• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طرفہ تماشا یہ ہے کہ عورت کو تو اگر تین طلاقیں ہوجائیں تو وہ فارغ! جو چاہے کرے، شادی کرے نہ کرے کہ اب وہ آزاد ہے۔ اب ذرا ادھر دھیان دیں کہ تین حلف لینے کے بعد وہ صاحب وزیر بھی رہیں اور خاص کر قانون کے وزیر! لطف کی بات یہ ہے کہ کسی مخالف گروپ نے چوں بھی نہیں کی۔

وزارت قانون میں گرچہ دیگر وکلا بھی ہیں مگر ان کی خوبی یہ ہے کہ یہ پتنگ والوں کی پارٹی میں بھی فٹ ہیں اور ادھر تو زعفران کی طرح ہیں چٹکی بھر بھرم بھی دکھائی نہیں دیتا ہے۔

آج کل کوئی تیس بکرے خرید رہا ہے اور کوئی لاکھوں کا بیل! ویسے پاکستان غریب ترین ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ مذہب کے نام پر کہیں نہ کہیں سے مال نکل ہی آتا ہے کہ

مسجد تو بنالی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے

من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا

جبکہ ہر روز اخباروں میں اشتہار اور خبر ہوتی ہے کہ فلاں بچہ بیمار ہے، کینسر ہے علاج کیلئے امداد چاہئے اس کیلئے رقم کیوں نہیں نکلتی ہے؟

آج کل ہماری دوست شیریں مزاری خواتین اور بچوں کیلئے قوانین بنانے میں بہت مصروف ہیں۔ خدا کرے کے وہ کامیاب ہوں کہ تیزاب کے بارے میں قانون تو ہیں، آئے دن عورتوں پر یہ عذاب نازل ہوتا رہتا ہے اور کوئی سزا وار نہیں ٹھہرتا۔ اسی طرح خود شادی کرنے والے بچوں کو غیرت کے نام پر اس طرح قتل کیا جاتا ہے کہ ان کو انہی کپڑوں میں دفن کردیا جاتا ہے۔ ان سارے عذابوں کا مداوا کیسے ہوگا۔ اب تو علماء بضد ہیں کہ عائلی قوانین میں دوسری شادی کی بندش کو ختم کردیا جائے اور لڑکی کی 18؍سال کی شادی کی عمر منظور کرنے کیلئے تیار نہیں البتہ سندھ میں یہ قانون پاس ہوچکا ہے۔ کچھ دن ہوئے غیر ملکی اخبارات میں اعدادوشمار دیئے ہوئے تھے کہ کن ممالک میں بچیوں کی کم عمری میں شادی کردی جاتی ہے۔ اعدادوشمار کچھ اس طرح لکھے تھے۔

انڈیا میں 4451000، بنگلہ دیش میں 3538000، پاکستان میں 1909000 یہ دیکھ کر ذرا اطمینان ہوا کہ پاکستان میں سب سے کم ہے مگر دیہات میں 11؍سال کی لڑکی کی 16؍سال عمر لکھوا کر اور مولوی کو پیسے دے کر ان کی شادیاں ہورہی ہیں۔ یوں تو ہر وہ غلط کام جس کی خدا نے ممانعت کی ہے، خاص مسلمان ممالک میں دھڑلے سے کیا جاتا ہے، سب جانتے ہیں سارے زمانے کے میڈیا سے یہ تبلیغ بھی جاتی ہے۔

رہا سیاستدانوں کا مسئلہ، بڑے سکون اور آرام سے چینی ہو کہ آٹا چھپا لینے کے بعد پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے۔ اتنے سادہ بھی ہیں کہ کہتے ہیں مجھے یہی نہیں معلوم کہ گنتی میں کتنے زیرو ہوتے ہیں۔ اسی طرح جب مرحلہ آیا نوکری میں وسعت دینے کا تو جواز یہ کہ اگر کسی کو تیسری دفعہ وزارت مل سکتی ہے تو پھر وہ تو ’’نیب‘‘ کے چیئرمین چار سال رہے ہیں، ذرا رسی لمبی ہوجائے تو طبیعت میں بدلہ لینے اور اذیت دینے کی خو ہو تو کتنے گماشتے لگ جاتے ہیں۔

ہمارے ایک سینئر صحافی نے ایک دفعہ لکھا تھا کہ احمد فراز، عمران خان کو ملنے گئے تو وہ صحافی بھی پہنچ گئے عمران خان نے احمد فراز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے نظریاتی دوستوں کے گروپ میں شامل ہونے والے ہیں۔ اب احمد فراز تو نہیں رہے، ان کے جانشین شبلی فراز ان کی نظریاتی ٹیم میں شامل ہوگئے۔ روز شام کو ان کے منہ سے پھول جھڑ رہے ہوتے ہیں۔ یہی دیکھ کر فیض صاحب کی صاحبزادی سلیمہ ہاشمی نے کہا۔ ’’ہمارے ابا بڑے خوش بخت تھے کہ انہوں نے کوئی بیٹا پیدا نہیں کیا۔ خدا کرے کہ اعتزاز احسن اور ربانی صاحب کی طرح شبلی کو بھی بولنا آجائے ۔ یاد آتا ہے کہ بہت معتبر وکلا جیسے شریف الدین پیرزادہ ہر زمانے کے محقق اور معتبر رہے ہیں۔ دیکھتے ہیں اب کی بہار میں کیا گل کھلیں گے …… کیوں یاد کروں وہ زمانہ جب انگریز کو اورنگزیب نے زمین پر لیٹ کر معافی مانگنے پر مجبور کیا تھا پھر بعد میں اورنگزیب کے ساتھ جو کچھ ہوا، تاریخ بتاتی ہے۔ ویسے سب سے زیادہ گنجلک پاکستان کے 72؍سال کی تاریخ ہے جس میں ہر قدم پر بیوروکریسی کی سیاست دانوں کے ساتھ مل کر گلچھرے اڑانے کے فسانے ہر سال کے نوشتے میں موجود ہیں۔ غلط تو لیاقت علی خان نے ناظم الدین صاحب کے ساتھ سلوک کرکے شروع کیا تھا کیا لطف کی بات ہے کہ بیوروکریسی کو قابو کرنے کی چاروں جانب سے کوششوں کے باوجود یہ بے مہار گھوڑا وہ دولتیاں لگاتا ہے کہ سارے چالاک سیاستدانوں کے ہوش ٹھکانے ایسے آتے ہیں کہ دونوں مل کر منصوبوں کے قورمے کا لطف لینے لگتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین