• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’بیانئے کی جنگ‘‘ یاسر پیرزادہ کے کالموں پر مشتمل ان کی تیسری کتاب ہے۔ قبل ازیں ان کے دو مجموعے’’ذرا ہٹ کے‘‘ (حصہ اول و دوم) منظر عام پر آچکے ہیں۔
’’بیانئے کی جنگ‘‘ پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کے حوالے سے ’’عقیدے کے بیانیہ‘‘ کو مکمل فطری سچ کی خطرناک کسوٹی پر پرکھنے کی جرأت مندانہ دستاویز ہے۔’’بیانئے کی جنگ‘‘ کو پرویز رشید کی استعمال کردہ تخلیقی اصطلاح’’فکری ضرب عضب‘‘ کی بارش کا پہلا قطرہ بھی کہا جاسکتا ہے جو مکمل فطری سچ سے خوف زدہ بنجر زمین میں افکار کی روئیدگی اور ہر یالی سے ہمکنار کرسکتی ہے اور پاکستانی معاشرے کی نجات کے لمحے کا آغاز ہوسکتا ہے۔
مذہبی دہشت گردی کے تناظر میں ’’بیانئے کی جنگ‘‘ ان مذہبی علمبرداروں اور رہنمائوں کی نعرہ باز اپروچ کم از کم پاکستان کی حد تک ناقابل شکست ہوچکی ہے، جس کا ثبوت سابق امیر جماعت اسلامی جناب منور حسن کا ببانگ دہل طالبان کے ساتھ نبرد آزما افواج پاکستان کے جانباز جوانوں ا ور دیگر ریاستی اہلکاروں کو شہید قرار دینے سے کھلا انکار تھا۔ وہ نہ صرف ا پنے اس اعلان پر سینہ تانے کھڑے رہے، انہوں نے ایک آدھ دن کا وقفہ ڈال کر اپنے نظریاتی قول پر اصرار کیا۔
روایتی مذہبی نعرہ بازی اور اسلاف سے وابستہ روشن ماضی کی روشن مثالوں کے غلط اطلاق سے پاکستان کے مسلم معاشرے کو ذہناً متشدد اور جارح قوت کا عالمی نمائندہ بنادیا گیا، ان مذہبی علمبرداروں اور رہنمائوں کے علاوہ جن کی طرف ا شارہ کیا جاچکا، دینی اور قومی نقطہ نظر سے انتہائی نقصان دہ نظریاتی روش کو بعض سیاسی لیڈروں اور قلمکاروں نے حددرجہ مہمیزدی ، ایسے سیاستدانوں کا مقصد اس محاذ پر صرف اپنے سیاسی مخالفوں کو زچ کرنا تھا۔ قلمکار وہ تھے اور وہ ہیں جنہیں لاکھوں افغانوں کے بہتے لہو نے کبھی متاثر نہیں کیا۔ امریکہ کی پوری موجودگی کے باوجود ’’امریکہ بھاگ گیا‘‘ کہنے اور لکھنے سے ایک لمحہ کو بھی نہیں جھجکتے، افغانستان، عراق، شام، لیبیا، انڈونیشیا، نائیجریا، پاکستان، مصر حتیٰ کہ سعودی عرب تک میں سے چند ایک عبرت و بربادی کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں، جو دو چار باقی رہ گئے ہیں ان کے سلسلے میں بھیانک انجام کے آخری کنارے پر دکھائی دینے لگے ہیں!
نظریاتی سراب، واقعاتی خودسری اور متشدد فہم دین کی یہی وہ مثلث ہے جس میں’’بیانئےکی جنگ‘‘ جیسی نظریاتی دستاویز شہادت حق کے کھلے دروازے کے طور پر یاسر نے کتاب کے اس محوری منصب کی پیغام رسانی کے لئے موثر، متنوع اور تکلم سخن طرازیوں سے کام لیا ہے۔ کتاب کا تعارف ہی ان تمام پہلوئوں کی تجسم کے لئے کافی ہے۔ لکھتے ہیں:۔’’یہ کتاب بارہ مصالحے کی چاٹ ہے نہ اس میں درویش بننے کے ایک سو ایک طریقے بتائے گئے ہیں، اس میں’’وہ طوائف کیسے بنی‘‘ ٹائپ کی کوئی کہانی ہے اور نہ سیاستدانوں کی عیاشیوں کے سیکنڈل ہیں، یہ کتاب میری کامیابیوں کی داستان ہےاور نہ ا پنی نیکیوں کا خلاصہ، یہ میری عظمتوں کا بیان ہے اور نہ ہی اس میں کروڑ پتی بننے کے نسخے سمجھائے گئے ہیں۔ یہ فقط ان ٹوٹی پھوٹی تحریوں کا مجموعہ ہے جو میں نے گزشتہ دو چار برسوں میں ایسے موقع پر لکھیں جب اس ملک میں دہشت گردوں کے حمایتی سینہ تان کر ان کی حمایت میں ٹی وی اور اخبارات میں پروگرام کرتے اور کالم لکھتے تھے(ہیں)‘‘......اور یہ کہ’’ہمارے ملک میں سفاک لوگوں کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ جو انسانوں کے گلے کاٹتے ہیں اور دوسرے وہ جو ان سفاک لوگوں کو ’’اپنے لوگ‘‘ کہتے ہیں، ہمارے ملک میں دہشت گردوں کی بھی دو قسمیں ہیں، ایک وہ جو بم دھماکوں میں دوسروں کا خون بہاتے ہیں اوردوسرے وہ جوان دہشت گردوں کو شہید قرار دے کر ان کے حق میں تاویلیں گھڑتے ہیں۔ ان تمام لوگوں کے پاس اپنی بربریت کے جواز کے طور پر ایک بیانیہ ہے جو کل سات’’دلائل‘‘ پر مشتمل ہے جس پر دہشت گردی کی پوری عمارت کھڑی ہے، ویسے تو یہ بیانیہ بے حد کھوکھلا ہوچکا ہےتاہم اب بھی ضرورت ہے کہ ان دلائل کو بار بار پرکھا جائے جو دہشت گردوں کے حمایتی آئے دن میڈیا پر دہراتے ہیں‘‘۔
اور جب آپ کتاب کے صفحہ137پر ان’’سات دلائل‘‘ کا مطالعہ شروع کرتے ہیں تب آپ بے ساختہ کہہ اٹھتے ہیں، واقعی قلمکار نے زیر بحث بحران کے تمام پہلوئوں کی تجسیم کردی ہے۔ ’’عافیہ ا ور ملالہ‘‘ ....کیا مقابلہ ؟، ’’ہمارے تین پسندیدہ جھوٹ‘‘،’’بوکو حرام، باقی سب حلال‘‘، ’’مائنڈ سیٹ‘‘ ، ’’ضرب عضب کے ہیرے‘‘، ’’کھیل جو ہم نے کھیلے‘‘ ، جیسے کالم یا ابواب آسان الفاظ کی بنت کے ساتھ پرکشش اسلوب میں ڈھلی ہوئی ابلاغی تجسیم کی شاہکار مثالیں ہیں، شاید کتاب کا کوئی آدھ باب ہی اس معیار، کیفیت اور کمیت میں کسر کھاتا ہوگا۔
یاسر پیرزادہ کے کالموں کا یہ تیسرا مجموعہ ’’بیانئے کی جنگ‘‘ ایک اور پہلو سے ہمیں امت مسلمہ خصوصاً برصغیر میں فہم دین کے تاریخی ریکارڈ کی صدائے بازگشت کو ایک مجسم اور متشکل دلیل کی مانند سامنے لایا ہے!
برصغیر میں فہم دین کا صراط مستقیم ذاتی طبائع کے مقدس تموج،طوفانوں اورتقدیسی ردعمل کانخچیررہا ہے، ہولناک مثال اس کی ایک وہ فتویٰ ہے جو برصغیر میں جمعیت العلمائے ہند کے سیکرٹری مولوی عبدالباری نے سلطنت عثمانیہ کے زوال اور عبرت ناک انجام پر جاری کرتے ہوئے ہندوستان کو’’دارالحرب‘‘ قرار دے دیا۔ بقول حسن جعفر زیدی:۔’’اس فتویٰ کا اثر قبول کرکے مسلمانوں کے ادنیٰ درمیانہ طبقے کے تقریباً 18ہزار نیم تعلیم یافتہ افراد اپنا سب کچھ بیچ باچ کر اپنے اہل و عیال کے ہمراہ’’دارالحرب‘‘ ہندوستان چھوڑ کر’’دارالسلام‘‘ افغانستان چل پڑے۔ وہاں کی حکومت نے انہیں سرحد پر روک لیا، خانماں برباد مہاجرین کو افغانستان میں رہنے کی اجازت نہ دی گئی لہٰذا انہیں ذلیل و خوار ہو کر واپس اپنے گھروں کو آنا پڑا۔ لوگ فاقہ کشی اور مختلف امراض میں مبتلا ہو کر جاں بحق ہوگئے، مذہبی تطہیر ذہنی سے مغلوب ہو کر مصائب برداشت کرنے والے ان مہاجروں میں پنجاب، سندھ، سرحد کے رہنے والوں کی تعداد زیادہ تھی۔ ایک غیر سرکاری اندازے کے مطابق جن لوگوں نے’’تحریک ہجرت‘‘ میں حصہ لیا ان کی تعداد5 لاکھ سے30لاکھ تھی ، اب وہ لوگ نہ افغانستان میں رہ سکتے تھے نہ واپس جاسکتے تھے۔ پشاور سے کابل تک کی سڑک ان ’’صعوبت زدہ، بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کی قبروں سے بھر گئی‘‘۔
فہم دین کے صراط مستقیم کی اپنی اپنی ذاتی طبائع اور ردعمل کے ہاتھوں خود ساختہ تفسیر و تعبیر کے اس راستے کی شروعات خوارج سے لے کر مولوی عبدالباری تک اور مولوی عبدالباری سے لے کر طالبان تک ایک ناقابل بیان زوال اور تباہی کی داستان سناتی اور دکھاتی ہے،’’بیانئے کی جنگ‘‘ اس داستان کا تشریحی احساس ہے، یہ نظریاتی دستاویز آپ کو بالآخر اس حاصل کا چہرہ شناخت کراتی اور اسے تسلیم کرنے کا قائل کرلیتی ہے، جس کی رو سے فہم دین کا صراط مستقیم’’ اپنے عصر‘‘ کے تکمیلی اور ہمہ جہتی ادراک میں ہے۔
آج بھی مذہبی شدت پسند1977کی احتجاجی تحریک کا سلوگن بلند کرتے ہیں جس نے پاکستان کو شدت پسندی کے زندہ جہنممیں تبدیل کردیا،’’ بیانئے کی جنگ‘‘، اس جہت سے مسلمانوں کا اپنے ملک کی سلامتی کے لئے اس آخری جنگ میں بحیثیت قوم، ذہنا ًاور عملاً شامل ہونے کا فیصلہ کن دعوت نامہ بھی ہے!
تازہ ترین