• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

سندھ: کچے کے علاقے سے ڈاکو راج مکمل ختم نہ ہوسکا



سندھ کے ہزاروں ایکڑ رقبے پر پھیلے کچے کے علاقے میں ڈاکو راج مکمل ختم نہیں ہوسکا۔

اغوا برائے تاوان کے لیے بدنام سکھر، خیرپور، گھوٹکی، کشمور اور شکارپور کے کچے کے علاقوں میں پولیس نے 2 ماہ کے دوران 115 مغویوں کو ڈاکوؤں کے چنگل سے آزاد کروایا۔

دس افراد کے گھر والے اب بھی سیکیورٹی اداروں کی مدد کے منتظر ہیں، پولیس حکام باقی مغویوں کی باحفاظت بازیابی کے لیے پُرعزم ہیں۔

سندھ کے کچے کے علاقے کے ڈاکوؤں کے مقابلوں کے دوران اب تک پولیس کے 9 جوان اور افسر شہید ہوچکے ہیں۔

اغوا برائے تاوان کے لیے بدنام شمالی سندھ کے سکھر، خیرپور، گھوٹکی، کشمور اور شکارپور کے اضلاع میں صورتحال کافی حد تک معمول پر آچکی ہے اور 90 فیصد مغوی بازیاب ہوچکے ہیں۔ اس کے باوجود تاحال صورتحال تسلی بخش نہیں، اغوا وارداتوں کی انڈسٹری بنے سندھ کے شاہ بیلو اور الف کچے میں ڈاکوؤں کے دو بڑے اور 5 چھوٹے گروھ سرگرم ہیں۔

ہزاروں ایکڑ اراضی پر مشتمل کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کا مکمل راج تاحال ختم نہ ہوسکا، ڈاکوؤں کے پاس عام کلاشنکوف، رائفلوں سے لیکر، جی تھری رائفلیں، راکٹ لانچر، اینٹی ایئر کرافٹ گنز کی موجودگی کے سبب علاقہ غیر کا منظر پیش کرتی ہے۔

پولیس کی موثر حکمت عملی اور پے درپے آپریشنز کی وجہ سے گزشتہ 2 ماہ کے دوران 115 مغوی تو بازیاب ہو گئے ہیں لیکن تاحال 10 مغویوں کے ورثاء پولیس کی مدد کے منتظر ہیں۔

سندھ میں کچھ عرصہ قبل اغوا برائے تاوان اور لڑکیوں کی آواز سے دھوکے سے پھنس کر اغوا ہونے کی وارداتیں اتنی بڑھ گئی تھیں کہ شاہ بیلو ہو یا باگڑجی بیلہ، راؤنتی کا کچا ہو یا سکھر کا الف کچا، کشمور کا کچا ہو یا شکارپور کے کچے کا ایریا ہو، صوبے اور ملک کے مختلف علاقوں کے مغویوں کی تعداد 125 سے زائد بڑھ گئی تھی۔

پولیس ذرائع کے مطابق سندھ حکومت اور سابق آئی جی سندھ کلیم امام کے درمیان کشیدگی کی سزا عوام ڈاکوؤں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کی صورت میں بھگتنے پر مجبور تھے۔

سندھ میں پولیس کے نئے آئی جی کی تقرری اور سکھر ریجن میں نئے افسران کی تعیناتی کے بعد اچھی خبریں آنا شروع ہوگئی ہیں۔

مختلف اضلاع کے کچے کے علاقوں میں بیک وقت پولیس آپریشن سے ڈاکو راج کا مکمل صفایا تو نہیں ہوسکتا، لیکن پولیس 115 مغویوں کو بازیاب کروانے میں کامیاب ہوچکی ہے۔

سابقہ دور حکومت میں پولیس کے لیے خریدی گئی ناکارہ بکتر بند گاڑیاں پولیس افسران کے جانی نقصان کی وجہ بنیں، جس سے پولیس کے جوانوں کا مورال ڈاؤن ہوا اور اثر مجموعی امن و امان کی صورتحال پر ہوا ہے۔

ڈاکوؤں کے پولیس پر حملوں سے ڈی ایس پی راؤ شفیع اللّٰہ، ایس ایچ او مرتضیٰ میرانی سمیت پولیس کے 9 جوان و افسران شہید ہوچکے ہیں۔

ڈی آئی جی سکھر فدا حسین مستوئی کہتے ہیں کہ ہمارا ڈاکوؤں کے ساتھ دوبدو مقابلہ ہوتا ہے، جس میں ہمارے کافی جوان اور افسران بھی شہید ہوچکے ہیں۔

سندھ پولیس کو ڈاکوؤں کے ساتھ ساتھ ان کے سہولت کاروں کے خلاف بھی سخت کارروائی کرنی پڑے گی جبکہ پولیس کو مکمل طور پر غیرسیاسی بناکر محکمہ پولیس سے غیر متعلقہ افراد کا اثر ختم کرنا ہوگا، تاکہ پولیس مکمل یکسوئی سے اپنا کام کر سکے۔

تازہ ترین
تازہ ترین