• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی میں بجلی کی غیرعَلانیہ لوڈشیڈنگ کے فوری خاتمے کی جو یقین دہانی وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور گورنر سندھ نے بظاہر کے الیکٹرک سے ضمانتیں لینے کے بعد ہفتے کے روز کرائی تھی، اہلِ کراچی کے اندیشوں کے عین مطابق وہ حقیقت نہ بن سکی اور اتوار کو بھی شہر کے کئی علاقوں میں طویل دورانیوں کیلئے بجلی غائب رہی۔ کے الیکٹرک کے ذمہ دار وفاق سے مطلوبہ مقدار میں ایندھن نہ ملنے کو لوڈشیڈنگ کا سبب قرار دیتے رہے ہیں جس کی پُرزور تردید کرتے ہوئے وفاقی وزارت توانائی کے ترجمان نے گورنر سندھ، وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پٹرولیم کے ساتھ کے الیکٹرک کے سی ای او اور ان کی ٹیم کی ہفتے کو ہونے والی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس موقع پر کے الیکٹرک نے تسلیم کیا تھا کہ اسے اضافی مقدار کے ساتھ اب کل 290ایم ایم سی ایف ڈی گیس اور فرنس آئل کی مجموعی ملکی پیداوار کا 80فی صد مل رہا ہے لیکن کمپنی کی جانب سے ترسیلی نظام کو بہتر بنانے کیلئے سرمایہ کاری نہ کرنے کی وجہ سے ایندھن تو درکنار سسٹم تیار بجلی کی بھی زیادہ مقدار اٹھانے کی سکت نہیں رکھتا اور ملاقات میں یہ بات کے الیکٹرک کے ذمہ داروں نے خود تسلیم کی تھی۔ ترجمان کے مطابق اس میٹنگ میں لوڈشیڈنگ میں کمی کیلئے وفاق سے مزید فرنس آئل لے کر بن قاسم کے پرانے پلانٹ کو فعال کرنے کا فیصلہ بھی ہوا تھا اور یہ بھی طے پایا تھا کہ وفاقی حکومت آئندہ دس ماہ میں این ٹی ڈی سی کی لائنوں کو اپ گریڈ کرکے کراچی کو مزید تین سو میگاواٹ بجلی کی فراہمی ممکن بنائے گی جبکہ دھابیجی پانچ سو کے وی کے دو گرڈ 2023کے وسط تک مکمل کرکے کراچی میں بجلی کی قلت کا مسئلہ پائیدار بنیادوں پر حل کیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ ان حقائق کی موجودگی میں اہل کراچی کو لوڈ شیڈنگ کے فوری خاتمے کی یقین دہانی کا اذیت ناک مذاق آخر کیوں کیا گیا تھا؟ اس کا جواب وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور گورنر سندھ پر واجب ہے۔

تازہ ترین