے شہروں میں ایک سستا اور قابل عمل ٹرانسپوڑٹ تصور کیا جاتا ہے۔ کراچی سرکلر ریلو یز کی کراچی میں JICAاشد ضرورت ہے- اس کو قابل عمل بنانے کے لئیے متعدد منصوبے بنائے جا رہے ہیں – کئی سال پہلے جاپانی معاون ادارہ ایک اور کراچی کے ٹرانسپورٹ کے نظام پر تحقیق کرتا رہا اور بڑی جامع اور قابل عمل تجاویز اور منصوبےKCRطویل عرصے تک کا حصّہ بنادیا گیا تاہم جو بنیادی معاملات ہیں وہ ابھی تک حل نہیں ہو پائے – CPEC کی KCRاس نے پیش کیے- اس کے بعد ، BRT اورKCRوفاقی محکمہ ریلوے اور حکومت سندھ کے درمیان کام کرنے کی مفاہمت دونوں کردار اور ذمہ داریوں کا تعین کیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ اور اس کے ایک مضبوط ادارے کا قیام جو اس اہم KCRکو مسنلک کرنے کا عمل ، زمین کی حد بندی جس پرسروس کا انتظام کرے گا – یہ واضع ہے کے اگر فوری طور اس معا ملے میں عملی قدم نہ اٹحائے گئے تو زمینی حقائق بدل جائیں گے اور نئی تعمیرات اور کوفعال کرنا دشوار ہو جائے گا۔