• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جانے آج سونیا گاندھی کی یاد کیوں آئی؟ بہرحال ذِکرِ سونیا اور دہری شہریت کے جمال اور کمال کی تفصیلات سے قبل آئین کی ایک عادت عرض کردوں کہ:

آئین امریکی ہو، بھارتی یا پاکستانی، جو مرضی کرلیں، کبھی کبھی اور کہیں یہ خاموش رہتا ہے، بعض معاملات میں آئین سوال چھوڑتا ہے، کبھی سیاست کے ’’خلاف‘‘ بھی کھڑا ہوتا ہے تاہم ابراہم لنکن نے آئین کو شہریوں کیلئے سیف گارڈ قرار دیا اور خواہ مخواہ چھیڑنے سے بھی روکا۔ بینجمن فرینکلن نے کہا، آئین خوشیوں کی فراہمی کا باعث ہے لیکن ان کےحصول کی کوشش عوام ہی نے کرنی ہوتی ہے۔

گلوبل ویلج میں برطانیہ، سعودیہ، اسرائیل، کینیڈا اور نیوزی لینڈ سے اہم ممالک ایسے بھی ہیں جہاں تحریری آئین کا وجود نہیں مگر روایات، اخلاقیات اور رولز کا آمیزہ ہی آئین کی ایک صورت گری ہے جو کامیاب و کامران بھی ہے۔ اسی صورت گری کی ضرورت ان ممالک کو بھی پڑتی ہے جہاں مرتب اور مربوط آئین سوال چھوڑے اور خاموشی اختیار کرے پھر سیاسی قیادت کی فہم و فراست کا امتحان بہرحال روایات، اخلاقیات اور دیانتداری بیک وقت لیتے ہیں۔

سونیا نے جب 1983میں انڈین شہریت اختیار کرلی تھی تو اٹلی کے قانون کے مطابق اس کی اٹلی کی شہریت اس لئے ختم ہو گئی کہ اٹالین دہری شہریت نہیں رکھ سکتا۔ سونیا گاندھی کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ سے راجیو گاندھی کی شریک حیات بنی۔ سونیا گاندھی جب 2004میں 2لاکھ ریکارڈ ووٹوں کی برتری سے دوبارہ لوک سبھا کی ممبر بنی تو بی جے پی و این ڈی اے کی سینئر رہنما سشما سوراج نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر سونیا گاندھی وزیراعظم بنیں تو وہ اپنے سر کے بال منڈوا دے گی اور ریت پر سوئے گی، بہرحال این ڈی اے کا دعویٰ تھا کہ قانون سونیا گاندھی کو وزیراعظم بننے سے روکتا ہے جس میں ایکٹ 1955کے جز 5کا حوالہ بھی سامنے لایا گیا مگر بھارتی سپریم کورٹ نے یہ دلائل مسترد کر دیے تاہم سونیا نے اس سے بھی بڑا کمال یہ کیا کہ پہلی دفعہ ایک سکھ کو بھارتی وزیراعظم بنا دیا، پھر صرف ایک دفعہ نہیں مسلسل دو دفعہ ایک ماہر معاشیات و ماہر تعلیم سیاستدان کو عنانِ اقتدار تھما دی۔

پاکستان ہو یا بھارت یہاں سیاسی مخالف کو کھلے دل سے قبول نہیں کیا جاتا۔ بعض اوقات نظریاتی سیاست کو بھی پاور پالیٹکس پر قربان کردیا جاتا ہے۔ ایسا ترقی یافتہ ممالک میں بھی ہوتا ہوگا لیکن آسٹریلیا و فرانس میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ سیاست، تعلیم اور امور صحت کی بہتری اور انسانی حقوق کی بالادستی کیلئے بھی کرتے ہیں اور اسی کو اپنی بالادستی قرار دیتے ہیں نہ کہ کرسی کے حصول کو۔ اس کا رواج بہرحال پاکستان، بنگلا دیش اور بھارت میں نہیں ملتا۔ پاکستان میں تو اب یوں بھی لگنے لگا ہے جیسے ہم ذاتی پسند و ناپسند یا ’’بڑوں‘‘ کی مرضی کی خاطر آئین سے نشتر زنی کو بھی کار ثواب سمجھ لیں۔ سونیا ہمسایہ دشمن ملک کی لیڈر ہی سہی اس نے جب پارٹی بچائی، تو اپنی ذات کو پس پشت رکھنے کی قربانی اس کا پہلا قرینہ تھا کامیابی کے قرینوں میں۔ حالانکہ جنہوں نے پارٹی کے اندر سے مخالفت کی وہ بھی بےبس ہوئے، سپریم کورٹ نے بھی راستے کی رکاوٹ دور کردی، نرسیما اور منموہن کو آگے کیا ایک لمبی سیاسی اننگ کھیلی، عین عروج پر ایک دفعہ تو نیشنل ایڈوائزری کونسل سے بھی مستعفی ہوگئی اور لوک سبھا سے بھی۔

کچھ حاصل کرنے کیلئے کچھ کھونا بھی پڑتا ہے۔ اصولوں کی حکمرانی اور ملت کی پاسبانی میں بڑا لیڈر جہاں آئین خاموش ہو یا سوال چھوڑے وہاں اپنی اخلاقی و روایتی اور دیانتدارانہ و مخلصانہ توانائی اور اِن پُٹ دیتا ہے! پاکستان کی تعمیر و ترقی میں بلاشبہ و بلامبالغہ دیارِ غیر میں بسنے والوں نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے، زرمبادلہ سے سفارت کاری تک میں ان کا اہم کردار ہے جسے فراموش کرنا ممکن نہیں لیکن حالیہ، دہری شہریت اور حکومتی عہدہ، پر بحث و تمحیص کو کھلے دل سے لیا جائے۔ جب 1973کا آئین بنا اس وقت یہ مسائل درپیش نہ تھے بعد ازاں جب دہری شہریت کی حیثیت میں الیکشن اور کیبنٹ میں شرکت پر قدغن لگی تو بےشمار حساس پہلوؤں کو دیکھنے کے علاوہ سابق وزرائے اعظم معین قریشی و شوکت عزیز جیسے کرم فرماؤں کو بھی مدِنظر رکھا گیا جنہوں نے عنانِ حکومت کے بغیر پاکستان اور پاکستانیوں کو ایک دن بھی اپنے دکھ سکھ کا رفیق نہ سمجھا۔ پھر بارہا آئی ایم ایف کے امپورٹڈ برانڈز کا عالم بھی ایسا ہی دیکھا گیا، ایسی مثالوں کے بعد خود مختاری و خود انحصاری کے تقاضوں کو نظر انداز کرنا بھی مشکل بن جاتا ہے۔ کئی اداروں کے سربراہان کو بھی درآمد کیا گیا، اور وہ بھی چلے گئے فوائد کے بجائے نقصانات دے کر۔ جہاں محبتیں پروان چڑھانی ہوں وہاں عشق کی شاہراہ پر گامزن ہونا پڑتا ہے چاہے جان جائے یا جہان! سادہ سا فارمولا ہے کہ زمین سے محبت زمین سے رشتہ کے سبب ہی ہوتی ہے۔ جو جہاں سیاست اور محبت کرتے ہیں ان کا پہلا حق ہے وہ دکھ سکھ کے ساتھی بھی ہیں اور باصلاحیت بھی۔ ورنہ کل کیا معتبرترین اداروں کے رہبر باہر سے لاؤ گے؟

یہ درست کہ سربراہِ حکومت رولز آف بزنس تراش اور آرڈیننس متشکل کر سکتا ہے، آخر تو اسے آئین کے دائرے میں لانا پڑتا ہے۔ عہدِ حاضر کے حکمرانوں کے پاس سہولت ہے نہ حالات ہی کہ وہ ایسے رسک لیں سو بہتر یہی نہیں کہ تیل اور تیل کی دھار دیکھ کر فیصلے کریں اور بےجا پیچیدگیوں سے بچیں؟۔ شہریت کی اہمیت کو بالائے طاق نہیں رکھا جا سکتا۔ جب گلشن میں علاج تنگی داماں ہو تو نے نئے پینڈورا باکس کھولنے کی ضرورت؟

تازہ ترین