قیامِ پاکستان کے 73سال مکمل ہوگئے۔ پاکستانی فلمی صنعت عمر میں اپنے ملک سے ایک برس چھوٹی ہے، اس لحاظ سے پاکستانی سینما نے بہتر سال مکمل کرلیے ہیں۔ سات دہائیوں سے زائد عرصے پر مشتمل پاکستانی سینما نے حب الوطنی کے تناظر میں کئی جہتوں میں کام کیا، جن میں کہانی نویسی، مکالمہ نویسی اور فلم سازی کے دیگر شعبے شامل ہیں۔ تاریخی، مذہبی اور قومی موضوعات پر کہانیاں لکھی گئیں، اسلامی تاریخ، فرنگی استعمار، تقسیم ہند، قیام پاکستان، ملکی دفاع اور جذبہ حریت ایسے موضوعات ہیں، جن پر لکھی گئی کہانیاں فلمی صنعت میں جذبہ حب الوطنی کی عکاس ہیں۔
پاکستانی فلمی صنعت میں دو طرز کے کہانی نویسوں نے اپنی خدمات فراہم کیں، ایک تو وہ پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے مالک اور کہانی نویس تھے، جن کو کسی بھی موضوع پر کہانی قلم بندکرنے کا ہنر آتا تھا، ان میں کمرشل رخ سے کہانی لکھنے کا رجحان زیادہ پایا جاتا، اس کی مثال لیں تو سیف الدین سیف اور شباب کیرانوی جیسے نامور فلم ساز دکھائی دیتے ہیں، جن کا اصل حوالہ تو فلم سازی تھا، لیکن انہوں نے بطور کہانی نویس بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ 1959 میں ریلیز ہونے والی پنجابی فیچر فلم’’کرتار سنگھ‘‘ سیف الدین سیف کی بطور کہانی نویس ایک کامیاب فلم تھی جبکہ 1966 میں ریلیز ہونے والی اردو فیچر فلم’’وطن کے سپاہی‘‘ شباب کیرانوی کی بطور کہانی نویس ایک بہترین فلم تھی۔
دوسری طرح کے کہانی نویس یا وہ ادیب ہیں، جنہوں نے وطن سے محبت کے جذبے پر کوئی کہانی یا ناول لکھا، پھر فلم سازوں نے ان کی کسی کہانی سے استفادہ کیا اور اسی ادیب سے درخواست کی، وہ سینما کے لیے بھی اپنی کسی کہانی کو اسکرپٹ کی شکل دیں یا نئی سرے سے کوئی کہانی لکھ دیں، اس تناظر میں نسیم حجازی کا نام ایک بڑا حوالہ ہے، جنہوں نے طبع زاد ناول لکھے، سینما اور ٹیلی وژن کے لیے اپنی تحریر کردہ کہانیوں کو ضرورت کے مطابق ڈھال کر بھی دوبارہ لکھا۔ 1979 میں ریلیز ہونے والی اردوفیچر فلم ’’خاک و خون‘‘ اس تناظر میں اہم مثال ہے۔
ایسی مثالوں سے پاکستانی سینما کی تاریخ بھری پڑی ہے، لیکن ایسے کئی کہانی نویس بھی ہیں، جن کی خدمات کا ادبی پہلو سے اعتراف نہیں کیا جاتا، کہانی یامکالمے فلمی ہونے کی وجہ سے ان کو ادب عالیہ کا درجہ نہیں دیا جاتا جبکہ اکثر ایسے کہانی نویس بھی ہیں، جنہوں نے جذبہ حریت اور حب الوطنی سے فلم بینوں کے دل گرما دیئے، لیکن فلمی صنعت کی بدقسمتی ہے کہ ان قلم کاروں کی تخلیقات کو ادب تسلیم نہیں کیا گیا۔ ان کی نگارشات کو بھی ادبی زاویے سے دیکھنا اور ماننا چاہیے۔
بہتر سالہ پاکستانی سینما میں جن کہانی نویسوں نے اپنی شاندار کہانیوں سے فلمی دنیا میں حریت کے جذبے کو اجاگر کیا اور مکالمے قلم بند کیے، ان میں مذہبی اور تاریخی پس منظر میں بنائی گئی فلموں کی تعداد ایک درجن سے زیادہ ہے، جن میں محمدبن قاسم، حیدر علی، ٹیپو سلطان، نواب سراج الدولہ اور دیگر تاریخی شخصیات پر بننے والی فلمیں ہیں۔
اسی طرح فرنگی استعمار پر جو فلمی کہانیاں لکھی گئیں، ان میں ملنگی، نظام لوہار، چن وریام اور غلامی وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سے فلم’’ملنگی‘‘ کو ہی دیکھ لیں، جس کے کہانی نویس چوہدری محمد اسلم تھے، جبکہ منظر نامہ اور مکالمے’’سکیدار‘‘ نے لکھے تھے، اپنے موضوع سے انصاف کرتی ہوئی کیا شاندار فلم تھی۔
تقسیمِ ہند اور قیامِ پاکستان کے حوالے سے بھی فلمی صنعت میں بہت کہانیاں تخلیق ہوئیں، جن کی کہانیوں نے فلم بینوں کے دل گرما دیے، ان میں بیداری، چراغ جلتا رہا، یہ امن، مجاہد، وطن کے سپاہی، وطن کے رکھوالے، جنت کی تلاش اور دیگر شامل ہیں۔ اس دور کے بہترین کہانی نویسوں میں ریاض شاہد کا نام سرفہرست ہے، جنہوں نے شہید، زرقا، مجاہد، ،فرنگی، یہ امن جیسی فلموں کی کہانیاںبھی لکھیں۔
قیامِ پاکستان کے تناظر میں سب سے بڑی فلم’’جناح‘‘ ہے، جو 1998 میں ریلیز ہوئی ، اس کے فلم ساز جمیل دہلوی تھے، انہوں نے اکبر ایس احمد کے ساتھ مل کر اس فلم کی کہانی لکھی تھی۔ یہ ایک ایسی فلم ہے، جس کو مدتوں یاد رکھا جائے گا، بین الاقوامی سینما میں بھی اس فلم کے معیار کی تعریف کی جاتی ہے۔
کچھ کہانی نویس ایسے بھی ہیں، جنہوں نے زیادہ کہانیاں نہیں لکھیں، مگر جو کچھ لکھا، وہ سینما کی تاریخ میں امر ہوگیا۔ 1957 میں ریلیز ہونے والی اردو فیچر فلم بیداری کو دیکھ لیں، جس کو وزیر علی نے لکھا اور اس کے مکالمے ابراہیم جلیس نے لکھے، یا پھر 1962 میں ریلیز ہونے والی اردو فیچر فلم’’چراغ جلتا رہا‘‘ تھی، جس کی کہانی فضل احمد کریم فضلی کی لکھی ہوئی ہے، وہ خود ہی اس فلم کے ہدایت کار بھی تھے۔
2009 میں ریلیز ہونے والی فلم’’رام چند پاکستانی‘‘ کی کہانی بھی وطن سے محبت اور اقلیتوں کے جذبہ حب الوطنی کی اعلی مثال ہے، جو فلم ساز جاوید جبار کی کہانی تھی اور اس کا اسکرپٹ محمد احمد نے لکھا تھا۔ جذبہ حریت اور حب الوطنی کے تناظر میں اب تک جو کہانیاں لکھی گئیں، ان کے تذکرے کے بغیر پاکستانی سینما میں جذبہ حب الوطنی کی تاریخ ادھوری رہے گی، ان نمایاں کہانی نویسوں میں ریاض شاہد، نسیم حجازی، پرویز کلیم اور جمیل دہلوی بہت کلیدی کہانی نویس تھے۔
پاکستانی سینما میں کہانی نویسی اور مکالمات نگاری کے پہلوئوں سے بہت معیاری کام ہوا اور فلم بینوں کے ذوق کو تسکین ملی۔ اس لیے ادب عالیہ کے ادیبوں اور کہانی نویسوں کے ساتھ ساتھ ہمیں فلمی دنیا کے قلم کاروں کو بھی یاد رکھناچاہیے، جنہوں نے اپنے قلم سے وطن کی محبت میں ڈوبی ہوئی کہانیاں اور مکالمات تخلیق کیے اور اپنے قلم کا حق ادا کیا۔ فلمی منظر نامے پر یہ کہانی نویس قلم کی حریت کا مستند اور شاندار حوالہ رہیں گے۔