• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال :۔اگر کہیں کوئی چوری کی چیز فروخت ہورہی ہو، مثلاً گاڑی کاسائڈ گلاس یا کوئی اورپرزہ تو کیا اسے خرید سکتے ہیں؟عموماً اس قسم کی اشیاء سستے داموں فروخت ہوتی ہیں۔اگرجواب یہ ہو کہ خریدنا جائز نہیں ہے، مگر وہ چیز ہماری ضرورت کی ہو،ہم معمولی قیمت پر خریدنے کے بجائے اگر معقول قیمت پر خریدلیں تو کیا اس صورت میں جائز ہے یا ہم براہ ِراست نہ خریدیں ،بلکہ کوئی اورخریدے اورپھر ہم اس سے خرید لیں تو درست ہوگا؟دوسرا سوال یہ ہے کہ ہمیں یقینی طور پر معلوم نہیں ہے کہ یہ چیز چوری کی ہے توپھر کیا حکم ہے؟

جواب: ۱۔چوری کامال مثلاً سو روپے مالیت کا ہو اور آپ اسے ہزار روپے میں خریدیں تو پھر بھی جائز نہیں ہے۔اسی طرح چوری کامال اگر ہزار افراد خرید لیں اور پھر کوئی اسے خریدے تو بھی وہ ناجائز ہی رہتا ہے۔ دراصل چوری کے مال کا اصل مالک کے علاوہ کوئی اور مالک بنتا ہی نہیں ہے، اس لیے وہ مال اگر لاکھوں ہاتھوں سے ہوکر آجائے پھر بھی حرام ہی رہتا ہے۔

۲۔اگر علم ہو کہ یہ چیز چوری کی ہے یا کسی شخص کےمتعلق یا بازار کے متعلق یہ بات مشہور ہو کہ وہاں چوری کی اشیاء فروخت ہوتی ہیں یا کوئی ایسی علامت یا قرینہ ہو، جس سے معلوم ہو کہ یہ چیز چوری کی ہے تو اسے خریدنا جائز نہیں ہے۔

تازہ ترین