• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان، 13 جون کو سب سے زیادہ کورونا کیسز 6825، جولائی میں مسلسل کمی، 19 جون کو سب سے زیادہ ٹیسٹ 31681

لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ، ملتان(صابر اعوان، بابر علی اعوان،جاویدعلی،فرخ شہزاد ملک،نمائندہ جنگ)پاکستان میں پہلا کورونا کیس26فروری کورپورٹ ہوا جبکہ لوکل ٹرانسمیشن کا 13مارچ سے آغاز ہوا، مئی جون میں وباء شدید، جولائی میں کم ہوگئی۔ 

سب زیادہ کیسز 13جون کو 6472کیسز رپورٹ ہوئےاور سب سے زیادہ ٹیسٹ19جون کو31681کیے گئے۔ ملک کا سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ سندھ ہے جہاں زیادہ کیسز 120,052رپورٹ ہوچکے ہیں۔ 11 جون کوسب سے زیادہ 3 ہزار 38 افرادکیسز سامنے آئے۔

 جون میں یومیہ کیسزکی اوسطاًتعداد ڈھائی ہزار تک پہنچ گئی۔ جس کے بعد جولائی میں کیسز میں بتدریج کمی جاری رہی۔ 11 جون کو سندھ میں 10ہزا ر81 ٹیسٹ کیے گئے ۔ اس کے بعد 20 جون تک یومیہ ٹیسٹ 11 سے 13 ہزارتک کیے جانے لگے۔ اعدادوشمارکےمطابق پنجاب میں 713688 افراد کے ٹیسٹ ہوچکے ہیں پنجاب میں پہلا کیس 16مارچ کو جبکہ پہلی ہلاکت 24مارچ کورپورٹ ہوئی۔ 

پھر آہستہ آہستہ کورونا کیسز بڑھتے رہے جن میں مئی کے مہینے میں تیزی آگئی۔ جون میں شدت اور بڑھی اور 20جون کو82افراد ہلاک ہوئے اور 2538نئے کیس رپورٹ ہوئے۔ ٹیسٹنگ شروع میں کم تھی لیکن جون میں زیادہ ہوگئی، جبکہ 15جون کو سب سے زیادہ 17964ٹیسٹ ہوئے۔ 

تاہم اب جون کے مقابلے میں اوسطاً 7ہزارٹیسٹ روزانہ ہورہے ہیں اور یومیہ مریض کم ہوکر اوسطاً200 ہوگئے۔ سب سے زیادہ متاثرہ شہر لاہورہے، راولپنڈی کادوسرا، ملتان کاتیسرانمبرہے۔

طبی عملہ لاہور ، راولپنڈی اور دیگر شہروں میں بھی متاثر ہوالیکن ملتان کاطبی عملہ سب سے زیادہ متاثرہوا۔ خیبرپختونخوامیں 7جون تک روزانہ اوسطاً 641مریض سامنے آرہے تھے۔ جبکہ 19 جولائی کو ختم ہونے والے ہفتے میں 1330 مریض سامنے آئے ہیں۔ 14جون تک روزانہ اوسطاً 3336 ٹیسٹ کئے جارہے تھے جو 19 جولائی تک روزانہ 1846 اوسط تک کم ہوگئے۔

 سب سے زیادہ کیسز13جون 1035رپورٹ ہوئےاور ٹیسٹ19جون کو 3932 ہوئے۔ 5اپریل کو ختم ہونے والے ہفتے میں 13 اموات رپورٹ ہوئی تھیں جس کے بعد اموات بڑھتی گئیں اور 14 جون کو ختم ہونے والے ہفتے میں 133 اموات رپورٹ کی گئیں جس کے بعد اموات میں بھی کمی آنے لگی اور 12 جولائی کو ختم ہونے والے ہفتے میں صوبے بھر سے 45 اموات رپورٹ ہوئیں، مریضوں اور اموات میں بتدریج کمی کا سلسلہ جاری ہے اورر 29 جولائی کوصرف 6 اموات ہوئیں۔ بلوچستان میں 59380 افراد کے ٹیسٹ ہوچکے ہیں۔ 

پہلی ہلاکت 23مارچ کوہوئی۔ سب سے زیادہ کیسز 3جون کو501 کو رپورٹ ہوئے تاہم جون جولائی میں صورتحال اپریل اور مئی سے بہتررہی ۔ صوبے میں اب تک 136افرادجان کی بازی ہارچکے ہیں۔ سب سے زیادہ 88ہلاکتیں کوئٹہ میں ہوئیں۔ تاہم اب 20سے25افرادیومیہ صحت یاب ہورہے ہیں۔لاہور سے نمائندہ جنگ کے مطابق لاہورسمیت پنجاب بھر میں کورونا وائرس کی ہلاکت خیزی کا سلسلہ 14مارچ سے تاحال جاری ہے اور اب تک 2133افراد کورونا وائرس کے باعث اپنی زندگیاں گنوا بیٹھے ہیں۔

صوبے میں اب تک 92ہزار 452 افرادکورونا سے متاثر ہو چکے ہیں۔ اب تک11سو کے قریب ہیلتھ پروفیشنلز متاثرہوچکے ہیں،6جون کوکوروناکےسب سے زیادہ 2164مریض رپورٹ ہوئے جبکہ یکم جولائی سے کیسز کم ہونے لگے۔ 

عیدالفطرکے بعد وباء میں شدت آئی اور 412وینٹی لیٹرز،617 ایچ ڈی یووارڈز،4665آئیسولیشن بیڈز بھی کم پڑنے لگے،پہلےروزانہ ایک ہزارسے زائد مریض رپورٹ ہوتے رہے،اب اوسط 95فیصدکم ہوکر 200 روزانہ پر آگئی ہے۔

15جون کو سب سے زیادہ 17964ٹیسٹ ہوئے،اب صوبے میں ٹیسٹوں کی اوسط شرح7ہزارروزانہ ہے۔عروج کے دوران زیادہ سے زیادہ 25جون کو86 اموات رپورٹ ہوئیں،27جولائی کوئی ہلاکت سامنے نہ آئی۔

لاہورمیں سب سے زیادہ 47158کیس رپورٹ ہوئے اوریہ صوبے کاسب زیادہ متاثرہ شہرقرارپایا،راولپنڈی کادوسرا، ملتان کاتیسرانمبر،چکوال سب سےکم متاثر،کوئی ہلاکت نہ ہوئی۔جبکہ پروفیسر جاویداکرام اور پروفیسر اسداسلم کا کہناہے کہ سمارٹ لاک ڈاؤن اور قوت مدافعت سے کمی آئی،احتیاط لازم ہے، دوسری لہرزیادہ خطرناک ہوسکتی۔

ابتک صوبہ بھرمیں کورونا کو شکست دیکر 82ہزار 592مریض صحت یاب ہو چکے ہیں جبکہ صوبہ بھر میں 7لاکھ 13ہزار 688مریضوں کو ٹیسٹ کئے جا چکے ہیں ۔

اعداد و شمار یہ بتائے ہیں پنجاب میں روزانہ 7ہزار سے زائد کوویڈ 19کے ٹیسٹ کئے جاتے ہیں جن میں اس وقت روزانہ پازیٹو آنے والے کیسز کی تعداد کم ہو کر تقریبا 2سو اور اس سے بھی کم رہ گئی ہے جبکہ مئی اور جون میں جب کورونا اپنے پورے عروج پر تھا تو اس وقت بھی پنجاب حکومت کی جانب سے روزانہ اسی شرح سے ٹیسٹ کئے جارہے تھے تاہم 15جون کوسب سے زیادہ 17964 افراد کے ٹیسٹ کئے گئے۔

ہم اگر پنجاب میں روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ ہونے والے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو کورونا وائرس میں شدت آنے کا سلسلہ ماہ مئی کے آغاز سے ہی شروع ہو گیا تھا یکم مئی کو 120کیس رپورٹ ہونے کے بعد مجموعی تعداد 6340سے تجاوز کرگئی تھی اور اس روز کورونا سے مرنے والوں کی مجموعی تعداد 106تھی۔

27مئی کو 10ہلاک 462نئے کیس ، 28مئی کو 919نئے کیس ،29مئی کو 29افراد ہلاک جبکہ 927نئے کیس رپورٹ ہوئے اور یہ وہ وقت تھا جب عید الفطر کی شاپنگ کے دوران پھیلنے والا وائرس کے اثرات سامنے آنا شروع ہوگئے تھے 30مئی کو 29افراد جان سے گئے اور 1140نئے کیس رپورٹ ہوئے ،یکم جون کو 22افراد ہلاک جبکہ 1184نئے کیس ، 2جون کو 43افراد کورونا سے ہلاک جبکہ 1610نئے کیس رپورٹ ہوئے۔

جس کے بعدحکومت نےلاہورکے 8 زونز کورونا وائرس کے حوالے سے سب سے زیادہ خطرناک قراردیا۔ 10جون کو لاہور میں سابقہ تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے اور ایک دن میں 1408نئے کیس رپورٹ ہوئے جبکہ صوبہ بھر میں یہ تعداد 2641تھی ، 11جون کو 34افرد ہلاک جبکہ 1168نئے کیس ، 12جون 49افراد ہلاک 1919نئے کیس ، 13جون 1356نئے کیس کے بعد مجموعی تعداد بڑھ کر 13ہزار 225ہوگئی۔

14جون کو 31ہلاک 514نئے کیس رپورٹ ہوئے۔ اس موقع حکومت نے کورونا کیسز میں مسلسل اضافہ دیکھتے ہوئے15جون کو لاہور کے 80ہاٹ سپاٹس ایریاز میں سمارٹ لاک ڈائون کافیصلہ کیا ،اس روز صوبہ بھر میں 24گھنٹوں کے دوران سب سے زیادہ 62اموات ہوئیں اور 1537نئے کیس رپورٹ ہوئے 16جون کو 50افراد ہلاک 1740نئے کیس ، 17جون 68افراد ہلاک 2361نئے کیس جبکہ 27جون کو 27افراد ہلاک 1143نئے کیس سامنے اور اس کے بعد کورونا کا زور ٹوٹنا شروع گیا گیا۔ 

سمارٹ لاک ڈائون کے اثرات سامنے آنا شروع ہوگئے اور کیسز میں بتدریج کمی آنا شروع ہوگئی ،28جون کو 17افراد ہلاک 1322نئے کیس ، 29جون کو 8افراد ہلاک 576نئے کیس ، 30جون کو 46افراد ہلاک 723نئے کیس ، یکم جولائی کو بھی کورونا سے ہلاکتوں اور نئے مریضوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا اور 35افراد ہلاک جبکہ 761نئے مریض رپورٹ ہوئے۔

پنجاب بھر میں کورونا کیسز گزشتہ دو ماہ کی سب سے کم سطح پر پہنچ گئے ہیں اور کیسز میں کمی کا سلسلہ جاری ہے،محکمہ صحت اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں کورونا سے سب سے زیادہ 31سے 45سال کے افراد متاثرہ ہوئے جن کی مجموعی تعداد 26ہزار 792بتائی جاتی ہے اسی طرح 16سال سے 30سال کے درمیان کے 24ہزار 754افراد ،46سے 60سال کے 18ہزار 430افراد ، 61سال سے 75سال کے 9009افراد جبکہ 75سال اور اس سے اوپر کے 1602افراد کورونا سےمتاثر ہو چکے ہیں۔

ایک سے 15سال کے صرف چار ہزار 134بچے بھی کورونا کا شکار ہو چکے ہیں ،پنجاب میں کوروناسے متاثرہ ہیلتھ پروفیشنلز کی تعداد 11سو بتائی جاتی ہے جن میں کورونا کا پھیلائو 23فیصد ہے ۔

لاہور سمیت پنجاب کے بڑے شہروںمیں اگر کورونا کیسز پر نظر ڈالی جائے تو لاہور میں سرفہر ست ہے جہاں ابتک مجموعی طور پر 47ہزار 158افراد کورونا سے متاثر جبکہ 813ہلاک اور 42ہزار 700صحت یاب ہوئے ہیں۔

دوسرے نمبر پر راولپنڈی میں مجموعی مریضوں کی تعداد 7ہزار 313ہلاکتیں 359اور صحت یاب مریضوں کی تعداد 5ہزار 902ہے،ملتان میں 5766مریض، ہلاکتیں 145اور صحت یاب 5302 ،فیصل آباد میں 5752کل مریض، 215ہلاک اور 5152صحت یاب مریض ہیں ،گوجرانوالہ میں مجموعی مریضوں کی تعداد 3298ہلاکتیں 76اور صحت یاب مریضوں کی تعداد 3051ہے ،گجرات میں 2736ہلاکتیں 38اور صحت یاب مریضوں کی تعداد 2350ہے ،ڈیرہ غازی خان میں 1576کل مریض ہلاکتیں29جبکہ صحت یاب مریض 1287ہے ،سرگودھا میں 1299مریض، ہلاکتیں 31اور صحت یاب مریض 1025ہے۔

سیالکوٹ میں کل مریضوں کی تعداد 2257ہلاکتیں 97اور صحت یاب مریض 1926ہیں ،بہاولپور میں کل مریض 1612ہلاکتیں 41جبکہ صحت یاب مریضوں کی تعداد 1421ہے ،پنجاب میں چکوال واحد ضلع ہے جہاں کورونا سے کوئی ہلاکت نہیں ہوئی جبکہ کل مریضوں کی تعداد بھی سب سے کم 292ہے جبکہ صحت یاب مریضوں کی تعداد 262ہے ۔

اس طرح پنجاب کل 36اضلاع میں مجموعی مریضوںکی تعداد 92ہزار 452ہلاکتوں کی تعداد 2133اور صحت یاب مریضوں کی تعدا 81ہزار 592ہے ۔

اس حوالے سے جنگ کے رابطہ کرنے پر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر جاوید اکرم نے کہا کہ حکومت کی جانب سے بروقت لاک ڈائون ، ایس او پیز پر سختی سے پابندی کروانے اور لاہور کے ان علاقوں جن سے کیسز زیادہ رپورٹ ہورہے تھے اور وہ مریضوں دیگر آبادیوں کو شہریوں کو بھی متاثر کر رہے تھے کے لئے سمارٹ لاک ڈائون کا بہت فائدہ ہوا ہے تاہم ابھی بھی لوگوں کو چاہئے کہ وہ اس کو اتنا آسان نہ سمجھیں ابھی بھی بہت اختیاط کی ضرورت ہے ۔ 

کورونا کیسز میں کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں کی قوت مدافعت زیادہ ہو گئی ہے۔ ملتان میں پہلامشتبہ کیس 24 جنوری کو رپورٹ ہوا ،تاہم اسے کورونا نیگیٹو قرار دیا گیا ِ 29 فروری تک اس مرض کے شبہ میں مجموعی طورپر 15 مریض نشتر رپورٹ ہوئے ، اپریل تک نشتر ہسپتال میں مجموعی طور پر 625 مشتبہ کیسز رپورٹ ہوئے ،103 کورونا پازیٹو پائے گئے جبکہ کورونا کے تصدیق شدہ کیسز میں سے 18افراد جاں بحق ہوئے۔

کورونا وائرس سے پہلی موت 2 اپریل کو ہوئی ،مئی میں مرض نے شدت اختیار کرلی اور اس ماہ کے آخرتک نشترمیں مجموعی طورپر1057مشتبہ مریض رپورٹ ہوئے ،جن میں سے 260 کو کورونا پازیٹو قراردیا گیا ، اس ماہ ہلاکتوں کی تعداد میں ایک دم اضافہ ہوگیا اور مئی میں 51 افراد اس مرض کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

کراچی سے نمائندہ جنگ کے مطابق پاکستان میں نوول کورونا وائر س کا پہلا کیس 26 فروری کوسندھ سے سامنےآیا جب ایران سے واپسی پر کراچی سے تعلق رکھنے والے 22سالہ نو جوان یحییٰ جعفری میں وائرس کی تصدیق ہوئی۔ اس کے بعدآہستہ آہستہ کیسز بڑھنا شروع ہوئے۔ 

محکمہ صحت سندھ کی جانب سے ابتدائی دو ہفتوں میں251 افراد کے ٹیسٹ کیے گئے جن میں سے صرف 15میں وائرس کی تصدیق ہوئی ۔ 13مارچ کوکراچی کے ایک 52سالہ شخص میں وائرس کی تصدیق ہوئی جس کی کوئی ٹریول ہسٹری نہیں مل سکی ۔

 یہ پہلا کیس تھا جسے مقامی طور پر وائرس منتقل ہوا ۔اس کے بعدایک جانب مقامی طور پر وائرس منتقل ہونا شروع ہوگیا جبکہ دوسری جانب ایران سے زائرین کی ایک بڑی تعداد سندھ واپس آئی جو کورونا وائرس سے متاثر تھے جن کے باعث تعداد میں ایک دم اضافہ ہوگیا اور پندرہ دنوں میں کیسز کی تعداد 15سے بڑھ کر 421 تک جاپہنچی ۔ 

ان 421 افراد میں 265 زائرین تھے جبکہ 132وہ تھے جنہیں مقامی طور پر وائرس منتقل ہوا باقی 24 افراددیگر ممالک سے وائرس ساتھ لائے تھے ۔ سندھ میں جون کے وسط سے کیسز بے قابو ہونا شروع ہوگئے اور 11 جون کو 3 ہزار 38 افراد اس سے متاثر ہوگئے ، 12جون کو2 ہزار428 افراد، 13 جون کو 2 ہزار 262 جبکہ 14 جون کو 2 ہزار 282 افراد کورونا میں مبتلا ہوئے ۔ اس طرح یومیہ کیسزکی اوسطاًتعدادکوڈھائی ہزار تک پہنچ گئی ۔ 

جون میں کیسز اسی تعداد سے سامنے آتے رہے اور یہ سلسلہ جولائی کے پہلے ہفتے تک جاری رہا۔ اس دوران 750 مزید افراد جاں بحق بھی ہوئے اور ہلاکتوں کی تعداد 1 ہزا ر526 ہوگئی۔ 5 جولائی کو سندھ میں 2 ہزار 222 افراد متاثر ہوئے جس کے بعد کیسز میں کمی آنا شروع ہوگئی اور 6 جولائی کو 1 ہزار 708 کیسز رپورٹ ہوئے ۔ 

جس کے بعد بتدریج کمی جاری رہی ۔ 11 جولائی کو 1 ہزار 89 کیسز سامنے آئے ، 15جولائی کو 880 کیسز جبکہ 23 جولائی کو 670 کیسز سامنے آئے ۔ 27 جولائی کو 513 افراد کورونا وائرس سے متاثر ہوئے جبکہ گزشتہ روز 654 افراد متاثر ہوئے ۔ اس طرح یومیہ کیسز کی تعداد اوسطاً 2 ہزارسے گھٹ کر نصف سے بھی کم ہو گئی ہے ۔ واضح ہے کہ سندھ میں ایک دن میں 14ہزار 900 افراد کے ٹیسٹ کرنے کی استعداد موجود ہے ۔

 جہاں تک ہلاکتوں کا تعلق ہے تو یکم جولائی کو 31 افراد جاں بحق ہوئے ، 2 جولائی کو 22 ، 3 جولائی کو 42 ، 11جولائی کو 48 ، 15جولائی کو 34 جبکہ 20 جولائی کو 22 افراد جاں بحق ہوئے ۔ یوں اموات کی یومیہ تعداد میں کمی ہوئی اور اوسطاً 30 اموات سے تعداد گھٹ کر اوسطاً نصف رہ گئی۔ 26 جولائی کو 11 ، 27 جولائی کو 10 جبکہ 28 جولائی کو 17 افراد جاں بحق ہوئے ۔ 

اس وقت کراچی ضلع وسطی میں 861 افراد ، ضلع شرقی میں 981 ، ضلعی کورنگی میں 361، ضلع ملیر میں 457، ضلعی جنوبی میں 810 اور ضلع غربی میں 444 افراد کورونا وائرس سے متاثر ہیں ۔ 

بدین میں 145، دادو میں 131، گھوٹکی میں 289، حیدرآباد میں 528، جیکب آباد میں 118، جامشورو میں 158، قمبہر میں 73، کشمورمیں 109، خیرپور میں 348، لاڑکانہ میں 69، مٹیاری میں 102، میرپور خاص میں 175، نوشہروفیروز میں 172، سانگھڑ میں 139،شہید بینظیرآباد میں 216، شکار پور میں 200، سجاول میں 52، سکھر میں 244، ٹنڈو الہہ یار میں 137، ٹنڈو محمد خان میں 91، تھرپارکرمیں 199، ٹھٹھہ میں 166، عمر کوٹ میں 135 اور سندھ سے باہر کے 87 افرادتاحال متاثر ہیں ۔

 29 جولائی تک سندھ میں کوورنا وائرس کے 7 لاکھ 37 ہزار 639 ٹیسٹ کیے جاچکے ہیں جن میں سے 1 لاکھ 20 ہزار 52 افراد میں وائرس کی تصدیق ہوئی ۔ان میں سے 2 ہزار 189 افراد جاں بحق ہوئے ، 1 لاکھ 9 ہزا ر544 صحت یاب ہوئے جبکہ 8 ہزار 319 افراد تاحال متاثر ہیں ۔

پشاور سے نمائندہ جنگ کے مطابق خیبرپختونخوامیں17 جون سےکوروناوائرس سےمتاثرہ مریضوں اوراموات میں تیزی سے کمی آرہی ہے 7 جون تک روزانہ اوسطاً 641 مریض سامنے آرہےتھے19 جولائی تک یہ اوسط 190 تک آگئی، 7 جون تک مریضوں کی تعداد بڑھ رہی تھی اسی ہفتے سب سے زیادہ 4488 مریض سامنےآئےتھےجبکہ 19 جولائی کو ختم ہونے والے ہفتے میں 1330 مریض سامنے آئے ہیں 17 جون تک آئی سی یوز میں 121مریض زیرعلاج تھےجن کی تعدادمیں بتدریج کمی آئی اور27جولائی تک صرف 41 مریض زیر علاج تھے۔

اسی طرح17جون تک ایچ ڈی یوزمیں 386 مریض زیر علاج تھے 27 جولائی تک صرف 122 مریض رہ گئے، 5اپریل کو ختم ہونے والے ہفتے میں 13 اموات رپورٹ ہوئی تھیں جس کے بعد اموات بڑھتی گئیں اور 14 جون کو ختم ہونے والے ہفتے میں 133 اموات رپورٹ کی گئیں جس کے بعد اموات میں بھی کمی آنے لگی اور 12 جولائی کو ختم ہونے والے ہفتے میں صوبے بھر سے 45 اموات رپورٹ ہوئیں۔

مریضوں اور اموات میں بتدریج کمی کا سلسلہ جاری ہے اورر 29 جولائی کوصرف 6 اموات ہوئیں۔مریضوں اور اموات کے ساتھ ساتھ ٹیسٹوں میں بھی کمی آئی ہےمارچ میں وباءپھیلنےاورانتہاکےعرصےکےدوران14جون تک روزانہ اوسطاً 3336 ٹیسٹ کئے جارہے تھے جو 19 جولائی تک روزانہ 1846 اوسط تک کم ہوگئے۔ 

29 جولائی تک صوبے میں 33 ہزار 845 افراد مرض کا شکار ہوئے تھے جن میں 28 ہزار 317 صحت یاب ہوئے ہیں صحت یاب مریضوں کی شرح 83.66 فیصد ہے 4336 فعال کیسز ہیں جو مجموعی مریضوں کا 12.81 فیصد ہے ، 1192 مریض انتقال کر گئے ہیں اموات کی شرح 3.5 فیصد ہے۔27 جولائی تک صوبے بھر میں 2 لاکھ، 6 ہزار 752 ٹیسٹ کئے گئے تھے جن میں مثبت مریضوں کی شرح 16.2 فیصد تھی فی ملین آبادی 5907 ٹیسٹ کئے گئے۔ 

پشاور، سوات، ایبٹ آباد، دیر پایان، باجوڑ، نوشہرہ اور کرک زیادہ متاثر ہیں وہاں ٹیسٹوں کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہئے۔دیا ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت کے اعداد وشمار کے مطابق8 سے 14جون تک ہفتے تک روزانہ اوسطاً 19 اموات واقع ہو رہی تھیں جو 13 تا 19 جولائی ہفتے تک روزانہ اوسطاً 5 تک آگئیں۔

مارچ میں وباء کے آغاز کے بعد سے شہریوں کی اکثریت نے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نئے ماحول سے خود کو آشنا کر لیا جبکہ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں مرض کا پھیلائو قابو میں رہا تاہم موجودہ کمی کی وجوہات جاننے کے لئے تحقیق کی ضرورت ہے۔

جون کے وسط تک تیزی سے اضافے کے باوجود موجودہ ہفتوں میں مریضوں کی تعداد کم ہوگئی 5 اپریل تک ہفتے میں 249 مریض، 12 اپریل تک 367 مریض،19 اپریل تک 665 مریض، 26 اپریل تک 978 مریض، 3 مئی تک 1210 مریض، 10 مئی تک 1304 مریض، 17 مئی تک 1547 مریض، 24 مئی تک 1901 مریض، 31 مئی تک 3428 مریض، 7 جون تک 4488 مریض، 14 جون تک 3554 مریض، 21 جون تک 2691 مریض، 28 جون تک 2463 مریض، 5 جولائی تک 2250 مریض، 12 جولائی تک 1852 مریض اور 19 جولائی تک ہفتے میں 1330 مریض سامنے آئے۔ 

5 اپریل سے 19 جولائی تک کے ہفتوں میں علی الترتیب 13 ، 39 ، 42 ، 64 ، 73 ، 81 ، 75، 67، 132، 133، 100، 72، 83، 45 اور 37 اموات رپورٹ کی گئیں۔اعداد وشمار کے مطابق روزانہ ٹیسٹوں کا اوسط 1544 تک آگیا سب سے زیادہ 19 جون کو 3932 ٹیسٹ، 20 جون کو 3360 ٹیسٹ، 21 جون کو 3049ٹیسٹ، 22 جون کو 3158 ٹیسٹ، 23 جون کو 2681 ٹیسٹ، 24 جون کو 2609 ٹیسٹ کیے گئے،جس کے بعد بتدریج کمی آناشروع ہوئی ۔

کوئٹہ سے نمائندہ جنگ کے مطابق ملک کےدیگرصوبوں کی نسبت بلوچستان کے33 اضلاع میں صورتحال کافی حدتک کنٹرول میں ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں اب تک 136افراد وائرس سے موت کی وادی میں جا چکے ہیں۔ بلوچستان میں کوروناسےپہلی ہلاکت 23مارچ کو ہوئی تھی۔

وائرس اپریل اور مئی میں عروج پر رہا ۔جون میں صورتحال قدرے بہتر رہی اور15جولائی سے بلوچستان میں کورونا وائرس کا پھیلائو کم ہورہا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صوبائی دارالحکومت میں قائم تین ہسپتالوں فاطمہ جناح ٹی بی سینی ٹوریم چیسٹ ہسپتال‘ شیخ زید ہسپتال اور بی ایم سی میں کورونا وائرس سے متاثر ایک بھی مریض داخل نہیں ہے ۔

وائرس کی کم ہوتی ہوئی شدت سے صوبے میں خوف و ہراس ختم اور رونقیں دوبارہ بحال ہو رہی ہیں ۔صوبائی ڈائریکٹوریٹ ہیلتھ کے ترجمان ڈاکٹر وسیم بیگ نے ’’جنگ‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یکم اپریل سے 30جولائی 138350ہزار سے زائد لوگوں کی سکریننگ اور59380کے کورونا وائرس کے ٹیسٹ کئے گئے جن میں سے 11654افراد کا کورونا ٹیسٹ مثبت اور47726 کا منفی آیا ۔ 

جن میں سے10080مریض صحت یاب ہو چکے ہیں جبکہ136کے قریب افراد کورونا وائرس کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار چکے ہیں ۔جاں بحق افراد میں88کا تعلق صوبائی دارالحکومت سے ہے قلعہ سیف اللّٰہ میں 9لورالائی میں پانچ ژوب میں تین پشین میں چودہ دو نوشکی دوپنجگورمیں اموات ہوئیں۔

بلوچستان میں مارچ تک کورونا سے متعلق صورتحال زیادہ خطرناک نہیں تھی۔ لیکن اپریل اور مئی میں وائرس عروج پر تھا جس سے خوف و ہراس بھی بہت زیادہ پھیلااور ان دو مہینوں میں ہی زیادہ اموات کے علاوہ لوگ وائرس کا شکار ہوئے۔بلوچستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تیزی سے کم ہوتی ہوئی تعداد کی ایک بڑی وجہ ٹیسٹوں میں کمی ہے ۔

دوسری جانب طبی ماہرین کے مطابق وائرس اب اس شدت کا نہیں رہا۔ٹیسٹوں میں کمی کی شکایت پر وزیر اعلی جام کمال نے نوٹس لیا جس کے بعد سول سیکرٹریٹ ‘ڈائریکٹوریٹ ہیلتھ سمیت مختلف عوامی مقامات پر کورونا سے نمونے لینا شروع کر دئیے گئے ہیں۔

 جس سے خدشہ ہے کہ وائرس میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔محکمہ صحت کے ذرائع کے مطابق اپریل اور مئی میں کوئٹہ سمیت بلوچستان کے دیگر اضلاع لسبیلہ پشین قلعہ عبداللہ کیچ مستونگ جعفر آباد خضدار میں وائرس سے بہت زیادہ جانی نقصان ہوئے۔ 

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بڑی تعداد میں اموات گھرو ں پر ہوئیں جو ریکارڈ پر نہیں آ سکیں ۔

تازہ ترین