• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

17؍ اگست 1947ء کو بائونڈری کمیشن نے پاکستان سے جو بے انصافیاں کیں، چوہدری محمد علی ان کے عینی شاہد ہیں۔ پاکستان کے پہلے سیکرٹری جنرل ،سابق وزیر خزانہ اور سابق وزیراعظم چودھری محمد علی کی کتاب’’ ظہور پاکستان‘‘ ایک معتبر حوالہ جاتی کتاب ہے۔ یہ کالم اُن کی کتاب سے ماخوذ ہے۔ چشم کشا انکشافات پڑھیں اور ان دانشوروں کے جھانسے میں نہ آئیں جو ہندوستانی نقطہ نظر کی پیروی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ایوارڈ مسلم لیگ کے مطالبات کے مطابق تھا۔

پنجاب میں ریڈ کلف نے جو ثالثی فیصلہ دیا، اس میں متصلہ مسلم اکثریت کے متعدد علاقے پاکستان سے قطع کر دیئے، لیکن ہندوستان سے غیر مسلم اکثریت کا ایک بھی علاقہ نہ لیا گیا۔ اگر ان فیصلوں کا جواز ’’دوسرے عوامل‘‘ کے الفاظ میں تلاش کیا جائے، تو یہ بات بہت ہی حیرت انگیز ہے کہ دوسرے عوامل ہمیشہ یکسانی کے ساتھ ہندوستان کے حق میں اور پاکستان کے خلاف ہی بروئے کار آئے۔ ضلع گورداسپور میں متصلہ مسلم اکثریت کی دو تحصیلیں گورداسپور اور بٹالہ ایک اور تحصیل پٹھانکوٹ کے ساتھ ہندوستان کو دے دی گئیں تاکہ ہندوستان اور ریاست جموں و کشمیر میں رابطہ قائم ہو جائے۔ ضلع امرتسر میں مسلم اکثریت کی تحصیل اجنالہ بھی ہندوستان کے حوالے کر دی گئی۔ ضلع جالندھر میں دریائے ستلج اور بیاس کے زاویہ میں واقع مسلم اکثریت کی دو تحصیلیں نکودر اور جالندھر ہندوستان کا حصہ قرار دی گئیں۔ دریائے ستلج کے مشرق میں ضلع فیروز پور کی دو مسلم اکثریت کی تحصیلیں زیرہ اور فیروز پور بھی ہندوستان کو منتقل کر دی گئیں۔ مسلم اکثریت کے یہ سب علاقے مغربی پنجاب سے متصل تھے۔ ان میں سے بعض علاقوں کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کے لئے ریڈ کلف نے کوئی وجہ پیش کرنے کی زحمت گوارا نہ کی۔

ریڈ کلف نے جس طرح ضلع گورداسپور کو تقسیم کیا، اس سے پاکستان کو شدید تر ضرب لگی۔ اس ضلع کی چار تحصیلیں تھیں اور ان میں سے صرف ایک پٹھانکوٹ میں غیر مسلم اکثریت میں تھے۔ باقی تین تحصیلوں گورداسپور، بٹالہ اور شکر گڑھ میں مسلمان اکثریت میں تھے۔ بہ حیثیت مجموعی اس ضلع میں غیر مسلم اکثریت بہت معمولی تھی لیکن اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ تحصیل پٹھانکوٹ میں غیر مسلم اکثریت کا تناسب بہت زیادہ تھا۔ ضلع گورداسپور ریاست جموں و کشمیر سے متصل تھا۔ اس ضلع کے مشرق کی جانب ہندوستان کے علاقہ میں اونچے پہاڑ تھے اور صرف اس ضلع کے میدانی علاقوں سے ہی ریل اور سڑک کے ذریعے ہندوستان کی رسائی جموں اور کشمیر تک ہو سکتی تھی۔ اگر ریڈ کلف ہندوستان کو صرف غیر مسلم اکثریتی تحصیل پٹھانکوٹ دیتا تو ہندوستان پھر بھی جموں اور کشمیر تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ کیونکہ اس تحصیل کے جنوب میں مسلم اکثریت کی تحصیلیں بٹالہ اور گورداسپور سد راہ بن جاتیں۔ یہ دونوں مسلم اکثریتی تحصیلیں بھارت کے حوالے کر کے ریڈ کلف نے ریاست جموں و کشمیر سے ہندوستان کے رابطہ کی صورت پیدا کر دی اور اس طرح ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تلخ ترین تنازع کی راہ کھول دی۔ ریڈ کلف کی اقامت گاہ اور دفتر کے لئے وائسر ائے کے ایوان کے ہی ایک حصے میں انتظام کیا تھا، باہر کے کسی آدمی کے علم میں آئے بغیر اس کے ساتھ ساتھ محتاط ربط و تعلق برقرار رکھنا ممکن تھا۔ ایسے ربط و تعلق کی قطعی شہادت محض اتفاق سے مل گئی۔

گورنر پنجاب جنکنز نے جو کاغذات پیچھے چھوڑے ان میں پنجاب کے بارے میں ریڈ کلف کے ثالثی فیصلہ کا خاکہ اتفاقاً اس کے جانشین سر فرانسس موڈی کے ہاتھ لگ گیا۔ یہ خاکہ وائسرائے کے پرائیویٹ سیکرٹری جارج ایبل نے جنکنز کی درخواست پر 8؍ اگست 1947ء کو تیار کیا تھا۔ جنکنز پنجاب کی سرحدوں کے بارے میں ثالثی فیصلہ کے اہم خطوط معلوم کرنے کا خواہاں تھا تاکہ وہ ضروری انتظامی اور حفاظتی انتظامات کر سکے۔ یہ خاکہ بونڈری کمیشن کے سیکرٹری سے موصولہ اطلاعات کی بنیاد پر ایک نقشے کی صورت میں مرتب کیا گیا تھا۔ اس خاکے کے مطابق فیروز پور اور زیرہ کی تحصیلیں پاکستان کا حصہ تھیں لیکن ریڈ کلف کے ثالثی فیصلے مورخہ 12؍ اگست 1947ء میں یہ تحصیلیں ہندوستان میں شامل کر دی گئیں۔ ظاہر ہے کہ پاکستان کے لئے یہ نقصان دہ تبدیلی ان دو تاریخوں یعنی 8؍ اگست اور 12؍ اگست کے درمیانی وقفے میں ہوئی۔ پنجاب بائونڈری کمیشن کے ایک رکن جسٹس دین محمد نے حکومت پاکستان کو اطلاع دی کہ جب ان تحصیلوں کا معاملہ پنجاب بائونڈری کمیشن کے سامنے پیش ہوا اور کمیشن کے پاکستانی ارکان نے اپنے دلائل شروع کئے، تو ریڈ کلف نے یہ کہہ کر انہیں روک دیا کہ ایسے اظہر من الشمس موقف کے بارے میں دلائل پیش کرنا غیر ضروری ہے۔ اپنے ثالثی فیصلے میں ریڈ کلف نے اعتراف کیا ہے کہ ’’دریائے ستلج کے مشرقی جانب اور بیاس و ستلج دریائوں کے زاویہ میں واقع مسلم اکثریت والے کافی وسیع علاقوں کے بارے میں اسے دیر تک تامل رہا‘‘۔ سوال یہ ہے کہ بعد میں یہ تامل کیوں پیدا ہوا، جب کہ ریڈ کلف نے خود ہی پہلے اسے ایک اظہر من الشمس موقف قرار دیا تھا؟ اور کس کی مداخلت اس تامل کا سبب بنی جس نے اس کے سابقہ فیصلے کو بالکل اُلٹ دیا؟

9؍ اگست 1947ء کو میں قومی قرضہ کے بارے میں ہندوستان کی تجاویز پر قائداعظم اور لیاقت علی خان سے مشورہ کی خاطر ایک دن کے لئے کراچی گیا۔ کراچی سے دہلی واپس روانہ ہونے سے قبل لیاقت علی خان نے مجھے بتایا کہ قائداعظم کو پنجاب کی سرحدوں علی الخصوص ضلع گورداسپور کے بارے میں اغلب فیصلے کے متعلق بہت تشویشناک اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین