اسلام آباد (ساجد چوہدری‘عاصم جاوید) ججز کے تبادلے اور تاحیات صدارتی استثنیٰ کی شق میں ترمیم‘ سینیٹ نے فوج سے متعلق دوشقوں سمیت ستائیسویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کر لی‘64ارکان نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیاجبکہ مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں پڑا‘ اپوزیشن ارکان نے شدیداحتجاج کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ قبل ازیں ایوان سے 59 شقوں کی مرحلہ وار منظوری لی گئی۔ تحریک انصاف کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو‘ جے یو آئی (ف) کے احمد خان اور سینیٹر نسیمہ احسان نے بھی ترمیم کے حق میں ووٹ دیا‘چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضاگیلانی نے کہاکہ میثاق جمہوریت کے تحت متفقہ طور پر آئینی ترمیم لائی گئی جبکہ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑکا کہناہے کہ ترمیمی بل میں معمولی ردو بدل کیاگیاہے ‘جو چیف جسٹس سینئر ہوگا وہی ججز تقرری کمیٹی اور مواخذہ کرنے والی سپریم جوڈیشل کونسل کی سربراہی کرے گا‘نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ موجودہ ججز کی سنیارٹی کو برقرار رکھا جائے گا‘این ایف سی ‘لوکل باڈیز‘نصاب اورKPکے نام کی تبدیلی کا معاملہ آگے چل کر دیکھیں گےجبکہ سینیٹرایمل ولی خان کا کہناتھاکہ آئین کو مصلحت یا ذاتی مفاد کیلئے قربان نہیں کیا جاسکتا۔ پیر کو ایوان بالا کے اجلاس کے دوران وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے آئینی ترمیمی بل 2025 پیش کرنے کی تحریک پیش کی تو اپوزیشن نے شور شرابہ شروع کر دیا اور چیئرمین سینیٹ کے ڈائس کا گھیراؤ کر لیا‘ اس دوران وہ چیئرمین سینیٹ اور وزیر قانون کی طرف بل کی کاپیاں پھاڑ پھاڑ کر پھینکتے رہے اور نامنظور نامنظور نعرے لگاتے رہے۔ 27 ترمیم کی شقوں کی مرحلہ وار منظوری کے دوران اپوزیشن نے کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا اور ایوان سے باہر نکل گئے۔ پی ٹی آئی کے سیف اللہ ابڑو اپنی نشست پر بیٹھے رہے اور احتجاج میں شریک نہیں ہوئے، آئینی ترمیم پیش کرنے کی تحریک پر ایوان میں ووٹنگ کے وقت وہ تحریک کے حق میں کھڑے ہوئے۔ جے یو آئی کے احمد خان بھی تحریک کے حق میں کھڑے ہوئے۔ چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے رولنگ دی کہ 27 ویں آئینی ترمیم بل سینیٹ سے منظور کر لیا، حق میں 64 ووٹ آئے جبکہ مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں آیا۔آئینی عدالت کے قیام سے متعلق آرٹیکل 42میں ترمیم کثرت رائے سے منظور ہوگئی، آرٹیکل 59میں ترمیم بھی کثرت رائے سے منظور کی گئی۔ آرٹیکل 63اے میں لفظ سپریم کی جگہ وفاقی آئینی عدالت کرنے کی ترمیم منظوری دی گئی، آرٹیکل 68 میں پارلیمانی بحث کے حوالے سے وفاقی آئینی عدالت کا ذکر شامل کرنے کی ترمیم منظور کی گئی۔آرٹیکل 78 میں ترمیم متعلقہ پیراگراف میں وفاقی آئینی عدالت کا ذکر شامل کرنے کی ترمیم بھی منظور کی گئی ۔آرٹیکل81کے دونوں پیراگراف میں عدالت کا اضافہ کرنے کی ترمیم بھی منظورکرلی گئی۔آرٹیکل 114میں وفاقی آئینی عدالت کا نام شامل کرنے، آرٹیکل 130میں وزرائے اعلیٰ کے مشیروں کی تعداد میں اضافے، آرٹیکل 165 اے میں وفاقی آئینی عدالت کے نام کا اضافہ کرنے آرٹیکل 175 کی تعریف میں وفاقی آئینی عدالت پاکستان کا ذکر شامل کرنے اور آئین پاکستان میں آرٹیکل 175اے میں ترامیم منظور کرلی گئیں ۔ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نو سے متعلق سپریم کورٹ اور وفاقی آئینی عدالت کے ایک ایک سینئر ججز شامل کرنے، اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی کیلئے آرٹیکل 175اے میں ترمیم، وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس جوڈیشل کمیشن کے ممبر ہونے کی ترمیم بھی منظور کرلی گئی۔منظور ترمیم کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی جوڈیشل کمیشن کے ممبر ہوں گے، سپریم کورٹ اور وفاقی آئینی عدالت کے سینئر ایک ایک جج بھی جوڈیشل کمیشن کے ممبر ہوں گے۔ آرٹیکل 175 ڈی میں ترمیم کثرت رائے سے منظور کرلی گئی، آرٹیکل 175ڈی میں آئینی عدالت کے ججز سے دوبارہ حلف لینے کی ترمیم بھی منظور کرلی گئی، آئینی عدالت کے جج آئین پاکستان کے تھرڈ شیڈول کے مطابق حلف لیں گے۔منظور کردہ ترمیم کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کے فیصلے کا اطلاق پاکستان کی تمام عدالتوں سمیت سپریم کورٹ پر بھی ہوگا، سپریم کورٹ کے کسی فیصلے کا اطلاق وفاقی آئینی عدالت پر نہیں ہوگا، سپریم کورٹ کے فیصلے کا اطلاق ملک آئینی عدالت کے سوائے ملک کی تمام عدالتوں پر ہوگا، آئینی بنچز میں مفاد عامہ کے تمام مقدمات وفاقی آئینی عدالت میں منتقل ہوں گے۔ترمیم کے مطابق وفاقی آئینی عدالت میں ہائی کورٹ کا وہ جج ممبر بن سکتا ہے جس نے ہائی کورٹ میں کم از کم 5سال بطور جج خدمات دی ہوں۔چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت کو جوڈیشل کمیشن میں نمائندگی دینے کی ترمیم بھی منظور کرلی گئی۔تمام 59 شقیں دوتہائی اکثریت سے منظور کی گئیں۔