• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آخر کب ہمارے بلدیاتی ادارے فعال ہونگے؟ یہ وہ سوال ہے جو آج کا ہر بچہ اپنے والدین سے پوچھتا ہے۔ کیونکہ گلوبلائزیشن نے آج کی نسل میں آگہی،فہم اور ادراک بڑھادی ہے ۔ وہ دوسرے ممالک سے مقابلہ کرتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ جب ہر ملک میں بلدیاتی ادارے اس قدر فعال ہیں مئیر اپنے شہر کے ترقیاتی کاموں اور منصوبوں میں بذات خود دلچسپی لیتے ہیں اور جہاں جہاں اور جن جن شعبوں میں خرابی یا نقص نظر آتے ہیں اسے دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ اور ان کے انداز میں تکبر کے بجائے انکساری کا جذبہ نمایاں ہوتے۔ خود کمانے یا اپنی ذات کو فائدہ پہنچانے کے بجائے اور شہر اور شہریوں کی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھتے ہیں۔ اس نسل کا کہنا ہے کہ ہم نے جب آنکھ کھولی، کوئی کتاب پڑھی، اسکول میں جو کچھ بھی پڑھایا گیا صرف اور صرف باہر والوں کا ذکر ہوتا تھا انہیں کی مثالیں دی جاتی تھیں انہی کی زبان، ثقافت، تہذیب اور طرز زندگی کو نقل کرنا کامیابی کی ضمانت قرار دیا جاتا تھا اور ہے ۔ پھر ایسا کیا ہے کہ ہماری شہری حکومتیں ان لوگوں کو مثال نہیں بناتیں؟ کچھ کرنے کی بجائے صرف الزام تراشیاں اور اختیارات کی کمی کا رونا رویا جاتا ہے۔ لیکن جب ان شہری حکومتوں کی مدت حکومت پوری ہوتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ ان جانے والی شہری حکومتوں کے دور میں کتنی بےضابطگیاں

ہوئیں ، کتنا مال بنایا گیا، کس طرح شہر کو خراب کیا گیاآخر وہاں کے مئیر کیوں اپنے شہر محبت کرتے ہیں اور اسے اپناتے ہیں ؟ جبکہ ہمارے صرف اپنے عہدے سے محظوظ ہوتے ہیں اور بس۔ یہی نسل پھر یہ سوال کرتی ہے کہ جب کوئی وی وی آئی پی شخصیت کسی علاقے کا دورہ کرنے آتی ہے تو اسی ادارے کا پورا عملہ حاضر ہو جاتا ہے۔ سالوں کی گندگی گھنٹوں میں صاف ہوجاتی ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ ہر کام صرف وی وی آئی پی موومنٹ کا ہی منتظر ہے۔ اس سال جولائی کے مہینے میں کراچی شہر میں شدید گرمی بڑی ہے اور بارشیں بھی ہوئی ہیں جس پر شہری بہت خوش ہوئے لیکن افسوس ادارے کی بے عملی اور ناقص ترین کارکردگی کی بدولت یہ بارشیں رحمت کے بجائے انتہائی اذیت بنی ہوئی ہیں۔ شہری بارش سے محظوظ ہونے کے کی کوشش میں کرنٹ لگنے سے جان کی بازی ہار جاتے ہیں، موٹر سائیکل سوار اور گاڑیوں کے مالکان اپنی سواری کے خراب ہونے کا عذاب جھیلتے ہیں، رہائشی گھر میں بارش کے پانی وہ بھی ابلتے گٹر کے غلیظ پانی کی ملاوٹ کے ساتھ گھس جانے پر پریشان کہ اپنے سر کو پیٹیں یا ذمہ دار اداروں کے افراد کو کوسیں جن کے کان پر پھر بھی کوئی جوں نہیں رینگتی ۔ عجیب بے حسی اور بے بسی کی تصویر ہے ۔ فلموں میں بارش رومانس کی علامت، محبوب کو منانے یا ملاقات کے بہانے کے لئے بارش کو ہی یاد کیا جاتا ہے۔ اچھے موڈ کو اچھے موسم سے جوڑا جاتا ہے اور اچھے موسم کی پہچان بادلوں کی رم چھم لیکن افسوس کراچی کی نئی نسل ان سارے جذبات سے عملا بہت دور ہے ایسے میں اداروں کو برا بھلا کہنا ان کا حق ہے-کیا خیال ہے آپ کا ؟ کیا اب اصل تبدیلی ہماری نئی نسل ہی لائے گی؟

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین